نگہت حسین :
اب تو زوم سے بچہ بچہ واقف ہے لیکن ہمارے آن لائن کورسز کروانے والے ساتھی بہت عرصے سے انتہائی محنت سے زوم ایپ اور واٹس اپ پڑھنے پڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔
انتہائی مصروفیت ۔۔۔۔۔۔۔قلیل وقت اور گھر بیٹھے مہنگے ، انتہائی کار آمد اور مفید کورسز بہت ہی مناسب فیس کے ساتھ کروانے کا یہ کام ایک بہت بڑا کار خیر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔جس کے لئے بلاشبہ یہ تمام افراد قابل مبارک باد ہیں ۔
ہر کورس کے اختتام پر عام سے تعریف و تحسین پر مشتمل الفاظ یقینا حوصلہ افزائی اور اساتذہ کی محنت کے لئے ضروری ہیں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب ضرورت ہے کہ ان کے حوالے سے ان کے مفید و موثر ہونے کا جائزہ بھی لیا جائے ۔۔۔۔۔
کیوں کہ خود بھی بہت سے ملکی اور غیر ملکی فورمز کے ذریعے آن لائن کورسز کئے ۔اس لئے دونوں طرح کے انداز اور طریقہ کار کا مشاہدہ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے فیس بک میں متحرک افراد کورس کروانے کے بعد ریوو کا کہتے ہیں آج ان تمام کورسز کے بارے میں ایک رائے دینے کا سوچا ہے ۔ہماری ہر بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔۔۔۔۔۔۔رائے غلط بھی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔۔ طالب علموں کی سائیڈ کا نکتہ نظر سمجھ کر پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔۔۔۔۔کسی پر تنقید اور ذاتی حملہ نہیں ہے ۔
پہلے تو ایک تمہید کہ صرف کسی بھی مضمون یا ہنر میں مہارت یا عبور کی بنیاد پر یہ سمجھ لینا کہ ہمارے اندر اس کام کی مہارت یا علم کو دوسروں کو سیکھانے کی مہارت بھی آگئی ہے بہت بڑی غلط فہمی ہے۔کچھ عرصے تک یہی مشق تعلیمی اداروں میں بھی ٹیچنگ کے نام پر ہوتی رہی ہے کہ استاد کے مقام مرتبے اور اس کی ذمہ داری کے ساتھ تدریس کے مختلف انداز ان کو موثر بنانا ، طالب علموں کی نفسیات ان کی ذہنی سطح اور ان سے قلبی تعلق قائم کئے بغیر ہی میکانکی انداز میں سوال جواب اور معلومات کا پہاڑ سر پر لادنے کو ٹیچنگ کہا جاتا رہا تھا ۔
اب جب سے آن لائن کورسز کا دور چلا ہے یہی رویہ و انداز پاکستان میں اس ٹیچنگ اور کورسز میں بھی نظر آتی ہے۔ ویسے تو
زیادہ تر آن لائن کورسز مختصر دورانیے کے کسی ہنر پر مشتمل ہوتے ہیں۔
لیکن ایک مؤثر استاد اس مختصر دورانیے کو کتنا مفید بنا سکتا ہے یہ اس کے پڑھانے کی مہارت اور آن لائن ٹیچنگ ٹولز کے استعمال پر منحصرہے۔
سکھانے والے صرف اپنے ہنر اور پیسا کمانے کا ایک ذریعہ سمجھ کر مزید محنت نہ کریں گے تو کچھ دنوں میں اچھے اساتذہ کی ایک کھیپ ان کو اس میدان سے بھی آؤٹ کردے گی۔
اس لئے فیس بک میں متحرک اکثریتی کمپیوٹر کورسز سے منسلک آن لائن ٹیچنگ کے تمام اساتذہ سے انتہائی ادب سے درخواست ہے کہ
1.اپنی اردو اور انگریزی کے لب و لہجے کے بہتر بنانے کی کوشش ضرور کریں جب استاد آپ کے سامنے نہیں ہوتا تو اس کی آواز پر ہی سارا دھیان ہوتا ہے ایسے میں اردو اور انگریزی کا غلط تلفظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے حد آزار سماعت ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔
2.بناوٹی لہجے ۔۔۔۔۔۔۔ بناوٹی ہنسی یا بناوٹی شفیق و مزاحیہ ہونے سے بھی گریز کرنا چاہیے ۔کیونکہ جتنا آپ اپنے آپ کو حقیقی انداز میں بہتر بنا کر پیش کریں گے اتنا ہی پڑھانے کا انداز موثر ہوگا۔
3.کورسز کا ایک تعارف ضرور پیش کرنا چاہیے اور کس کے لئے بہتر ہے کس کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔
4.پچھلی کون سی اسکلز اور قابلیت کی ضرورت ہے کس کی نہیں ، ضرور بتانی چاہیے ۔۔۔۔۔ اکثر کلاس میں طلبہ کی قابلیت اتنی گڈ مڈ ہوتی ہیں کہ ایک فرد استاد سے ای میل اکاؤنٹ بنانے کا طریقہ پوچھ رہا ہوتا ہے تو دوسرا ویب سائٹ ڈیزائننگ کی معلومات لے رہا ہوتا ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ دونوں کے سیکھنے کی استعداد اور رفتار میں بی فرق ہوگا ۔۔۔۔۔اندازہ نہیں اساتذہ کس طرح ان دو طرح کے طالب علموں کو سکھانے پڑھانے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔
5.سب سے زیادہ جو بات محسوس ہوئی وہ یہ کہ عادتا ہم پاکستانی کسی چیز کی اہمیت بتانے کے لئے تلخ و طنزیہ ہوجاتے ہیں۔اکثر کورس میں طنز طعنے اور فری کورس ہونے کی صورت میں بار بار یہ جتانا کہ کس نوعیت کا اہم کورس تھا اور ہم کس طرح فری لٹارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مناسب نہیں لگا ۔اس انداز میں بہتری لانے اور توجہ کی ضرورت ہے۔
6.کورس میں رجسٹر طلبہ و طالبات کی اتنی ہی تعداد کرنی چاہیے جس پر انفرادی توجہ اور استاد شاگرد کا باہمی ربط قائم ہوسکے جو سیکھنے سکھانے کے لئے بھی ضروری ہے۔
ڈیڑھ دو سو افراد کو رجسٹر کر کے بعد میں 70 , 80 لوگوں تک کی حاضری رہ جانے پر طلبہ و طالبات کو لعن طعن کرنے سے بہتر ہے کہ ایسا تعلق قائم کیا جائے کہ عدم دلچسپی اور توجہ نہ ملنے کی وجہ سے کورس نامکمل چھوڑ نے اور مشکل سمجھنے والے طالب علم بھی استاد سے باآسانی اپنا مسئلہ بیان کرسکیں۔
اندازہ ہے سکھانے پڑھانے والے افراد بہت سی مشکلات کا شکار ہیں ۔۔۔کم وسائل میں اتنی خدمات فراہم کرنا بہرحال لائق تحسین ہے لیکن ۔۔۔۔۔جب ہم استاد کے۔منصب ہر فائز ہوتے ہیں تو ہمیں اس کا بھی خیال کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرورت ہے کہ آن لائن کورسز کروانے والے اساتذہ کو محض پیسے کمانا یا اس کام کو کسی پر کم پیسوں میں احسان کرنے کا ذریعہ سمجھنے کے احساس سے باہر آکر سیکھنے سکھانے کے اس عمل کو استاد طالب علم کے مقدس اور ذمہ دار ربط میں تبدیل کیا جائے ۔