عبید اللہ عابد :
اگر کوئی ولی اللہ بھی بدفعلی یا زنا وغیرہ کا ارتکاب کرے تو وہ ولی اللہ نہیں رہتا۔
کوئی اسے جتنا مرضی بلند مقام و مرتبہ دے، میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس مقام و مرتبہ پر فائز نہیں رکھتا۔
اس کا پہلا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ سے پردہ اٹھا لیتا ہے ، اور وہ ذلت و رسوائی سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ اس لئے ایسے کسی بھی مفتی ، عالم دین وغیرہ کے دفاع کے لئے بروے کار نہیں آنا چاہئے۔ ہاں ! اگر آپ کو ابھی تک اس کے سکینڈل پر یقین نہیں آیا تو خاموش رہ کر انتظار کریں کہ آپ پر پورا معاملہ صحیح طور پر کھل جائے۔
افسوس ہوا کہ لاہور کے ایک سفید داڑھی والے بڈھے کے دفاع میں چند بدبخت مولویوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ صحابہ کرام سے بھی تو ایسے فعل سرزد ہوجاتے تھے۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ پستی کا حد سے گزر جانا اسے ہی کہتے ہیں۔ اور افسوس ہوا کہ مذہبی طبقہ میں سے کچھ لوگ اس سارے کے پیچھے کوئی سازش تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ جس طرح مفتیان عظام کی ویڈیوز لیک ہورہی ہیں، پہلے مفتی عزیز الرحمن ، پھر مفتی عبدالقوی ، اور پھر مظہر حسین نجفی کی ویڈیو, یہ کسی سازش کا پیش خیمہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ سب سے پہلے آپ کو اپنا کردار مضبوط کرنا چاہئے، پھر سازشیں کرنے والے اپنی سازشوں کے ساتھ خاک میں خاک ہوجاتے ہیں۔ آپ سازشیوں کو سازش سے نہیں روک سکتے، اگر آپ کمزور کردار کے حامل ہیں تو پھر سازشی سازش بھی کریں گے اور ان کی سازشیں کامیاب بھی ہوں گی۔ بصورت دیگر آپ کے مخالفین باریک ترین چھلنیاں بھی لگالیں تو وہ سازش کی کوئی بنیاد نہیں پاسکیں گے۔ وہ زیادہ سے زیادہ جھوٹ بولیں گے آپ کے خلاف، جیسا کہ تاریخ انسانی میں ایک بدبخت انسان کوثر نیازی نے جھوٹ بولا تھا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے خلاف۔۔۔۔۔ وہ بدبخت کوثر نیازی کس قبر میں دفن ہے، کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ مولانا کا کردار مضبوط ترین اور پاکیزہ ترین تھا، تب ہی گندی نالی کے کیڑوں میں سے ایک کیڑا آلودگی پھیلا نہ سکا۔
مذہبی طبقہ کو پوری شد و مد سے بدفعلی کرنے والے ، ریپ کرنے والے کے لئے سخت ترین سزا کا مطالبہ کرنا چاہئے، اور سیکولرز ، لبرلز کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ بھی اس مطالبہ میں ان کا ساتھ دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہی سیکولرز ، لبرلز اس موقع پر راہ فرار اختیار کریں گے، کیونکہ یہ سزا کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کے طبقہ کے لوگوں میں بڑے بڑے نام ہیں جو ریپسٹ ہیں۔ انہی کے طبقہ کا ایک دانشور ، سابق ایم این اے ہے جس نے چودہ سال لڑکی سے ریپ کیا، اسی طبقے کے ماتھے کا ایک جھومر لاہور کا دانش ور ہے جو سائوتھ ایشیائی ممالک کے ایک ادارے کا ذمہ دار بھی رہا ہے اور پاکستان کے سب سے کثیرالاشاعت اردو اخبار میں کالم نگار بھی ہے۔ وہ بدفعلی کا مسلسل ارتکاب کرتا ہے۔
یہ تو بات ہے ریپ کی، کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں احتساب کے اعلیٰ ترین ادارے کے سربراہ کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز آئیں، اس کے خلاف یہ سیکولرز اور لبرلز نہیں بولے کیونکہ وہ بغیر داڑھی والا تھا۔ ملک میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون موجود، احتساب کے ادارے کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگز موجود لیکن اس معاملے پر کوئی بولا ہی نہیں، تحریک انصاف کے سربراہ اور عدل و انصاف کے نعرے لگانے والے عمران خان بھی اس پر ٹس سے مس نہ ہوئے۔
بہرحال ریپسٹوں کے خلاف قانون بنا ، قانون پر عمل در آمد ہوا تو ایسے بڑے بڑے نام تو گئے زندگی سے۔
مذہبی طبقہ کے کرنے کا کام سازشیں تلاش کرنا نہیں، اپنے کردار کو مضبوط اور پاک و صاف کرنا ہے اور غلط کار لوگوں کے خلاف قانون سازی کے لیے پوری شدت کے ساتھ آواز بلند کرنا ہے۔ مدارس کو بھی ایسے لوگوں سے پاک و صاف ہونا چاہئے، سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی۔ اصلاحات صرف مدارس میں نہیں پورے معاشرے میں ہونی چاہئے۔ اس کے لئے سب سے بنیادی کام یہ ہے کہ ایسے تمام ذرائع کو قابو میں کیا جائے جو جذبات کو بے قابو کرتے ہیں۔باقی اقدامات اس کے بعد ۔
ایک تبصرہ برائے “مفتی عزیز، مفتی قوی اور پھر مفتی مظہر نجفی ۔۔۔۔۔۔ سازش تو ہوگی”
ایک تکلیف دہ، حساس اور مشکل ترین موضوع پر بہت معتدل اور بر موقع تحریر ۔