رنگ گورا کرنے والی کریم کے اشتہار کی تصویر

Fair & lovely سے glow & lovely تک کا سفر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عظمیٰ خان :

"جی پھر کیسی بہو چاہیئے آپ کو۔”
رشتے والی خالہ نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا۔
"بس لڑکی گوری چٹی ہونی چاہیئے۔”
"کیسی گوری، مطلب دودھ جیسا سفید رنگ یا میدہ جیسا، گلابی رنگت ہو یا سنہری۔” رشتے والی نے بسکٹ ٹرے میں سے اٹھاتے ہوئے سوال کیا۔

"اب تو آنٹی جن کے بیٹے کا رشتہ ڈھونڈا جارہا تھا سوچ میں پڑ گئیں۔ ویسے ہی جیسے آپ سب سوچ میں پڑے ہوں گے کہ ….. ہیں اب کیا گورے رنگ کے بھی اتنے شیڈز دستیاب ہیں۔
جی بالکل ایسا ہی ہے
گورا رنگ دودھ جیسی رنگت، گلابی سفید رنگت، گورا چٹا رنگ یہ وہ لفظ ہیں جو حسن کے بیانیہ کے طور پر آئے دن سنائی دیتے ہیں۔ بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی معصوم شکل اور گلابی رنگت کو لے کر تبصرے اور اندازے شروع ہوجاتے ہیں۔ بڑا ہوکر رنگت سفید ہوگی کہ گلابی، گندمی ہوگا یا سانولہ۔ باقی کی کسر ٹی وی اداکاروں نے پوری کردی ہے۔ سانولی سلونی ہیروئنیں تو اب خواب ہوئیں۔ اسکرین پر ہر جگہ سفیدی کی ہی چمک ہوتی ہے جو سفید نہیں وہ انجیکشنز کی بدولت سفید ہورہی/ ہورہے ہیں۔ ( جی مرد حضرات بھی سفید رنگت کی اس دوڑ میں شامل ہیں )

سو عوام جو پہلے ہی سفید رنگت کے غم میں مبتلا تھی لیکن صبر شکر کر جاتی تھی کہ کیا کریں ، اللہ کی دین ہے ، جسے چاہے جیسا رنگ دے۔ پھر عقل مند خواتین اور مرد حضرات کے دماغ میں ایک اعلی خیال آیا اور شروع ہوئی دودھ جیسی سفید رنگت والی بہو کی تلاش۔

مرکزی خیال یہ تھا بیٹا چاہے کتنا ہی کالا یا سانولا کیوں نہ ہو بہو چٹی سفید تو آگے کی نسل بھی چٹی ہی نکلے گی۔ پر کیا کریں جینیٹکس کے اپنے اصول۔ اکثر بچے ماں باپ کا کمبینیشن پیدا ہوتے ہیں۔ استثنات بھی بہرحال شامل ہیں کہ ایک آدھ چٹا سفید بھی پیدا ہوجاتا اور پھر شہزادہ ، ملکہ ، چاند جیسے القابات کے ساتھ خود کو حسینہ عالم یا پھر اپالو سمجھ کر زندگی گزارتا ہے۔

لیکن بھلا ہو سائنس کا انہوں نے پہلے رنگ گورا کرنے کی کریم ایجاد کی اور اب انجیکشنز بھی ایجاد کر ڈالے۔ رنگ کی بنیاد پر یہ برتری ہم بھی تسلیم کرتے ہیں بغیر سوچے سمجھے کہ اس کے ڈانڈے ہمارے غیر ملکی آقائوں یعنی کالونیل دور سے جا کر ملتے ہیں۔

یہاں ہمارے پرانے آقا گورے رنگ کا احساس برتری جو ذہنوں میں رس بس چکا ہے اس سے خوب مالی فائدہ اب تک فئیر اینڈ لولی بیچ بیچ کر اٹھا چکے ہیں۔ اپنے ہاں یہ لوگ البتہ tanning creams/lotions بیچتے ہیں لیکن سابقہ غلاموں کے لئے خصوصی پروڈکٹ دستیاب ہے۔
پھر آئیں مارکیٹ میں رنگ گورا کرنے والی کریمیں اور انجیکشنز۔ تو عرض یہ ہے کہ یہ وائٹنگ کریمز کسی بھی برانڈ کی کتنی ہی مہنگی کیوں نہ ہوں ان کے سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں جن میں جلد کو پتلا کرنا، جلد پر اوپن پورز کا ہوجانا (یہ irreversible condition ) ہوتی ہے، دانوں کا نکلنا، اسکن الرجیز ہونا شامل ہیں۔ اور یہ ایک بار ہو جائیں تو زندگی بھر کے لئے مصیبت ثابت ہوتی ہیں۔

سستے یا پھر لوکل برانڈز کی کریموں میں عام طور پر مرکری شامل ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لئےزہر ہے۔

گورا کرنے والے انجیکشنز یعنی کہ gultathione۔ ایک تو مہنگے پھر ان کا کورس کرنے کے بعد ہر تین سے چھ ماہ بعد آپ کو اس کا maintenance shot لگوانا پڑے گا ساتھ میں وٹامن سی کا مستقل استعمال، دھوپ سے مکمل بچائو ورنہ اسکن کینسر کے خطرات کا سامنا شامل ہے۔
سو بہتر تو یہی ہے ان تمام کریموں اور ادویات اور انجیکشنز سے دور رہا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی ذہنیت تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں اور اپنی خواہش پر قابو پانا بھی مشکل ہے کہ گورے چٹوں کو ملنے والی فضول کی اہمیت دل للچا دیتی ہے۔

glutathione جو رنگ گورے کرنے والا انجیکشن ہے یہ قدرتی طور پر ہمارے جگر میں بنتا ہے لیکن مقدار معمولی ہوتی ہے لیکن بہت سے ایسی پھل اور سبزیاں ہیں جن میں یہ قدرتی طور پر موجود ہے اور اپنی غذا میں ان کو شامل کرکے glutathione کی مقدار بڑھا سکتے ہیں۔
وہ غذائیں جن میں glutathione موجود ہے وہ گوبھی، پھول گوبھی، پالک، پیاز، sprouts beans ہیں۔ دوسرا اہم جز وٹامن سی وہ تو تمام سٹرس پھلوں میں موجود ہے اور سب سے بڑھ کر آملہ میں۔ آملہ مربہ کی صورت میں کھایا جاسکتا ہے۔

خیر اصل مدعا تو یہ ہے کہ رنگ گورا ہو یا کالا یا سانولہ نہ حسن کا معیار ہے نہ حسین ہونے کی دلیل۔ آج جو آپ کے ہاں معیار حسن ہے وہ کل کا معیار نہیں۔ ایک وقت تھا کہ پتلے ہونٹ حسن کا معیار ٹھیرتے تھے اور شاعر حضرات محبوبہ کے لبوں کی نازکی اشعار میں بیان کرتے تھے۔ آج موٹے ہونٹ معیار حسن ٹھیرےاور پتلے نازک لب والے بوٹوکس لگوا لگوا کر یہ معیار حاصل کررہے ہیں۔

آپ کے ہاں گورا رنگ معیار حسن ہے تو مغرب میں سانولی اور گندمی رنگت پر جان دی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں کرینہ کپور کی بدولت زیرو فگر معیار حسن تو کہیں پر پلس سائز معیار ہے۔

سو حسن کا ظاہری معیار روئے زمین پر متعین نہیں۔ جو معیار مستقل ہے وہ حسن سیرت ہے۔

آپ کی سیرت اچھی ہے تو ظاہری عیوب بھی ڈھک جاتے ہیں۔ اچھی سیرت ہو تو عام شکل بھی خاص لگتی ہے بس جوہری کی نظر کا انتظار ہوتا ہے کہ ہیرے کی پرکھ جوہری کو ہی ہوتی ہے۔

سو جتنا ممکن ہو وائٹنگ کریمز اور انجیکشنز سے دور رہیے۔ یہ مارکیٹنگ کے جدید طریقوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اب فئیر اینڈ لولی والے بھی معیار بدل کر گلو اینڈ لولی ہو چکے ہیں سو اپنے فرسودہ معیار بھی تبدیل کیجئے اور انسانوں کا، رشتوں کا انتخاب ظاہر نہیں بلکہ باطن کی بنیاد پر کیجئے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں