عصمت اسامہ :
دنیا میں بہت سی شخصیات سے ہم متاثر ہوتے ہیں ،کچھ کی ظاہری وضع قطع سے ،کچھ کی گفتگو سے لیکن کچھ اللہ کے بندے اپنے عمل ،اخلاق و کردار کی خوشبو سے یوں ماحول مہکا دیتے ہیں کہ ان کے پائے کا کوئی دوسرا کبھی ملتا ہی نہیں ۔
سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن صاحب بھی ایسی شخصیت تھے ۔ ان کا خطبہ جمعہ سننے کا لطف آیا کرتا ،صاف ستھرا لہجہ ، شائستہ الفاظ ، دو ٹوک بیانیہ ، بے ساختہ روانی –
سننے والے اپنی اردو بھی درست کرتے جاتے لیکن ان کی سنجیدہ و سائبان شخصیت مجھ پہ بطور کارکن اس وقت آشکار ہوئی جب مجھے ایک افتاد نے یوں آن گھیرا کہ کوئی امید کا سرا دکھائی نہ دیتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ جب کسی سے واسطہ پڑتا ہے تو اس کا پتہ چلتا ہے۔
میرے تین سالہ بیٹے کا ایک چھوٹا سا آپریشن ہوا جس کے بعد وہ کئی دن تک ہوش میں نہ آیا ۔ بحیثیت ماں جو اس وقت میرا حال تھا وہ میرا رب ہی جانتا ہے ۔ میں ڈاکٹرز سے پوچھتی تھی کہ میرا بچہ کب ہوش میں آئے گا لیکن جواب میں وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دیتے تھے ۔
میں نے خود تحقیق کا فیصلہ کیا اور ہاسپٹل جا کے پتہ چلایا کہ میرے بچے کو اینستھیزیا کس ڈاکٹر نے دیا ہے ۔ اس کے بعد میں نے ہاسپٹل کے ایم ایس کے نام خط لکھا کہ ہر آپریشن کے کچھ گھنٹے بعد مریض ہوش میں آجاتا ہے لیکن میرا بچہ کئی دنوں سے بےہوشی کی حالت میں ہے ، اس کی تحقیق کروائی جائے کہ اسے کیوں اتنا زیادہ اینستھیزیا دیا گیا ہے ؟لیکن اس خط کا کوئی جواب نہ آیا –
ہم نے بچے کو دوسرے ڈاکٹرز کو بھی دکھایا لیکن بچہ بے ہوش ہی رہا اسی حالت میں پندرہ دن گزر گئے ، کبھی ڈاکٹرز کے پاس چکر لگاتے اور کبھی جائے نماز پہ روتے ہوئے میں نے کچھ کرنے کا سوچا ۔ ہاسپٹل کی ایک آیا نے ممتا کی ماری ماں کو یوں چکر مارتے دیکھا تو کہا : ایتھے سارے ڈاکٹر اک دوجے نال نیں ، تسی کسے "وڈے بندے”نال گل کرو – یا الٰہی ! وڈا بندہ کون ہو ۔۔۔۔
سوچ سوچ کے امیر جماعت اسلامی منور حسن صاحب کو ایک خط لکھ کر سارا دکھڑا بیان کیا ۔ مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ میرا بچہ آپریشن کے بعد ہوش میں نہیں آیا ( اور ہم اسے بیہوشی میں چمچ سے کچھ کھلا رہے تھے ۔۔۔)مسئلہ یہ تھا کہ جس ڈاکٹر نے میرے بچے کو اتنی زیادہ مقدار میں اینستھیزیا دیا کہ اس کی جان خطرے میں پڑ گئی ، وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتا ہوگا۔۔۔کوئی تو اس کی نشاندہی کرے!
میرے خط کے ایک دن بعد ہی امیر جماعت منور حسن صاحب نے ہاسپٹل کی انتظامیہ کو اٹین شین کردیا اور ہاسپٹل سے مجھے فون آیا کہ آپ نے ہماری کمپلینٹ کی ہے جس پر ہم معافی چاہتے ہیں۔ آپ یہ معاملہ واپس لے لیں ۔ میرے شوہر نے بھی کہا کہ چھوڑو ، سب اللہ پر چھوڑ دو۔ میں نے کہا کہ برائی کو روکنے کا حکم ہے ۔ اگر یہ ڈاکٹر ہو کے کسی انسانی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں تو یہ بھی قابل مؤاخذہ ہیں۔
منور حسن صاحب کا اللہ بھلا کرے جنھوں نے ان پر ہاتھ ڈالا ہے ، ورنہ ہمارے ملک میں اسی لئے تو ہر جگہ مافیاز بنے ہوئے ہیں کہ لوگ غلط کاموں میں بھی ایک دوسرے کو روکتے نہیں بلکہ ساتھی بنے ہوئے ہیں ۔ میں نے اس ڈاکٹر کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ پیش کیا جس پر امیر جماعت اسلامی نے میری سر پرستی کی اور ایک کرب و ابتلا کے وقت میں احساس دلایا کہ میں اکیلی نہیں ہوں ۔
میرے بچے کو اٹھارہ دن بعد ہوش آیا۔۔۔ اس دوران منور حسن صاحب کے دباؤ پر ہاسپٹل میں تحقیقاتی کمیٹی بنی اور پھر مجھے ایک آفیشل لیٹر بھیجا گیا جس میں ہاسپٹل کی انتظامیہ نے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا اور آئندہ محتاط رویہ اپنانے کی یقین دہانی کروائی –
یہ وقت بحیثیت ماں میرے لئے بہت کٹھن تھا ،میرے ساتھ میرے رب کے سوا کوئی نہ تھا ،اگر منور حسن صاحب مجھ کارکن کو اپنی شفقت سے یہ احساس نہ دلاتے کہ وہ بطور قائد اور لیڈر اپنے کارکنان کے ساتھ ہیں!
یا اللہ یہ گواہی اپنی بارگاہ میں قبول کر لینا اور ہمارے عظیم قائد کی بہشت بریں میں بہترین میزبانی فرمانا ،آمین ~
دلوں سے وہ گزر گیا شعاع مہر کی طرح
گھنے اداس جنگلوں میں راستہ بنا گیا
کبھی کبھی تو یوں ہوا ہے اس ریاض دہر میں
کہ ایک پھول گلستاں کی آبرو بچا گیا !