قومی اسمبلی و سینیٹ کی عمارت ، پاکستان

گھریلو تشدد کے خلاف قانون اصل میں ہے کیا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قرة العين :

گزشتہ دنوں ایک خبر نظر سے گزری جس میں لکھا تھا کہ سینٹ میں گھریلو تشدد کے خلاف ایک بل پیش کیا گیا اور کثرت رائے سے منظور بھی کر لیا گیا ، اس کی مخالفت جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کی۔خبر پڑھ کر حیرانی ہوئی اور تجسس بھی کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت جو ہمیشہ کمزوروں کی آواز بن کر سامنے آتی ہے پس پردہ اس تشدد کی حمایت کرتی ہے؟

اس تجسس میں کھوج شروع کی تو معلوم ہوا کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ تشدد کے روک تھام کی ملمع سازی کے پیچھے خاندانی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی تخریب کاری کی جارہی ہے بلکہ کی جا چکی ہے کیونکہ چند روز قبل قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد انسداد گھریلو تشدد کا نیا قانون دارالحکومت اسلام آباد میں نافذ العمل ہو گیا ہے۔ بظاہر یہ قانون” گھریلو تشدد (انسداد اور تحفظ) ایکٹ 2021″ بڑا پرکشش معلوم ہوتا ہےلیکن اصلاً اپنے اندر بہت سی خرافات سموئے ہوئے ہے۔

اس قانون کے تحت "گھریلو تشدد” کا شکار کوئی بھی "متاثرہ فریق” ملزم کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے جس پر جرم ثابت ہونے کی صورت میں "مجرم” کو کم از کم چھ ماہ قید اور زیادہ سے زیادہ تین سال قید تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بیس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا بھی سنائی جائے گی۔

ایکٹ کی دفعہ دو میں "متاثرہ فریق” کی تعریف کی گئی ہے جس کے مطابق متاثرہ فریق کسی گھر میں مقیم ہر وہ خاتون، بچہ یا کسی جسمانی کمزوری کا شکار فرد ہو سکتا ہے جسے گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔ اس تعریف کا مصداق لامحالہ گھر کا سربراہ ہے۔

دفعہ تین میں "گھریلو تشدد” کی تعریف مذکور ہے جس میں ہر قسم کے جسمانی، ذہنی، جذباتی اور مالی استحصال کو گھریلو تشدد قرار دیتے ہوئے مزید صراحت کے ساتھ یہ قرار دیا گیا ہے کہ متاثرہ فریق ( بیوی بچوں ) کے ساتھ اختیار کئے جانے والے درج ذیل رویے( چند ایک قابل اعتراض یہاں مذکور ہیں ) اس تعریف کے تحت گھریلو تشدد میں شمار ہوں گے:

ضرورت سے زیادہ "پوزیسونیس”کا اظہار کرنا۔
"پرائیویسی” میں دخل دینا۔
زوجہ کو طلاق یا دوسری شادی کی دھمکی دینا۔
دانستہ فاصلہ اختیار کرنا یا بیوی کا بستر الگ کرنا۔
گھورنا۔
جنسی استحصال۔

اب ظاہر ہے کہ سربراہ خاندان کا اپنے اہل خانہ سے یہ سوال کرنا کہ کہاں گئے تھے ؟ کہاں سے آ رہے ہو ؟ فون پر کس سے بات ہو رہی تھی؟ وغیرہ وغیرہ یہ سب "پرائیویسی” میں دخل اندازی اور ضرورت سے زیادہ "پوزیسونیس” گردانے جائیں گے اور بیوی بچوں کو ڈانٹنا تو درکنار گھورنا بھی جرم تصور ہو گا۔ طلاق اور دوسری شادی کی دھمکی بھی جرم ہو گی اور بیوی کے ساتھ "ہراسمنٹ” اور "جنسی استحصال” جیسے جرائم کرنے کا نتیجہ بھی انتہائی سنگین ہو گا۔

یاد رہے کہ ان سب باتوں کی سزا تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔سزا سے قطع نظر اب ان معاملات پر گھر کا سربراہ عدالتی کٹہرے میں کھڑا نظر آئے گا۔یہی وہ مادر پدر آزادی ہے جس کی آگ نے مغرب کا خاندانی نظام بھسم کر دیا اور اب یہ غلامان فرنگ اسی تباہی کو وطن عزیز میں دعوت دے رہے ہیں

پھر یہ سب نکات قرآن سے کھلم کھلا متصادم ہیں جہاں مرد کو قوام اور نگران بنایا گیا ہے جسے اپنے اہل کا راعی کہہ کر بااختیار اور اہل خانہ کی اصلاح کے ضمن میں عنداللہ مسئول بنایا گیا ہے۔جہاں ضرورتاً طلاق اور بشرط عدل چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے۔جہاں مرد کو اپنی خانگی زندگی میں تقوی کے ساتھ فیاضی مگر بقدر ضرورت عورت کی تادیب کا بھی حق ہے۔۔۔۔

ایک ہی قانون نے کتنے قرآنی احکامات کی شدید ترین خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے اس قوم کے چنیندہ مسلم نمائندے ہیں جنہیں یا تو انگریزی میں لکھے گئے اس بل کے مندرجات سمجھ نہیں آئے یا پھر ان کو قرآن وسنت سے کوئی واسطہ نہیں۔

بہر کیف ان ناعاقبت اندیشوں کی مہربانی سے ایسا قانون پاس ہو گیا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے بھی خلاف ہے جس میں صاف درج ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ ایسے میں کسی نے آواز اٹھائی تو وہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اور ان کا ساتھ دیا جمعیت علمائے اسلام کے نمائندے نے۔لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند بے وقعت ٹھہری۔ یہ جان کر اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر اس ملک وقوم کی سچی خیرخواہ کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس نے ہمیشہ نظریہ پاکستان کی حفاظت کی ہے۔

ہمارے وزیراعظم صاحب سمندر پار جا کر لفظوں کے کھیل تو بڑے اچھے سے کھیلتے ہیں لیکن ان کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے شاید اس سے ناآشنا ہیں۔یہ عیاری ہے یا معصومیت اس کا فیصلہ خدا پر ہے لیکن ایسے قوانین کو پاس کرنے والے سب مجرم ہیں اور اپنے ووٹوں کے ذریعےان کو یہ اختیار دینے والے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔

ان جرائم کی بازگشت سالوں بعد بھی سنی جائے گی جس کی لپیٹ میں ہم اور ہمارا آنے والا سارا معاشرہ آجائے گا۔ہمارا مضبوط خاندانی نظام ہمارا سرمایہ افتخار ہے اور جہاں کچھ رخنے ہیں ان کو پاٹنے کے لئے اپنے اصل قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جہاں کامل اور جامع ہدایات موجود ہیں جو عین تقاضائے فطرت کے مطابق ہیں۔ معاشرے کی بقاء اور خوشحالی صرف اسی نظام میں مضمر ہے جو خالق کائنات نے دیا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں