ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
کمیٹی پارٹی کی ساری ممبرز جمع تھیں ۔ بیگم نورانی نے صادقہ کے کان میں سرگوشی کی
” سنا ہے تمہاری نند سلیمہ آج کل بیٹی کی طرف سے بہت پریشان ہے ”
صادقہ نے تنک کر جواب دیا ” مکافات عمل ہے، جو کچھ اس نے میرے ساتھ کیا تمہیں یاد ہے نا! میرے بیٹے کا رشتہ ٹھکرا کر مجھے دکھی کیا تھا اس کا نتیجہ یہی ہونا تھا ،بھگتے اب ۔۔۔ ”
اس طرح کے مکالمے اکثر ہی سننے میں آتے ہیں۔ یقینا انسان کو اپنے کئے کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے اور جیسا کر و گے ویسا بھرو گے ، وغیرہ جیسے محاورے بھی حقیقت ہیں ۔ سب کو علم یہ بھی ہے کہ ہر انسان کے لئےدنیا مصائب و آزمائش کا گھر ہے ، انسان کسی نہ کسی مسئلے میں گھرا ہی رہتا ہے۔
بے فکری کا دور تو اب بچپنے میں بھی نہیں رہا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسائل گھمبیر ہوتے جاتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی سانحہ، مشکل مسئلہ درپیش رہتا ہی ہے ۔ اگرچہ ہر فرد کے مسائل کی نوعیت فرق ہوتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کس کی آزمائش کس طور ہوجائے گی اور کوئی دوسرے کے بارے میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے اوپر آنے والا مشکل وقت امتحان ہے یا سزا۔۔ سب معاملات مکافات عمل کے تحت نہیں ہوتے بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہر عمل ” لوح محفوظ ” میں پہلے سے لکھا جا چکا ہے کہ انسان اپنی سمجھ بوجھ، عمر ، تجربے مشاہدے ، اور علم کے مطابق کس وقت کیا غلط یا درست طرز عمل اختیار کرے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ہی مسائل سے نپٹنے کی سمجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔۔۔ جب تک انسان میدان عمل میں نہیں پہنچ جاتا اسے مشکلات ،مسائل اور ان کے حل کا فہم و ادراک نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے وہ بچپن میں جو کرتا ہے جوانی میں سمجھ آتی ہے کہ سب لا یعنی تھا۔
ازدواجی زندگی انسان کی مزید آنکھیں کھول دیتی ہے تو بڑھاپے میں جوانی کی بہت سی” عقل مندیاں” نری خطائیں لگتی ہیں اور صرف پچھتاوا ہاتھ آتا ہے۔۔ یہ طرز عمل اولاد آدم کو ورثے میں ملا ہے کیونکہ اس کی سرشت میں نسیان بھی ہے اور جلد بازی بھی۔۔۔ اور تجربہ و وقت ہی انسان کا سب سے بہترین استاد ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ کسی نے نقصان پہنچانے کی نیت سے کوئی فعل کیا ہو ممکن ہے ہماری کج فہمی ہو اور دوسرے کے عمل کی مثبت سوچ تک ہم نہ پہنچ پائے ہوں ۔
ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں اکثر پائے جاتے ہیں۔ جو اس تلاش میں رہتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ،سانحات و حادثات کو اپنی انا کی تسکین کا ذریعہ بنا لیں، یہ سوچ کر کہ "میں کوئی پہنچی پہنچی خاص شخصیت ہوں میرے ساتھ برا کرنے والا اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا” ، جہاں کہیں کسی کو مصیبت میں دیکھا اس کی طرف سے اپنے اوپر کی گئی زیادتیاں یاد آنے لگتی ہیں اور اس کی خطائوں کا رجسٹر کھول لیا جاتا ہے کہ یہ اسے میرے ساتھ کی گئی فلاں زیادتی کی سزا مل رہی ہے ۔۔
پھر تصدیق کے لئے لوگوں سے اس کا تزکرہ کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اپنی رائے پہ قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اگر کوئ خطا نہ بھی ملے تویہ فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ پتہ نہیں اس نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جواس پہ سختی کا وقت آیا ہوا ہے۔۔ دوسروں کی چھوٹی موٹی تکالیف کو جھٹ سے مکافات عمل کہہ دینا ایک غلط طرز عمل ہے۔
"کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں سے تم پڑھتے ہو؟ جس میں تمہاری من پسند باتیں ہیں۔یا تم نے ہم سے کچھ قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت تک باقی رہیں گی کہ تمہارے لیے وه سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لوان سے پوچھو توسہی کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہ دار (اور دعویدار) ہے؟”
دنیا میں پیش آمدہ واقعات کی اپنی من پسند تاویلات و تو جیہات پیش کرنا اللہ تعالی کے کاموں میں دخل اندازی ہے اور یہ تکبر کی ایک قسم ہے اور تکبر اللہ تعالی کے مد مقابل آنے کا دوسرا نام ہے۔۔
مکافات کا قانون کس طرح کب اور کس عمل پہ لاگو کرنا ہے یہ اس رب دو جہاں کی صوابدید پر منحصر ہے۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ دوسروں کو پہنچنے والی تکالیف ضرور اس کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ کئے گئے برے عمل کا بدلہ ہے۔ مکافات سے ڈرنا عبرت پکڑنا اپنی ذات کے لئے تو مستحسن ہے، اپنے اعمال کے نتائج کی فکر ہونا اور اپنا محاسبہ کرتے رہنا عقل مندی ہے مگر دوسروں کی مصیبتوں کے بارے میں مکافات عمل کا پرچار کرنا ،اور اس پہ خود کو تسکین پہنچانا قساوت قلبی کی نشانی ہے۔
اللہ تعالی کو علم ہے اور وہی اس بات کا مجاز ہے کہ کس کے اعمال کا اچھا یا برا بدلہ دنیا میں دینا ہے یا آخرت میں؟ بندوں کے درمیان بشری کمزوریوں کی بناء کوئی نہ کوئی تنازعہ چلتا ہی رہتا ہے۔ وہ رب کائنات ہی ہے جو نیتوں کے بھید جانتا ہے یہ بھید روز قیامت کھولے جائیں گےکہ درحقیقت کس کی زیادتی ہے؟ با اختیار ، چرب زبان یا تند خو شخص دنیا میں اپنے حریف کو دبا لے یا اپنا مقدمہ جیت بھی جائے تو اللہ کی سب سے بڑی عدالت میں بے قصور اور قصوروار کھل کر سامنے آجائیں گے اور بے قصور کو انصاف ضرورمل کر رہے گا۔۔
دنیا کی بڑی سے بڑی عدالت اور بڑے سے بڑا منصف بھی بے قصور کو قصوروار سمجھنے کی غلطی کر سکتا ہے ،وہ مالک یوم الدین ہی ہے جو پورا پورا اور کھرا انصاف کر سکنے کا مجاز ہے۔اور اسی کا یہ خاص وصف ہے کہ وہ کسی پہ ظلم نہیں کرے گا۔ اور اللہ سبحانہ و تعالی پہ یہ ایمان اور بھروسہ بے قصور بندے کا اعتماد بڑھاتا ہے۔
دنیا میںاچھے برے حالات لوگوں کے درمیان پھرائے جاتے ہیں اور ہر حالت ، ایمان کا امتحان ہے۔ اللہ رب العزت نے رحمت کا شیوہ اپنے اوپر لازم کیا ہے وہ اپنے بندوں کو دائمی خوشیوں سے نوازنے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکالتا رہتا ہے۔ لازم نہیں ہے کہ بیماری،دکھ ،اور آزمائشیں کسی برے عمل کی سزا ہوں ممکن ہے درجے بلند کرنے کا سہارا اور وسیلہ ہوں ۔ اگر کسی مصیبت زدہ نے تو اس کو اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ سمجھا اور اس سے قرب الہی حاصل بھی کیا مگر دوسرے فرد نے اس کو اپنی مخاصمانہ طبیعت و استعداد ظرف کے مطابق مکافات کا نام دیا تو وہ خود اللہ تعالی کی نظر میں اپنا مقام گرا لے گا۔
ہر حال میں خود کو بر حق اورفضیلت کا زعم رکھنے والا فرد حسد ،بغض ۔اور تکبر کی بناء پہ دوسرے کو مقہور اور اپنا حریف گردانتا ہے ۔ جب کبھی زندگی کے کسی موڑ پہ اپنے مخالف کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو تسکین پاتا ہے کیونکہ وہ اپنے حریف کو زک پہنچانے کی بابت سوچتا رہتا ہے ۔ جہاں کہیں مخالف کے حالات دگرگوں ہوئے تو اس کے دل کا بغض منہ سے پھوٹا پڑتا ہے۔۔۔اللہ تعالی نے لوگوں کی من پسند تاویلات پہ دنیا کا نظام نہیں منضبط کیا اس کے اپنے اصول و قواعد ہیں جن کے سارے اختیارات اس کے ہاتھ میں ہیں اپنے بندوں کی بہت سی خطائیں تو وہ معافی مانگے بغیر ہی معاف کر دیتا ہے
اگر وہ مہربان رب ہر خطا پہ بندوں کو فورا پکڑنے اور سزا دینے کی پالیسی اختیار کرتا تو روئے زمیں پہ کوئی جاندار زندہ نہ چھوڑتا یہ اس کی مہربانی اور حکمت عملی ہے کہ وہ مہلت دیتا ہے موقعے دیتا اور معاف کرتا ہے ۔بندےکا ہر گز یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کے معاملات اور تقدیروں پہ اپنے فیصلے لاگو کرکے فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کرے۔بلکہ ہر فرد کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے اپنے کل کے لئے کیا سامان تیار کر رکھا ہے؟
ہر کسی کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ وہ اللہ تعالی کی پکڑ میں نہ آجائے، دوسروں کی تکلیفوں کے بارے میں یہ جوڑ توڑ کرتےرہنا کہ یہ کس گناہ کا رد عمل ہے ایک شیطانی اکساہٹ ہے۔ اگر اپنے تعلق داروں میں سے کسی کےبارے میں یہ خیال آنے لگے تو کوشش کرکے اس احساس کو ٹالنا چاہئے۔
جس بندے کو یہ پختہ علم ہو کہ موت کا فرشتہ اس کے تعاقب میں ہے۔قبر اس کوپکار رہی ہے کسی لمحے کسی وقت موت اس کو اپنے شکنجے میں جکڑ لے گی اور زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اس کی قبر کو تنگ کر سکتا ہے تو وہ دوسروں پہ آنے والی مصیبتوں پہ رائے زنی کرنے کی بجائے اپنی قبر کے بارے میں فکر مند ہو جائے۔ اور اسے ہوش ہی نہ رہے کہ دوسروں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، اور کیوں ہو رہا ہے۔؟ اسے اپنی قبر کے اس حال کی فکر لاحق ہو جائے جو وہاں اس کے ساتھ ہونے والا ہے۔