قومی اسمبلی و سینیٹ کی عمارت ، پاکستان

پاکستان میں قانون سازی کیسے ہو رہی ہے؟ حیران کن انکشافات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ذرا سی بات / محمد عاصم حفیظ

ارض پاک میں بڑی تیزی سے ایسی قانون سازی سامنے آ رہی ہے جس نے معاشرے کی ہیت تبدیل کرنے کا کام کیا ۔ دینی و سنجیدہ حلقے چکرا کر رہ گئے ہیں ۔ ایک قانون کے اثرات سمجھتے ہیں اس کے مندرجات آشکار ہوتے ہیں تو اسی دوران اس سے بھی بڑھ کر قانون سازی سامنے آ چکی ہوتی ہے ۔ مدارس بورڈ و رجسٹریشن ۔ ایف اے ٹی ایف ۔ وقف املاک بورڈ ۔ گھریلو تشدد ۔ اقلیتی بل سمیت کئی ایسے قوانین تیزی سے منظور ہوئے ہیں کہ جن کے مندرجات دیکھ کر آپ حیران و پریشاں رہ جائیں ۔

کس طرح ملکی تشخص ۔ معاشرتی روایات ۔ خاندانی نظام ۔ دینی روایات ۔ نظام تعلیم اور معاشی نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا گیا ہے ۔ اس کے اثرات آپ معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ قانونی شکنجے اس قدر سخت ہو جائیں گے کہ ہوش اڑا کے رکھ دیں گے ۔ ایسی قانون سازی پلان کون کرتا ہے ۔ کون سے ذہن کام کرتے ہیں ۔ منصوبہ کس کا ہوتا ہے ۔ الفاظ کے چناؤ سے قانونی پیچیدگیوں تک سب مراحل کہاں تہ ہوتے ہیں ۔ اس سسٹم کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

میرے ایک دوست جو کہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز تھے ۔ ہم اکھٹے ایک ادارے میں تھے ۔ ایک دن بتانے لگے کہ ان کی ایک انٹرنیشل این جی او میں جاب ہو گئی ہے ۔ ڈیوٹی پارلیمنٹ میں لگی ہے۔ تھوڑا تجسس تھا ۔ پوچھنے پر بتایا کہ ان کی این جی او نے درجنوں قانون ۔ انٹرنیشنل ریلیشنز ۔ سوشیالوجی اور دیگر مضامین کے گریجویٹ بھرتی کئے ہیں ۔ ان کی ڈیوٹی ارکان اسمبلی وزراء اور سینیٹرز کے ساتھ لگائی گئی ۔ یہ این جی اوز کے نمائندے ارکان اسمبلی کو قانون سازی ۔ دفتری امور ۔ دستاویزات کی تیاری میں مدد کریں گے ۔

تنخواہیں این جی او دے گی اور ڈیوٹی پارلیمنٹ میں ارکان کے ساتھ ۔ آپ ذرا تصور کریں کہ ارکان پارلیمنٹ کو مفت سروسز دی جا رہی ہیں ۔ ان کی مدد و معاونت کے لیے ” رضا کار” فراہم کر دئیے گئے ۔ ارکان اسمبلی خوش ہوتے ہیں کہ انہیں مفت کے ملازمین مل گئے ۔ ان کی دستاویزات ۔تقاریر ۔ قانون سازی پر رائے ۔ لیٹرز کے جوابات ۔ دفتری امور یہ سرانجام دیتے ہیں ۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوتی ۔ جاگیر دار وڈیرے اور بزنس مین ہوتے ہیں ۔ حلقوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ ٹھیکے اور ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز کے حصول میں مگن ۔ ان کی قانون سازی کے متعلق ضروریات یہ این جی اوز کے فراہم کردہ ” رضا کار” پوری کر رہے ہوتے ہیں ۔

اب ایک دوسری صورت حال سمجھیں ۔ مغربی تھنک ٹینک اپنی حکومتوں کو مکمل رہنمائی دیتے ہیں کہ کس طرح اپنے نظریات ۔ سیکولر و لبرل طرز زندگی کو دیگر ممالک خصوصاً اسلامی ممالک میں نافذ کرنا ہے ۔ لابنگ اور قانون سازی کی مشاورت ۔ انہی کی رہنمائی میں مغربی حکومتیں اپنے متعلقہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور این جی اوز کو ہدایات دیتی ہیں ۔ اب وہاں پر فنڈز اکھٹے ہوتے ہیں کہ ان ان مقاصد کے لیے اتنے فنڈز رکھے جائیں گے ۔

اسلامی ممالک میں سرگرم مقامی این جی اوز کو یہ فنڈز چاہیے ہوتے ہیں ۔ وہ ورکنگ پیپر پیش کرکے فنڈنگ لیتے ہیں ۔ یہ اپنی ورکنگ اور پلاننگ پیش کرتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنے اپنے ممالک میں اثر ورسوخ رکھتے ہیں ۔کن بااثر شخصیات کے ساتھ تعلق ہے اور اگر انہیں پراجیکٹ دیا جائے تو وہ کس طرح یہ قانون سازی کروا لیں گے ۔ جب ایک مخصوص ایجنڈا بن جاتا ہے تو اس کے حوالے سے کئی این جی اوز کو ٹاسک ملتے ہیں ۔

مثلا عورت مارچ کی صورت میں ریلیاں کرانا ۔ مخصوص نعرے سامنے لانا ۔ پوسٹرز کے ذریعے پیغام دینا ایک این جی او کا کام ہو گا ۔ ان ریلیوں کو میڈیا پر ہائی لائٹ کرنا ۔ ٹاک شوز کا موضوع بنا دینا ۔ ارکان اسمبلی اور اہم شخصیات کو اس حوالے سے مدعو کرنا کسی اور کا ۔ اسے ایک بڑا ایشو بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ڈراموں ۔ فلموں اور ڈاکومنٹری کے موضوعات پر ویڈیوز سامنے آتی ہیں ۔

گھریلو تشدد جیسے قوانین راتوں رات پاس نہیں ہوتے ۔ فلموں ۔ ڈراموں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو ان دنوں پاکستانی ڈراموں میں محرم رشتوں ۔ طلاق ۔ کئی کئی عورتوں سب تعلقات کے موضوعات دیکھ لیں ۔ ہر ہر مرحلے پر فنڈنگ استعمال ہوتی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات ۔ اینکرز ۔ صحافیوں اور میڈیا مالکان کے لیے مراعات ہوتی ہیں ۔ میڈیا ہاؤسز کو فنڈز ملتے ہیں۔ حدود آرڈیننس ۔ ذرا سوچئیے اور دیگر میڈیا مہم آپ کو یاد ہوں گی ۔

معاشرے میں ڈسکشن کے بعد اب مرحلہ آتا ہے قانون سازی کا ۔ ارکان اسمبلی کو ان کے رضاکاروں کے ذریعے جو کہ قانون سازی میں معاونت کے لیے پہلے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں ۔ انہیں ماہرین قانون کا تیار کردہ ڈرافٹ فراہم کر دیا جاتا ہے ۔ آپ کبھی پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھیں ۔ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں جائیں ۔ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے کہ قانون سازی کے عمل میں کس طرح این جی اوز کے نمائندے باقاعدہ اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں ۔

مختلف قسم کے حقوق کے نام پر بنی این جی اوز کے نمائندے ان قائمہ کمیٹیوں میں قانونی دستاویزات تیار کراتے ہیں۔ انہی کے رضا کار ارکان اسمبلی کی جانب سے سفارشات شامل کراتے ہیں ۔ ارکان اسمبلی کو قائل کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سیمینار ۔ میٹنگز کے اخراجات یہ این جی اوز اٹھاتی ہیں ۔ ہم خیال ارکان اسمبلی کے گروپ کے ذریعے پارٹی حمایت لی جاتی ہے۔

کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ایسے قوانین کو اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی یکسر حمایت ملتی ہے حالانکہ عموما یہ ہر قانون پر ایک دوسرے کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں ۔ اگر کہیں مشکل پیش آ رہی ہو تو مغربی ممالک کے سفارت خانے اور اقوام متحدہ کے ادارے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر تک کے عہدیدار ایکٹو ہوتے ہیں ۔ میسج دیا جاتا ہے کہ یہ یہ والے قوانین بنانا کس قدر ضروری ہے۔ عالمی پابندیوں سے ڈرایا جاتا ہے ۔

ہر سال حقوق انسانی کی رپورٹ نشر ہوتی ہے ۔ اس میں تذکرہ ہوتا ہے ۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے ۔ وائٹ اور دیگر لسٹوں کا پریشر ہوتا ہے۔ اور اس طرح ایک قانون آئین کا حصہ بنا دیا جاتا ہے ۔ اس دوران مغربی ممالک سے آنے والے وفود بھی اس بارے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اعلی حکومتی عہدیداروں کو اس بارے اپنی آراء پہنچاتے ہیں۔

آپ غور کریں کہ اس سارے پراسس میں دینی جماعتیں اور دینی جذبہ رکھنے والے احباب کہاں کھڑے ہیں ۔ وہ تعلیم و تبلیغ میں مصروف ہیں ۔ انہیں کیا پتہ قانون سازی کی راہداریوں میں کیا ہو رہا ہے ۔ وہ تو دینی تعلیم کے شاندار ادارے بنا رہے ہوتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ ایک قانون وقف املاک اور مدارس رجسٹریشن کا آتا ہے ۔ سارے نظام کو بدل کر رکھ دیتا ہے ۔

کیا کبھی دینی جماعتوں نے اور ان غیر اسلامی و غیر شرعی قوانین کے بارے میں غصہ کرنے والے اصحاب خیر نے غور کیا ہے کہ انہیں بھی کوئی تھنک ٹینک بنانا چاہیے ۔ کیا وہ بھی قانون ۔ انٹرنیشنل ریلیشنز ۔ سوشیالوجی کے کچھ ماہرین اپنے خرچے پر اپنی ہی دینی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو فراہم کر سکتے ہیں ۔ کیا ملک کے سارے دینی حلقے ملکر دس سے پندرہ ایسے ماہرین بھرتی کر سکتی ہیں جو کہ قائمہ کمیٹی اجلاسوں میں شرکت کریں ۔ قانون سازی کے پراسس کو دیکھیں ۔ اس کے مندرجات کو پڑھیں ۔ غور کریں اور دینی ارکان اسمبلی کو بروقت آگاہ کریں ۔

دینی جذبہ رکھنے والے مختلف پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ کو آگاہ و قائل کرنے کے لیے میٹنگز کرائی جائیں ۔ یقین مانیں قانونی زبان اور پیچیدگیاں اس قدر ہوتی ہیں کہ دینی ارکان اسمبلی تک انہیں سمجھ ہی نہیں پاتے۔ بعض اوقات تو اس وقت پارلیمنٹ میں حاضر بھی نہیں ہوتے۔ جب قانون پاس ہو جاتا ہے پھر سب پریشان ہوتے ہیں۔ غصہ کرتے ہیں ۔ شور ہوتا ہے ۔ واویلا مچایا جاتا ہے لیکن قانون تو بن چکا ہوتا ہے ۔ وہ برقرار رہتا ہے ۔ بدلتا نہیں ہے ۔

دینی حلقوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پراسس کو سمجھیں ۔ ماہرین کی خدمات لیں ۔ جب ڈرافٹ تیار ہو رہے ہوں ۔ دستاویزات تیار کی جا رہی ہوں ۔ قائمہ کمیٹیوں میں بحث چل رہی ہو تو اس وقت اپنا فیڈبیک دیں ۔ دینی ارکان اسمبلی بذات خود تو ہر اجلاس کا ۔ ہر قائمہ کمیٹی کا ۔ ہر میٹنگ کا حصہ نہیں بن سکتے ۔ اس کے لیے تو ایکٹو ٹیم چاہیے جو انہیں آگاہ رکھے ۔ کہاں کون سی قانون سازی ہو رہی ہے ۔ خصوصاً معاشرتی سماجی ۔ دینی معاملات کے متعلق اس پر نظر رکھی جائے ۔ اس کے ڈرافٹ کو سمجھا جائے اور بروقت حکمت عملی بنائی جائے ۔

احتجاج ۔ انتباہ ۔ بیانات ۔ غصہ اور اظہار افسوس اگر بروقت کر لیا جائے تو اس کا فائدہ ہو سکتا ہے اور کئی غیر اسلامی و غیر شرعی بل ۔ معاشرتی و خاندانی نظام کی ہیت تبدیل کر دینے والے قوانین بننے سے پہلے بھی روکے جا سکتے ہیں ۔ اہل خیر آگے بڑھیں ۔ جس طرح تعلیم و تبلیغ کے اخراجات سے ثواب دارین ملتا ہے تو اسی طرح شریعت ۔ معاشرے ۔ خاندانی نظام ۔ حتی کہ مدارس و مساجد کا نظام بچانے کےلئے اس شعبے میں ایکٹو ہونے کی ضرورت ہے ۔ یقین مانیں یہ بھی ثواب کا کام ہے ۔

اگر اس بارے سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو بہت جلد یہ آپ کے خاندان ۔ آپ کے گھرانے ۔ آپ کے دینی ادارے ۔ آپ کی سماجی روایات اور آپ کے طرز زندگی کو متاثر کرے گا بدل کر رکھ دے گا ۔ اگر آپ قانون سازی کے شعبے میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کریں گے ۔ کچھ بوئیں گے ہی نہیں تو کل جب آپ کو اپنی دینی روایات ۔ مدارس و مساجد کا نظام بچانے کے لیے قانون کی مدد درکار ہو گی تو آپ کچھ کاٹ نہیں سکیں گے صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ فتوے ۔ غصہ بھری پوسٹیں ۔ احتجاج ۔ ریلیاں اور تقریریں کرنے سے پہلے اپنے حصے کا یہ کام کرنے کے بارے میں بھی ضرور سوچیں ۔۔

فرمان نبوی ہے کہ جو بویا وہی کاٹا جاتا ہے ۔ آپ کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لئے آپ نے کوشش کی ۔ اگر کچھ سرگرمی ہی نہیں تو بہتری کی امید کیسی ۔ اگر آپ یہ سوچ کر بیٹھے ہیں کہ جاگیر دار ۔ وڈیرے ۔ سرمایہ دار ارکان پارلیمنٹ این جی اوز کے رضاکاروں کے زیر اثر ایسی قانون سازی کریں گے جو دینی روایات کی امین ہو گی تو اسے صرف معصومیت ہی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہ دنیا ایک میدان ہے ۔ جو کوشش کرے گا ۔ سرگرمی دکھائے گا اسے کچھ نہ کچھ حاصل بھی ہو جائے گا ۔ جب کچھ شروع ہی نہیں کیا ۔ کچھ بویا ہی نہیں تو کاٹنے اور پھل کی کیا امید ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں