مرد ، سوالیہ نشانات

آزاد کشمیر الیکشن 2021 : ووٹ کس کو دیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

طوبیٰ ناصر :

آزاد کشمیر میں انتخابات 2021 کی آمد آمد ہے اور اس کی وجہ سے ہر طرف سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے ۔ گھر ہوں یا بازار ہر طرف ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے انتخابات۔ کون جیت رہا ہے یا کون ہار رہا ہے ؟ یہ آج کل پسندیدہ موضوع ہے اور اس سے بڑھ کر ایک مشکل درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیں؟ 

بعض کے نزدیک ان کی سیاسی جماعت ہی ووٹ کی حق دار جماعت ہے ، اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے اس جماعت کو ووٹ دیتے آئے ہیں یا ان کے بڑے اس جماعت سے وابستہ ہیں یا اس جماعت کے نمائیندے سے ان کے تعلقات ہیں یا بعض اوقات کسی دور دراز کے جاننے والے کی بنیاد پر بھی ووٹ دے دیا جاتا ہے، یا بہت چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کے لیے بھی اور بعض جگہ تو خواتین ایک جماعت کو اس لیے ووٹ دے رہی ہوتی ہیں کہ ان کے گھر کے مرد دے رہے ہوتے ہیں ۔

مختلف جگہوں پر مختلف صورتیں ہوتی ہیں ، ان صورتوں کو شمار کیا جائے تو مضمون طویل سے طویل تر ہوتا چلا جائے گا۔ مختصراً قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر پرکھنے کے علاوہ باقی ہر وجہ پر ووٹ دیا جاتا ہے۔ لیکن سبحان اللہ ہمارا دین مکمل ضابطہ حیات ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے اللہ نے ہمارے لیے رہنمائی نہ رکھی ہو ۔

سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم ووٹ کیوں اور کس کو دیں؟

اسلام کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بین المذاہب اور باہمی زندگی گزارنے کے اصول وآداب ، قوانین وضوابط مرتب فرمائے اور آپ ؐ نے اسلامی حکومت کا آئین مرتب فرمایا جو دنیا کا پہلا تحریری و مرتب حکومتی نظام مانا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ہی آج کے بڑے بڑے ممالک کے آئین مرتب کئے گئے ہیں اور مغرب میں بھی اس سے رہنمائی لی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں ایک جملہ عموماً بولا جاتا ہے کہ دین کا سیاست سے کیا لینا دینا جو دین کی بات کرتا ہے وہ جا کر مسجد، مدرسہ سنبھالے حکومت میں اس کا کیا کام لیکن جب ہم اپنے دین( مکمل ضابطہ حیات) کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے حکومت و سیاست دین کا بنیادی حصہ ہیں بلکہ ہمیں سب سے زیادہ کسی نامزد شخص میں جو خصوصیت دیکھنی چاہیے وہ یہی ہے کہ وہ دین کے بارے میں کتنا جانتا ہے اور کتنا با عمل ہے اور اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں سیاست میں حصہ بھی لینا بھی چاہیے اور اپنانا اور پھیلانا بھی چاہئے تاکہ انسانوں کے حقوق پامال نہ ہو سکیں۔ 

اب یہ کہ ووٹ کس کو دیں ؟ اس کے لیے بھی ہمارے پاس رہنمائی موجود ہے الحمدللہ۔

ووٹ کی شرعی حیثیت

شرعی نقطۂ نظر سے ووٹ کی چار حیثیتیں ہیں:

ووٹ کی پہلی حیثیت گواہی ہے :

شہادت (گواہی) کہ ووٹ دینے والا ووٹر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جس کے حق میں میں نے گواہی دی ہے ، جس کو ووٹ دیا ہے وہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سے انجام دے گا۔ اگر گواہی جس کے حق میں دی جاری ہے وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتا اور پھر بھی اس نے اس کے حق میں گواہی دی تو یہ گواہی جھوٹی ہوگی اور جھوٹ کے بارے میں قرآن اور حدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے: حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کبیرہ گناہ ، اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، قتل کرنا اورجھوٹی گواہی دینا۔ ایک دوسری روایت ہے کہ جھوٹی گواہی شرک ہے۔ 

یہ ایک لمحہِ فکریہ ہے کہ ہم ووٹ جیسی بھاری زمہ داری کی گواہی دینے میں ذرا تحقیق نہیں کرتے۔

ووٹ کی دوسری حیثیت سفارش ہے

ووٹ کی دوسری حیثیت ایک سفارش کی ہے۔ یعنی ووٹ دینے والا اپنے امیدوار کی سفارش کرتا ہے کہ میں اس کی سفارش کرتا ہوں کہ یہ امیدوار قابل ہے اور اس کو کامیاب بنایا جائے۔ قرآن پاک نے اس بارے میں بھی مکمل رہنمائی کی ہےجو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصّہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصّہ پائے گا, اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے۔( سورة النساء:۸۵﴾

سفارش کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اچھائی کی سفارش اور ایک برائی کی سفارش، اب ہمارا جو دل کرے کریں, اچھائی کی سفارش کر کے اچھائی کے ساتھی بن جائیں دنیا اور آخرت میں یا برائی کے سفارشی بن کر جہنم چن لیں۔

ووٹ کی تیسری حیثیت مشورہ کی ہے۔

مشورہ سے حکومت کا قیام اور امور مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرۂ امتیاز ہے،ایک حدیث کا مفہوم ہے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمہارے حُکّام تم میں سے بہترین آدمی ہوں اور تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورہ سے طے ہوا کریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہتر ہے اور جب تمہارے حُکّام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مالدار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہو جانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔“ (روح المعانی: ۷/۵۳۱)

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حکومت تب ہی بہترین ہو سکتی ہے جب وہ باہم مشورے سے وجود میں آئے۔ اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہم امور میں صحابہ کرام سے مشورہ لینے کا حکم دیا اسی لیے خلافت راشدہ میں اکابر صحابہ کرام کی ایک مجلس شوریٰ تھی،جس میں اہم امور مشاورت کے بعد طے پاتے تھے پھر ان کو عمل میں لایا جاتا تھا۔اس لیے ووٹر کو چاہیے یہ امانت اس کے سپرد کرے جو خدا خوفی رکھتا ہو اور خود کو جوابدہ سمجھتا ہو۔

ووٹ کی چوتھی حیثیت وکالت کی ہے۔

یعنی ووٹر اپنے امیدوار کو اپنے معاملات میں وکیل بناتا ہے۔جیسے ہمیں اپنی زندگی میں کوئی معاملہ پیش آتا یے تو اس کے لیے وکیل کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم بہتر سے بہتر اور قابل ترین وکیل ڈھونڈھتے ہیں تاکہ وہ اچھے سے ہمارا کیس لڑ سکے ۔ اسی طرح یہ اس سے بھی بھاری ذمہ داری ہے کیوں کہ اس میں ہم ملکی معاملات کے لیے وکیل چن رہے ہوتے ہیں۔

ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ گواہی ، سفارش اور وکالت کا نام ہے۔ صرف آئینی حق ہی نہیں بلکہ ایک دینی و شرعی ذمہ داری ہے کہ ہم ووٹ کیوں دیں اور کسے دیں؟اب یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں آتی ہے کہ جب کوئی بھی امیدوار ان شرائط کی اہلیت نہیں رکھتا تو ووٹ ہی کیو ں دیا جائے؟ الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں بھی لاعلم نہیں رکھا۔

حدیث کا مفہوم ہے کہ جب دو چیزیں سامنے ہوں اور دونوں نقصان دہ ہوں اور ان کے علاوہ تیسری راہ نہ ہو تو دونوں میں سے کم نقصان والی چیز کو مجبوری کے درجہ میں اختیار کیا جائے،  لہٰذا اس حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے منتخب امیدواروں میں دیکھا پڑے گا کون سا امیدوار اخلاق ، عمل میں اور عوام اور اس کے مسائل کے بارے میں جانتا ہو یا بہتر نظر آتا ہو تو اسے چنا جائے گا اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن بائیکاٹ کر دیں گے یا میرے ایک ووٹ سے کیا ہوگا اور اگر میں نے ووٹ نہ دیا تو کیا ہو جائے گا  تو یہ اس سے بھی زیادہ حطرناک بات ہے،

ایک ووٹ نا دینے سے اور دینے سے بہت واضح فرق پڑتا ہے، ووٹ نا دینے سے یا ووٹ کی اہمیت سمجھے بغیر اور تحقیق کیے بغیر ووٹ دینے سے سب کا نقصان ہوتا ہے، سب سے پہلے ریاست کو نقصان ہوتا ہے نااہل لوگ قیادت میں آ جاتے ہیں، وہ لوگ قیادت میں آ جاتے ہیں جو نا تو ریاست کے لیے اور نا ہی عوام کے لیے بہتر ہوتے ہیں اور ہم انھیں ریاست کی باگ ڈور دے دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ ساری عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث میں اس بارے میں بھی ہماری رہنمائی فرمائی ہےکہ ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔

ووٹ ڈالنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کے بارے میں ہم سے سوال ہو گا کیوں کہ حکومت نے آنا ہی ہے ہر پانچ سال بعد اور وہ آئے گی میرے اور آپ کے الیکشن بائکاٹ کرنے سے کچھ نہیں ہو گا ہاں ہم اللہ کے حضور ضرور جوابدہ ہوں گے۔ کو نوا قوّامین للٰہ شہداء بالقسط ۔(قرآن ) اللہ کیلئے انصاف سے گواہی کو قائم کرنے والے بنو۔

ہم پوری دیانت داری سے اس فریضے کو نہیں سر انجام دے گے تو حکومت کبھی بھی اہل لوگوں (جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں گے اور اللہ کا نظام قائم کرنے والے ہوں گے) کے پاس نہیں جائے گی اور اللہ کا یہ حکم پورا نہیں ہو سکے گا اور اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے ولاتکتمو الشھادہ ومن یکتمھا فا نہ آثم قلبہ۔(قر آن) شہادت (گواہی )کو نہ چھپا ؤ اور جو شخص اس کو چھپاتا ہے اس کا دل گناہ گار ہے۔

کچھ لوگ جانتے بھی ہوتے ہیں کون سا امیدوار اہل ہے اور اس امانت کو اٹھانے کے قابل ہے لیکن صرف کبھی رشتے داروں کی بنیاد پر یا ذاتی مفاد کی بنیاد پر یا بغض و کینہ کی بنیاد پر ووٹ کی اس امانت میں خیانت کر دیتا ہے اور گنہ گاروں میں شامل ہو جاتا ہے۔ 

اس ساری  تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ ڈالنا ایک دینی فریضہ ہے اور ہم سب کو اس فرض کی ادائیگی کے لیے پوری دیانتداری سے کام لینا ہے کیوں کہ میرے ایک ووٹ سے فرق پڑتا ہے اور میں اس کے لیے اپنے رب کے آگے جوابدہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس فریضے کی بہترین طریقہ سے ادائیگی کی توفیق دے اور ہمیں نیک اور رحمدل حکمران عطا کرے آمین۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں