طائر حرم / مریم خالد
بات پردے یا کپڑوں کی نہیں ہے، بات حیا کی ہے۔ بات داڑھی اور ٹوپی کی بھی نہیں ہے، مسئلہ حیا کا ہے۔ حیاجو مرد و زن دونوں کی ضرورت ہے، فطرت ہے، خصلت ہے۔ حیا جو دل میں بستی ہے، لہو میں بہتی ہے۔
حیا والے لڑکے اور حیا والی لڑکیاں وہ ہیں جنہیں اپنے رب کے سامنے جھوٹ بولتے حیا آتی ہے۔ جنہیں رب کی نگاہوں میں ہوتے ہوئے بےانصافی کرتے ان کے ہاتھ لرزنے لگتے ہیں۔ ان کی آنکھیں برائی کی جانب پلکیں نہیں اٹھاتیں۔ ان کا دل دو رخی کی جانب مائل نہیں ہوتا۔ ان کی سانسیں پیسے کی خوشبو پہ نہیں بہکتیں۔
حیا والوں کو گوگل جانتا ہے۔ نیا فون لینے پہ دو دن میں یوٹیوب جان جاتی ہے کہ یہ ہاتھ حیا والے ہیں۔ حیا والوں سے فیس بک بھی حیا کرتی ہے، وہ انہیں ہر چیز نہیں دکھا دیتی۔ جانتی ہے کہ وہ حیا سے عاری لوگوں اور چیزوں پہ ناپسندیدگی دکھاتے ہیں۔ اسے بتاتے ہیں کہ آئندہ ہمارے آگے یہ بدی کے اشتہار مت کرنا۔ وہ انہیں خود حیا والوں سے ملواتی ہے، ان کے ساتھ جوڑتی ہے۔
حیا والے جانتے ہیں کہ رب کے آگے اپنے عذر میں دوسروں کے گناہ پیش کرنا بڑی شرم کی بات ہو گی۔ اس لیے باحیا مرد مائل ہونے والی عورتوں سے خود ہی فاصلہ رکھ لیتے ہیں۔ باحیا عورتیں خود ہی کسی کو مائل ہونے کا موقع نہیں دیتیں۔ حیا والے جانتے ہیں کسی کی نظریں جھکانے کے لیے اپنی نگاہوں کا رخ جانبِ زمیں کرنا ضروری ہے۔ انہیں بڑھ بڑھ کر دوسروں کو اخلاقیات اور اوقات سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، حیا خود ہی مخالف کو شرما دیتی ہے۔
حیا والے صنفِ مخالف کے سر پہ جا کھڑے نہیں ہوتے ، اک فاصلہ رکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو سے شہد ٹپکتا ہے نہ انگارے برستے ہیں، وہ متانت سے بات کرتے ہیں۔ وہ صنفِ مخالف پہ بِچھتے ہیں نہ اس سے بدکتے ہیں، اپنے دائرے میں رہتے ہیں۔ وہ کہیں بھی ہوں، انہیں ذمہ داریاں نبھاتے میں کوتاہی کرنے سے حیا آتی ہے۔ انہیں اپنے کام دوسروں پہ ڈالتے شرم آتی ہے۔
حیا والے لڑکے اور لڑکیاں الله سے دل کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں۔ یونہی اگر کوئی دل سے چُھو جائے تو وقار کے ساتھ پیغام گزار دیتے ہیں۔ جواب اگر منفی آئے تو دل کو مطمئن کر کے آگے گزر جاتے ہیں۔ کسی کے پیچھے پڑ نہیں جاتے۔ کسی کے لیے مر نہیں جاتے۔ فقط الله کے آگے دل کھول کر رکھتے ہیں۔ تنہا اپنی کسک سہتے اسی کی بارگاہ میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ اشکوں میں بہہ جاتے ہیں مگر شیطان کو ‘ہاں’ نہیں کرتے۔
حیا والے نسبت طے ہونے کے بعد بھی اس کے آگے حجاب نہیں اٹھاتے۔ باہم رضا تو کیا، محبت و وفا بھی ہو تو رب کے نام پہ رسی کی گرہ کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بات اعتماد کی نہیں، حیا کی ہے اور خاندان بے حیائی سے نہیں بنتے۔ حیا والے رشتے میں بندھتے ہیں تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو ایک دوسرے کے حصوں سے جوڑتے ہیں۔
وہ تنہا نہیں مسکراتے، وہ اکیلے نہیں کھاتے، وہ الگ نہیں سوچتے۔ وہ اکٹھے ہنستے ہوئے آنگن بساتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خاندان کو اپنا کر گھل جاتے ہیں۔ محبتوں میں کبھی کمی نہیں لاتے۔ رسی کی گرہ میں نمی نہیں لاتے۔ حیا والے گھر سے باہر ایک دوسرے کا خیال تو رکھتے ہیں مگر سرعام قربت کے جام چھلکا کر دامن داغدار نہیں کرتے۔
میں رسمِ عاشقی کو شہر میں رسوا نہیں کرتا
محبت میں بھی کرتا ہوں مگر چرچا نہیں کرتا
حیا والے اپنے لباس میں سوراخ کرنے سے حیا کرتے ہیں۔ اپنے رشتے کے ہوتے دوسروں پہ جھکنے سے حیا کرتے ہیں۔ اپنے رازوں کا مرتبان گلی میں انڈیلنے سے حیا کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ حیا والے ماں باپ کی اولاد ہیں اور یہی ورثہ اپنی اولاد کو آگے تھما جاتے ہیں۔
حیا والے اپنی چال سے پہچانے جاتے ہیں۔
اپنے خد و خال سے پہچانے جاتے ہیں۔
وہ جینے کا مقصد بڑا رکھتے ہیں اور عزائم کے اقبال سے پہچانے جاتے ہیں۔
حیا دین سے ہے اور مسلمان حیا سے بہرحال پہچانے جاتے ہیں!