یہودی دیوار گریہ کے پاس

ایک قوم کا تذکرہ جس کا پیشہ ہی انسانوں کی نسل کشی ہے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شاذیہ عبدالقادر :

یقیناً آپ سب نے یہ لفظ بارہا سنا ہوگا۔۔۔ ” نسل کشی” "Genocide”
آج اس لفظ سے منسلک ایک قوم کی تاریخ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔۔۔یہ تاریخ جتنی پرانی ہے آج اس قوم کی سفاکیت اتنی ہی بڑھتی جارہی ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء "بنی اسرائیل” میں سے آئے صر ف آخری نبی حضرت محمد ﷺ بنو ہاشم سے مبعوث فرمائے گئے۔

بنی اسرائیل نے انبیاء علیھم السلام کو قتل کیا ۔۔۔انبیاء کے ساتھیوں کو قتل کیا ، انہیں جبری جلاوطن کیا ، ان کے لئے زندگی اجیرن کردی ، کسی قسم کا انہیں خوف نہیں آیا ۔۔۔ نافرمانی ، ڈھٹائی ، مجرمانہ اور سفاکانہ رویہ رکھنے والی قوم ۔۔۔۔ یہ بنی اسرائیل ” نسل کشی” "Genocide” کی موجد ہے۔۔۔
یہ اللہ کی بڑی لاڈلی قوم تھی ۔ اللہ نے اسے بہت نوازا ۔ بار بار نافرمانیوں پر مواقع دئیے ۔ اللہ نے بنی اسرائیل کا ایک ایک مطالبہ پورا کیا ۔ ان کے لئے آسمان سے من و سلویٰ اتارا گیا۔ انبیاء کرام کے ذریعے انہوں نے اپنے جائز و ناجائز ہر طرح کے مطالبے منوائے لیکن نافرمان رہے ، ناشکرے ہی رہے ، مغرور ، متکبر ہی رہے۔

اللہ نے ان کی مسلسل نافرمانیوں ، ناشکریوں اور انبیاء علیھم السلام اور ان کے ساتھیوں کو ستانے ، قتل کرنے ، جلا وطن کرنے کی پاداش میں امامت دنیا کا منصب بنی اسرائیل سے چھین لیا، قبلہ بھی تبدیل کردیا۔

یہ وہی یہود ہیں جنہوں نے بارہا ہمارے آخری نبی ﷺ سے کئے معاہدے توڑ کر دشمنان اسلام سے ساز باز کی ۔ انہوں نے مسلمانوں سے کبھی وفاداری نہیں نبھائی ۔ قبل از اسلام اور بعد از اسلام ان کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔

فلسطین پر حق ملکیت کیا یہودیوں کا ہے جو وہ وہاں مسلمانوں کی نسل کشی کرے خود قابض ہونا چاہتی ہے؟؟؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے تھوڑا مزید تاریخ کھنگالتے ہیں۔

تقریباً تیرہ سو برس قبل از مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے ( فلسطین ) میں داخل ہوئے تھے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد وہاں کی قدیم باشندوں کی نسل کشی کرکے فلسطین اور بیت المقدس پر قابض ہوئے تھے، یہ قبضہ چونکہ غیر انسانی اور غیر جمہوری تھا لہذا زیادہ عرصہ قائم نہ رہا ۔۔۔ دنیا میں طاقت حاصل کرنے کے لئے کبھی اسیریا،کبھی بابِل کبھی رومی فلسطین پر قابض ہوتے رہے

ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ یہودی ابتداً نسل کُشی ( Genocide ) کے بعد شمالی فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک وہ آباد رہے ، جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نو سو برس رہی۔۔ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً دو ہزار سال سے آباد چلے آرہے ہیں

تاریخ آگے بڑھتی ہے۔۔1880 سے ایک نئی صیہونی کشمکش کا آغاز ہوتا ہے اور یہودیوں کی مہاجرت ہونے لگتی ہے ۔ یہ تعداد سال بہ سال بڑھتی جاتی ہے۔

2 نومبر 2017ء کو اس ظالمانہ برطانوی اعلانِ بالفور جس کے مطابق ہزاروں سال سے سرزمین فلسطین پر مقیم اس کے باشندوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں جمع کرکے، ایک نئی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف 55 ہزار تھی۔ 1922 میں وہ 82 ہزار سے کچھ زائد تھے۔ 1936ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔

نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا،55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا جانا طے ہوا۔۔

ایک بار پھر یہودیوں نے فلسطین پر نسل کشی کا وار کیا اور 9 اپریل 1948 میں دیر یاسین میں مسلمان عربوں کے قتل عام کے بعد عورتوں‘ بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا‘ عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا اور یہودی موٹروں پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھرے کہ ’’ہم نے دیریاسین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے‘ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ‘‘

14 مئی 1948 کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر پھر بحث کررہی تھی‘ یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا ۔ جب نومبر1948 میں اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا‘ اس وقت فلسطین کے رقبے کا ستتر فیصدی سے بھی کچھ زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضہ میں جاچکا تھا۔

19سال کے اندر جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس اور باقی ماندہ فلسطین اور پورے جزیرہ نمائے سینا اور سرحدِ شام کی بالائی پہاڑیوں (جولان)پر اسرائیل کے قبضے سے تکمیل کو پہنچا۔ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کا رقبہ 7،993مربع میل تھا۔ جون 1967 ء کی جنگ میں اس میں 27 ہزار مربع میل کا اضافہ ہوگیا۔

1982ء میں لبنان کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں صابرہ ، شاتیلا میں خوفناک قتل عام کروایا گیا 2000 میں مجبورا انتفاضۂ اقصیٰ شروع ہوگیا جو تقریباً 5 برس تک جاری رہا۔ اس دوران صہیونی افواج نے ممنوع ہتھیاروں سمیت ہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ ساڑھے چار ہزار شہری جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے شہید کردیے۔

2005 کے فلسطینی انتخابات میں فلسطینی الاخوان کی تنظیم حماس نے اکثریت حاصل کی جبکہ الفتح جو مصالحت پسند جماعت ہے زیادہ سیٹس حاصل نہ کرسکی۔۔۔حماس آزادی فلسطین کی جمہوری اور مسلح جدوجہد کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ الفتح دو ریاستی ایجنڈے کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے،حماس کی کامیابی کے بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی تک محدود کئے جانے والے فلسطینوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا

2007ء میں غزہ محاصرہ شدید تر ہوگیا۔ تین اطراف سے اسرائیل کا محاصرہ تھا، چوتھی جانب سے مصر نے بھی اس سے زیادہ سخت حصار کرلیا تھا۔
2008ء، 2009ء اور 2012ء میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردی۔ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرڈالے۔ غزہ کے عوام سے صرف ایک مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔

سال 2017 کے بعد بدترین حالات ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی گئی۔

حالیہ پیش قدمی مئی 2021 سے جارحانہ انداز میں شروع ہوئی ۔۔۔شیخ جراح سے فلسطینی مقامی خاندانوں کو نکالا گیا، اسرائیل نے گولہ باری،راکٹ حملے اور زمینی فوج سے مقامی باشندوں انکی املاک کو تباہ و برباد کردیا ، بلکہ ان کی کوریج کرنے والے میڈیا کے نمائندوں اور دفاتر کو عالمی جنگی قوانین توڑتے ہوئے گرفتار کیا،عمارتوں کو تباہ کردیا۔

تو قارئین آپ نے جانا کہ یہ "نسل کشی” یہودیوں کا آبائی پیشہ ہے ۔۔۔۔ ہٹلر نے ان کی زندگی اجیرن کی تو انہیں فلسطین نے پناہ دی لیکن یہ اللہ کی احسان فراموش قوم ہے مسلمانوں کی احسان مند کیا ہوگی ۔۔۔۔ جو اپنے رب کی نافرمان اور ناشکری قوم ہو اس سے کیا امید کی جاسکتی ہے ۔۔۔۔۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں پر اجارہ داری کر کے یہ ہماری ہی جیبوں سے پیسہ نکلوا کر ہمارے قبلہ اول اور وہاں رہنے والے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرررہی ہے ۔۔۔ اپنے بچوں کی برین واشنگ کرتے ہوئے ان کی عسکری تربیت کرکے انہیں تیار کرتی ہے یہ جھوٹ بول کر کہ فلسطین ہمارا وطن ہے اسے مسلمانوں کو نکال کر حاصل کرنا ہے۔

القدس ۔۔۔مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، اس کی اہمیت قرآن و سنت کی روشنی میں اظہر من الشمس ہے ۔۔۔ اگردنیا نے اسرائیل کا فلسطین پر حق تسلیم کرنا ہے تو پھر برطانیہ پر روم کا حق بھی تسلیم کرے کہ 43 قبل مسیح سے 409 قبل میسح تک روم نے برطانیہ پر حکومت کی تو پھر روم کو بھی برطانیہ آکر یہاں اپنے لوگوں کو بسانا چاہئے اور واپس اپنا ملک حاصل کرنا چاہئے۔۔۔۔

فلسطین میں رہنے والے فلسطینی وہاں آنے والی قابض فوج سے سوال کرتے ہیں کہ تم بتاؤ کیا تمھارے دادا فلسطین میں تھے زیادہ اوپر نہ جاؤ بس صرف اپنے دادا کا بتادو اگر تمھارے دادا یہاں رہتے تھے تو آؤ ہم تمھیں یہاں کا حق دیتے ہیں لیکن میرے دادا ۔۔ان کے دادا اور ان کے بھی دادا یہیں کے رہنے والے ہیں اب بتاؤ کس کا حق یہاں ہے؟

مسلمان قبلہ اول کے اصل متولی ہیں ۔۔ ہمارے لئے حرم مکہ ۔۔۔ حرم مدینہ کے بعد حرم اقصیٰ برابر محترم ہے۔۔۔مسلمان وہاں کی جانب رخ کرکے 14 سال نماز ادا کرتے رہے۔۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کو بغیر کسی جنگ کے حاصل ہوا

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس کے آس پاس کے علاقے فتح ہوئے تو بیت المقدس بغیر جنگ کے سلطنت اسلامیہ میں شامل ہوا،اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی معبد قائم نہ تھا،حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں، لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کر سکتے۔

چنانچہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آ پ کے حوالہ کی گئیں کیوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پا لیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جگہ مسجد کی تعمیر فرمائی جہاں رسول ﷺ کی امامت انبیاء کا نشان ملا۔۔۔

تو بس بات یہ ہے کہ مکہ معظمہ ،مدینہ منورہ اور بیت المقدس مسلمانوں کے مقامات مقدسہ ہیں ، بیت المقدس کبھی یہودیوں کی ملکیت نہیں تھا ۔۔۔ رومیوں نے جنگوں کے دوران ان کے تمام معبد ختم کردئیے تھے اور یہ علاقہ دور خلافت میں بغیر جنگ کے مسلمانوں کے قبضے میں آیا جسے بارہا صیہونیوں نے ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن مسلمانوں نے اسے جنگ سے واپس حاصل کیا۔۔۔ یہاں ہمیشہ سے اکثریت مسلمان عربوں کی تھی جبکہ عیسائی اور یہودی اقلیت کے طور پر یہاں رہتے تھے ۔ 1880 کے بعد ایک صیہونی مہم کے نتیجے میں باہر سے یہودی لا کر بسانا شروع کئے گئے اور 1947-48 میں جارحانہ قبضے کی جنگ مسلط کی گئی۔۔
جس میں تسلسل اور شدت 2005 کے بعد سے جاری ہے۔۔۔دنیا بھر میں جانوروں کے حقوق تو تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن جیتے جاگتے انسانوں کو ان کی اپنی زمین سے بیدخل کرنے اور فوجی جارحیت کا شکار ہونے والوں کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ اپنے علاقوں پر جارحیت کا مقابلہ کرنے والوں کو مجرم بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ صیہونی ریاست اسرائیل کا ہدف بیت المقدس سے آگے ہے ۔ اگر آج فلسطین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ہم حرم کعبہ و مدینہ کی حفاظت بھی نہ کرسکیں گے ۔ اقوام متحدہ قراردادوں اور او آئی سی احتجاج سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی ۔ جب تک پوری دنیا کے مسلمان متحد ہو کر بھرپور احتجاجی تحریک برپا نہیں کردیتے

قارئین قائد اعظم نے اسرائیل کے بارے میں دوٹوک موقف رکھا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ قرار داد لاہور 1940 کے بعد دوسری قرارداد فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی کوششوں کے خلاف منظور کی گئی تھی۔ 1948 میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان نے اسرائیل فلسطین کے دو ریاستی نظریے کی مخالفت کی کہ ایک قوم کے وطن میں دوسری قوم باہر سے آ کر ملک نہیں بنا سکتی ۔۔۔

پاکستان کی موجودہ و گزشتہ حکومتوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے زیر اثر کئی بار یہ کوشش کی جو کہ جاری ہے کہ کسی طرح اسرائیل سے تعلقات قائم ہوجائیں اور فلسطین کی غیر منصفانہ تقسیم کو مان لیا جائے لیکن انھیں جان لینا چاہئے کہ پاکستانی عوام کبھی ایسا نہیں ہونے دے گی۔

پیارے نبیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
(حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں) میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا ،اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا،اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا ہاں البتہ انہیں تکالیف پہنچتی رہیں گی، حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے پوچھا ؛ یا رسول اللہ ﷺ وہ کہاں ہوں گے
آپ ﷺ نے فرمایا؛ بیت المقدس اور بیت المقدس کے آس پاس۔۔۔۔

باطل جتنا بھی طاقتور ہو ، ظلم کتنا ہی متحد ہو ، ظالم کتنا ہی زور آور ہو ، حق حق رہتا ہے۔ حق کا ساتھ دینے والے ہی بالآخر کامیاب ہوتے ہیں۔

آج بیت المقدس کے لئے معرکہ اپنے عروج پر ہے ۔ اگر فلسطینی یہ معرکہ ہار گئے تو یہ دنیا میں غاصبانہ ناجائز قبضے کی روایت کو مضبوط کردے گا دنیا کبھی امن سے نہ رہ سکے گی ۔ فلسطین کا معرکہ اب آر یا پار والا معاملہ ہے ۔ یہ وقت میرے اور آپ کے کھڑے ہونے کا ہے ۔ ہر طرح کے احتجاج میں جہاں جب ہو ، فلسطین سے وابستہ کوئی بھی علامت ساتھ لئے شرکت کیجئے ، اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیجئے ، اپنے فلسطینی بہن بھائیوں اور بچون کا بے دریغ خون بہانے والوں کو اپنی جیب سے منافع نہ دیجئے ، سوشل میڈیا پر آگاہی پھیلائیے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیے ، صدر وزیراعظم مقتدر طبقوں کو خط لکھیے ، اخبارات میں مراسلات لکھیے ۔

فلسطین کو جاننے والی امداد میں اپنا حصہ ڈالیے اور یہ یاد رکھیے کہ مسلمان اپنے قبلہ اول سے دست بردار نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہاں کے مقامی قدیم باشندوں کو ان کی اپنی ہی سرزمین سے نکال دینا برداشت کرسکتے ہیں. یہ انسانی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے جسے مسلمان کسی صورت تسلیم نہیں کرسکتے ۔
اس تحریر کی تیاری میں جن مضامین سے مدد لی گئی۔
سانحہ اقصیٰ۔از مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
قبلہ اول اور مسئلہ فلسطین۔از عبدالغفار عزیز


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں