ڈاکٹر خولہ علوی
"ابو جان! ہمارا بکرا کب آئے گا؟” سات سالہ ساجد نے ابو جان سے پوچھا۔
"ہماری گلی میں منصور انکل نے کئی دن پہلے سے بکرا خریدا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر ہمارا دل کرتا ہے کہ ہمارا بکرا بھی آجائے۔ آپ بھی جلدی سے بکرا خرید لائیں۔” خالد نے ابو جان سے فرمائش کی جسے بہن بھائیوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ عیدالاضحیٰ سے تقریباً بیس بائیس دن پہلے بچے ابو سے ضد کررہے تھے۔
"ابھی تو قربانی میں کافی دن باقی ہیں۔” ابو ابھی اتنی جلدی بکرا لانا نہیں چاہتے تھے۔
"آج کل تو ہمیں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور ہم سارا وقت گھر میں ہوتے ہیں۔ تو ہم خود اس کی دیکھ بھال کریں گے اور آپ کو اس کی فکر نہیں کرنی پڑے گی۔” انہوں نے ابو کو بکرا جلد خریدنے پر بالآخر رضامند کرلیا۔
"ابو جان! بکرا براؤن رنگ کا بڑا سارا اور موٹا تازہ ہو۔” چھوٹے ساجد نے ابو کے سامنے فرمائشی پروگرام جاری کیا۔ سب نے اس کی تائید کی۔
چنانچہ اگلے روز ابو جان بڑے بیٹے عابد کو ساتھ لے کر منڈی مویشاں سے کافی دیر تک پھر پھرا کر بچوں کی مرضی کا براؤن رنگ کا بکرا لے آئے جو قد میں تو اونچا تھا لیکن اتنا موٹا تازہ نہ تھا۔ بچوں نے بکرا دیکھا تو انہیں بکرا پسند تو آیا لیکن اس کی درمیانی سی صحت کی وجہ سے وہ اتنے خوش نہ ہوئے۔
"ہم نے تین چار گھنٹے کی محنت اور مشقت کے بعد یہ بکرا خریدا ہے!” عابد نے انھیں بتایا تو پھر انہیں اس کی قدر ہوئی۔
"کوئی بات نہیں۔ ہم خود اسے کھلا پلا کر موٹا تازہ کر لیں گے۔ ابھی عید کے آنے میں کافی دن باقی ہیں۔” خالد نے انہیں حوصلہ دیا۔
اتنے میں امی جان بکرے کو دیکھنے باہر صحن میں آگئیں ۔ انہوں نے بکرے کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور اس کے جسم پر تھپکی دی۔ پھر سب بچوں نے بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے پیار سے بکرے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے جسم پر تھپکیاں دیں۔ پھر اسے چلا پھرا کر دیکھا اور صحن کے ایک طرف اسے باندھ دیا۔ اس کے لیے چارہ اور پانی کا بندوبست کیا۔
بچے اب دن رات اس کی خدمت میں مصروف رہتے ۔ ابو جان کو اس سلسلے میں کوئی خاص فکر نہیں کرنی پڑتی تھی۔ عابد وغیرہ خود ہی بکرے کو چارہ، پتے، کھل، چنے، گندم وغیرہ لا کر ڈالتے اور شام کو اسے گھمانے پھرانے کے لیے لے جاتے ۔ صبح اسے نہار منہ پانی میں آٹا ملا کر آٹےکا مشروب پلاتے ۔ بکرا بھی ان سے خوب مانوس ہو گیا۔ وہ ان کو دیکھ کر خوش ہوتا اور خوب "میں میں” کرتا۔ ان کی "ٹہل سیوا” سے اس کی صحت مسلسل بہتر ہو رہی تھی۔ بکرے کی جگہ اور اس کی گندگی وغیرہ بھی وہ کبھی کبھار صاف کر دیتے تاکہ امی جان کو شکایت کا زیادہ موقع نہ ملے۔
"ابو جان! آپ ہمارے اتنے پیارے بکرے کو کیوں ذبح کر دیں گے؟ یہ تو جیسے ہمارے گھر کا ایک فرد بن گیا ہے۔ ہمارے ساتھ خوش رہتا ہے اور ہمارے بغیر اداس ہو جاتا ہے۔ ہم بھی اس کے ساتھ خوش رہتے ہیں اور اس کے بغیر اس کی فکر میں رہتے ہیں۔” چھوٹے ساجد نے عید سے دو دن پہلے اداسی سے سوال کیا۔
ابو جان نے سب بچوں کو بٹھا کر عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بتایا۔ تکبیرات پڑھنے کی اہمیت اور ثواب بیان کیا۔ اس کے علاوہ ان کو قربانی کا مقصد اور فلسفہ بھی سمجھایا۔
"ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کر رہے ہیں۔چونکہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنی سب سے قیمتی چیز، اپنے پیارے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا تھا۔” ابو جان نے قربانی کے بارے میں بتایا۔
"کیا حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا تھا؟” پانچ سالہ انیسہ نے انتہائی حیرانی سے پوچھا۔
"ابو تو بچوں سے اتنا پیار کرتے ہیں۔ بھلا کوئی ابو اپنے بچے کو ذبح کر سکتے ہیں؟” ساجد نے بھی تعجب کا اظہار کیا۔
"جی ہاں۔ انہوں نے اسے زمین پر لٹا کر اس کی گردن پہ چھری پھیر دی تھی جیسے ہم جانوروں کو زمین پر لٹا کر ذبح کرتے ہیں تو انہوں نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا تھا۔ کیونکہ یہ اللہ کا حکم تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کی یہ قربانی قبول فرمائی اور پلک جھپکتے میں فرشتوں کے سردار حضرت جبریل امین کے ہاتھ مینڈھا (دنبہ) بھیج دیا تھا۔” ابو جان نے کہا۔
"کتنی عجیب بات ہے!” ساجد اور انیسہ کے منہ سے مارے حیرت کے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
"چھری حضرت اسماعیل کی گردن پر چلنے کے بجائے مینڈھے کی گردن پر چل گئی تھی۔” ساجد بمشکل بولا۔
"اللہ تعالیٰ نے دنبہ بھیج دیا تھا۔ اور وہ بھی آسمان سے!” انیسہ ابھی تک حیرت زدہ تھی۔”جی ہاں! حضرت اسماعیل کی جگہ آسمان سے دنبہ آیا تھا جسےحضرت ابراہیم نے ذبح کیا تھا۔” ابو جان ان کی حیرت پر مسکرا دیے تھے۔
"قربانی اس بات کی تجدید ہے کہ ہم اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ "اللہ تعالی!ٰ آپ کا حکم ہے کہ ہم جانور قربان کریں تو ہم جانور قربان کر دیتے ہیں۔ اگر آپ نے ہم سے بیٹوں جیسی قیمتی چیز مانگی تو ہم وہ بھی قربان کر دیں گے۔” ابو جان نے ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے قربانی کے مقصد کو واضح کیا تھا۔
"اگر اللہ ہمیں حکم دے کہ بکرے کی جگہ عابد، خالد یا ساجد کو قربان کردیں تو پھر کیا ہمارے لیے یہ آسان ہوگا؟” ابو جان نے سوال پوچھا۔
نہیں نہیں۔ یہ تو بڑا مشکل ہے۔” بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر بیک زبان بولے۔
"ٹھیک ہے۔ پھر کیا ہم بکرے کو ذبح کردیں؟ کیوں ساجد؟” ابو جان نے ساجد کو مخاطب کیا تھا۔
"جی جی بالکل۔ بکرے کو ہی ذبح کر دیں۔” بچوں نے شدومد سے سر ہلایا۔
"کیا ہم آپی خنسہ، آپی شمسہ یا انیسہ کو ذبح کر سکتے ہیں؟” ساجد نے نجانے کیا سوچ کر پوچھا۔ شاید اس کے ذہن میں یہ بات آ گئی تھی کہ”اگر لڑکے کو ذبح نہیں کیا جاسکتا تو لڑکی کو ذبح کیا جا سکتا ہے۔”
اس بات پر بچے ہنسنے لگے۔ لیکن خنساء اور شمسہ نے گھور کر ساجد کو دیکھا۔ چھوٹی انیسہ تو رونے والی ہوگئی۔
"نہیں بیٹا! اگر ہم آپ کو ذبح نہیں کر سکتے تو ہم بیٹیوں کو بھی ذبح نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالی نے بیٹے اور بیٹیوں میں فرق نہیں رکھا۔” ابو جان نے بھی ہنستے ہوئے اسے سمجھایا۔
"پھر ہم جانوروں کی بھی قربانی کیوں کرتے ہیں؟” خالد نے پوچھا۔”اللہ تعالیٰ کو ان (قربانیوں) کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی خون پہنچتا ہے۔ بلکہ اللہ کو دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔” (سورۃ الحج:37) ابو جان نے قرآنی آیت کا ترجمہ بیان کیا۔”قربانی کا گوشت لوگ کھالیتے ہیں اور خون بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ دلوں کےتقویٰ سے مراد نیتوں کا خالص ہونا ہے جس کی وجہ سے انسان کو اپنے عمل کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔” ابو جان نے قربانی کی روح بیان کی۔
پھر جب عید الاضحیٰ کا دن آیا۔ سب نے نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے۔ اور عید گاہ میں عید الاضحیٰ کی نماز باجماعت ادا کی اور پھر اول وقت میں بکرے کو ذبح کر دیا۔ "ابو جان! بکرے کی گردن پر چھری میں پھیروں گا۔” عابد نے پہلے سے اپنی خواہش گوش گزار رکھی تھی۔
لہٰذا جب اس نے تکبیر پڑھ کر بکرے کی گردن پر تیز دھار چھری چلائی تو خالد نے موبائل سے اس کی ویڈیو بنانی شروع کردی ۔ اور پھر فوراً اس کو وائرل بھی کرنے لگا۔ اباجان نے اس کا مدعا جان کر اسے ویڈیو وائرل کرنے سے منع کردیا۔ "کہیں یہ ریاکاری کے زمرے میں نہ آجائے۔ بس اللہ تعالیٰ ہماری قربانی قبول فرما لیں۔” ابو جان دھیرے سے بولے۔
بچوں نے حسب توفیق قربانی کے کاموں میں امی اور ابو کی مدد کی۔ امی جان نے بہترین اور خوشبودار کھانا تیار کیا اور سب نے مل بیٹھ کر خوشی سے کھایا پیا اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ گوشت کی تقسیم میں بھی بچے پیش پیش تھے۔ جن گھروں میں گوشت پہنچانے تھے، امی جان نے ان سب کے ناموں کی لسٹ پہلے سے تیار کر رکھی تھی۔ گھر میں کچھ گوشت رکھ کر باقی سب منظم طریقے سے تقسیم کردیا گیا۔
"بکرے کی سری اب تو بڑی بھاری ہوگئی ہے۔ ہلائی نہیں جا رہی۔ پہلے تو بکرے کے سر کو ہاتھ لگاتے تھے تو یہ بڑا ہلکا ہوتا تھا اور آرام سے ادھر ادھر مڑ جاتا تھا۔” چھوٹا ساجد بکرے کی سری کو ادھر ادھر ہلا کر دیکھ رہا تھا۔
"اسے گرمی لگ رہی ہوگی۔ پنکھا چلا کر رکھیں تاکہ اسے اچھی طرح ہوا لگتی رہے۔” کبھی ساجد یہ بیان جاری کرتا۔
"بکرے نے ایک دن مجھے گرایا تھا۔ اب میں اس کے سر سے بدلہ لیتا ہوں۔” پھر وہ بیان بدل لیتا۔
"نہیں نہیں۔ میرا بکرا تو بہت پیارا ہے۔ یہ تو اللہ کی راہ میں قربان ہو گیا ہے۔” ساجد کبھی ایک بات کرتا تھا، کبھی دوسری۔
"مجھے سری بہت پسند ہے. مجھے کل ہی پکا کر دیں۔ میں نے کھانی ہے۔” اس نے امی جان سے فرمائش کی ۔
عصر سے کچھ دیر پہلے بچے تھک چکے تھے۔ کام تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔ پہلے خالد اور پھر عابد دونوں اندر کمرے میں جا کر لیٹ گئے۔ ان کے والد نے انہیں بمشکل نماز عصر کے لیے اٹھایا اور نماز ادا کروائی۔ پھر انہیں سمجھایا کہ "قربانی کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور نماز پنجگانہ پڑھنے کا حکم بھی اسی مالک کا ہے۔ قربانی سال بعد کرنی ہوتی ہے اور فرض نماز ایک دن میں پانچ مرتبہ ادا کرنی ہوتی ہے۔ قربانی کی روح اور مقصد یہ ہے کہ "اللہ تعالیٰ کو صرف جانور کی قربانی مطلوب نہیں بلکہ نفس اور اس کی خواہشات کی قربانی بھی مطلوب ہوتی ہے۔” ابو جان نے ان کو سمجھایا۔
"اسی طرح نماز ادا کرنے کے لیے نفس کے ساتھ مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کمی بیشی ہوجائے تو اس کی فوراً اصلاح کرنی چاہیے۔” انہوں نے نماز کی استقامت کی طرف توجہ دلائی۔
؎ خواہشوں کے ساتھ اپنے نفس کو بھی فنا کر زندگی میں اس سے بہتر کوئی قربانی نہیں
"قربانی ایسی اہم عبادت ہے جس کا ہماری زندگی میں بہت اہم عملی کردار ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں نماز کے ساتھ قربانی کا تذکرہ کیا ہے جس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح نماز کی دائمی اہمیت ہے جس کی اللہ کی نگاہ میں قدرو قیمت بہت زیادہ ہے۔” ابو جان نے مزید بتایا۔”قربانی صرف جانور کی نہیں ہوتی بلکہ اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی قربانی بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔”عابد نتیجہ اخذ کر کے بولا تو بچوں نے اثبات میں سر ہلائے تھے۔
"حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا گھر، اپنا علاقہ اور اپنا وطن اللہ کی خاطر قربان کر دیا تھا اور دارالکفر سے ہجرت کر کے دوسرے علاقے میں چلے گئے تھے۔ دیگر ہر طرح کی جانی و مالی قربانیاں بھی پیش کی تھیں اور ان سب کے بدلے میں اللہ تعالی نے انہیں یہ انعام عطا کیا کہ انہیں تا ابد "امام الناس” اور "خلیل اللہ” بنا دیا اور قرآن مجید میں بھی ان کے یہ القاب بیان کردیے۔ وہ یہود، نصاریٰ، مسلمانوں سب کے لیے اسوہ حسنہ (role model) ہیں” رات کو ابو جان نے بیان کیا۔
انہوں نے مناسب سمجھا تھا کہ چند مثالوں کے ذریعے قربانی کا تصور مزید واضح کیا جائے۔”قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی حقیقی داستان بیان کی گئی ہے۔ جب قابیل نے حسد کی وجہ سے ہابیل کو قتل کرنے کے لیے وار کیا تو ہابیل نے بدلہ لینے کی خواہش کو قربان کرتے ہوئے اپنا ہاتھ روک لیا تھا۔ چنانچہ قابیل غالب آ گیا اور اس نے ہابیل کو قتل کر دیا۔چونکہ ہابیل کا قتل مظلومانہ تھا اور قصور وار قابیل تھا، اس لیے قابیل نہ صرف اپنے گناہوں کا ذمہ دار بنا بلکہ اپنے بھائی ہابیل کے گناہ بھی اس نے اپنے سر لے لیے۔
ہابیل نے قابیل کے ہاتھوں مرنا گوارا کرلیا لیکن اس نے اس سے بدلہ لے کر اس کے گناہ بھی اپنے سر لینا گوارا نہ کیا۔اور بدلہ لینے کی خواہش کو قربان کرکے اپنی جان دے دی۔” ابو جان نے قصہ مختصر کرکے ہابیل کی قربانی بیان کی تھی۔
"حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک موقع پر اصیل عمدہ گھوڑوں کی قربانی دی تھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہواؤں پر کنٹرول عطا کر دیا تھا۔” انہوں نے جلیل القدرپیغمبر حضرت سلیمان کی ایک قربانی بیان کی۔”حضرت صہیب سنان رومی رضی اللہ عنہ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر اپنا سارا مال و دولت مشرکین کے حوالے کر دیا تھا اور ہجرت کے لیے مال و متاع کی قربانی دے دی تھی تو اللہ تعالی نے ان کی قربانی کا بدلہ جنت کی صورت میں عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ "کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی رضا کی خاطر اپنے جان و مال بیچ دیتے ہیں۔” (سورۃ البقرہ2: 207) ابو جان نے محبت سے ایک صحابی کی یادگار قربانی کا تذکرہ کیا۔
"حقیقت یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں بڑی قربانیوں کے علاوہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں بھی بہت اہم ہوتی ہیں۔” ابو جان بخوبی سمجھتے تھے کہ "کچے ذہنوں کی تربیت سازی جہد مسلسل کا نام ہے۔”
دراصل "زندگی قربانی کا نام ہے اور قربانی زندگی ہے۔” انہوں نے زندگی اور قربانی کا باہمی تعلق واضح کر دیا۔