ڈاکٹر ریاض محبوب :
یہ ماہ جولائی کی ایک تپتی دوپہر تھی جب میں فیصل کالونی پتوکی سے لاہور کے لۓ روانہ ہوا کیونکہ بعد نماز عصر مجھے پی سی ہوٹل لاہور میں یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (یو-ایم-ٹی) لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ فکرو نظر کے ایک سیمینار میں شرکت کرنا تھی۔
یہ غالباً جنرل مشرف کے زمانہ حکومت 2004-2005 کی بات ہے۔ایک دیہاتی کلچر کا پروردہ طالب علم زندگی میں پہلی دفعہ کسی فائیو سٹار ہوٹل اور اس کی راہ داریوں سے ہوتا ہوا ہوٹل کے زیریں ہال پہنچا جہاں ڈیڑھ دو سو منتخب احباب جن میں زیادہ تر لاہور شہر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ اور اہل علم و دانش شامل تھے،کی ایک خوبصورت مجلس آراستہ تھی۔
مجلس کی صدارت ڈاکٹر رفیق احمد مرحوم کر رہے تھے اور مہمان خصوصی جو مہمان مقرر بھی تھے ڈاکٹر ابراہیم ابوربی ( نام اچھی طرح یاد نہیں ) جو مسلم ورلڈ نامی ایک انٹرنیشنل میگزین کے ایڈیٹر بتائے جا رہے تھے اور امریکہ سے تشریف لائے تھے۔ مرحوم ڈاکٹر حسن صہیب مراد ریکٹر یو ایم ٹی اس سیمینار میں میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
مہمان مقرر نے امریکی لہجے والی انگریزی میں بھرپور خطاب کیا جو حاضرین کو اپنی اپنی انگریزی دانی کی استطاعت کے مطابق سمجھ آیا ہوگا؛آدھا،پونا یا کچھ اور۔۔۔۔۔معلوم ہوتا تھا کہ وہ سامعین کو ماڈرن ورلڈ کے پس منظر میں روشن خیالی،لبرلازم اور جدید تعلیم کے رموزو اوقاف سمجھانے کی کوشش کررہے تھے۔ مہمان مقرر اس دور میں تقریر کر رہے تھے جب دہشت گردی کا لیبل لگا کر پوری دنیا میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا۔
اپنی تقریر میں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مسلم امہ کا یہ تصور درست نہیں کہ اہل مغرب یا کوئی صیہونی سازش مسلمانوں پر ظلم و جبر یا ان سے ناانصافی کا رویہ روا رکھے ہوئے ہیں۔اس روز کا ایک منظر یہ بھی تھا کہ مہمان مقرر اور صدر مجلس تو نارمل انگریزی لباس پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے،تاہم میزبان نے سخت گرمی میں بھی انگریزی لباس کے تمام آداب ملحوظ خاطر رکھے ہوئے تھے،ممکن ہے آداب میزبانی کا تقاضا ہو۔۔۔۔
اختتامی کلمات صدر مجلس ہی کو ادا کرنا ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ کلمات انہیں انگریزی ہی میں کہنا تھے کہ مکالمہ جس شخصیت سے ہورہا تھا وہ یہی زبان سمجھتے تھے۔البتہ ڈاکٹر صاحب چونکہ دیسی لہجے میں انگریزی بول رہے تھے اس لۓ لگتا تھا سامعین کو مقرر کے خیالات سے کچھ زیادہ آگہی مل رہی ہے۔ یہ کلمات تو کچھ طویل ہوگئے مگر مرحوم ڈاکٹر رفیق احمد نے ایک استاد ، رئیس جامعہ ، مسلمان اور محب وطن پاکستانی کے ناتے نہ صرف مجلس کا حق بلکہ قرض بھی ادا کردیا۔
انہوں نے رئیس جامعہ کی طرح اپنے بچوں کو کہانی کا دوسرا صفحہ پڑھایا اور بتایا کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کی باٹم لائن یہ ہے کہ جن کے دین میں چیونٹی کو مارنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے ان کے منہ پر طاقت کے اندھے زور پر کس طرح دہشت گردی کی کالک ملنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ انہوں نے مغرب میں چھپنے والے رسائل ، جرائد ، اخبارات اور مفکرین کی تازہ کتابوں کے حوالے پیش کرکے مہمان مقرر کی ساری گفتگو کو بے معنی قرار دے دیا۔
گفتگو کا وقار بتاتا تھا کہ وہ مہمان کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھ رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ صاحب مطالعہ بھی ہیں اور دور حاضر کی نبض پر ہاتھ بھی رکھتے ہیں۔یہ ایک یونیورسٹی پروموٹنگ پروگرام تھا جسے مہمان مقرر اور صدر مجلس کی گفتگو نے ایک علمی مجلس بنا دیا۔ مجلس کا اختتام توایک مختصر کھانے کے لوازمات لئے پر تکلف چائے پر ہوا، البتہ دو باتوں کا نقش آج بھی ذہن پر تازہ ہے۔
ایک یہ کہ دنیا بھر میں خیالات کی ترسیل کا ایک ہی طریقہ رائج ہے کہ جنہیں سنانا ہے ان کی زبان میں سنایا جائے ۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مترجم کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔ بدیسی زبان کے زور پر اپنی علمیت کے رعب جمانے کا چلن اب شاید زیادہ دیر نہ چل سکے گا۔
دوسری بات یہ کہ علم اور زبان کے مفہوم کو خواہ مخواہ گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔
علم؛ انسانوں کی فکر ، ان کے نظریات ، مشاہدات اور تجربات کے نچوڑ کا نام ہے اور زبان اسے دوسروں تک منتقل کرنے کا ذریعہ۔ اقوام متحدہ کے 193 ممالک اپنے بچوں کو اپنی اپنی زبان میں تعلیم دے رہے ہیں اور ہم ایک بدیسی زبان کے ہاتھوں اپنے بچوں کی صلاحیتوں کا ضیاع کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے ماہرین تعلیم کا اس بات پر اجماع ہے کہ طالب علم اسی زبان میں تحقیق کر سکتا ہے جس میں وہ خواب دیکھتا ہے۔ علم کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ قدیم ترین علم مصر کا ہے جو ترجمہ ہوکر یونان پہنچا اور یونانی علم ترجمہ ہوکر قرطبہ ، غرناطہ اور بغداد پہنچا جسے مسلمانوں نے تجربے کی سان پر چڑھا کر چار چاند لگائے۔
یہی علم ترجمہ ہوکر لندن ، پیرس اور واشنگٹن کی زینت بنا ہے ۔ طب جراحی ( آپریشن ) کے ماہر ابوالقاسم زہراوی کی کتاب التصریف انگریزی میں ترجمہ کرکے لندن کے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جارہی ہے ۔ سچی بات تو یہی ہے کہ علم انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے اور زبان اسے منتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔۔۔۔۔۔ پاکستان کا کوئی استاد اور کوئی طالب علم نالائق نہیں بلکہ ہمارا نظامِ تعلیم نالائق ہے۔
اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں کوئی ایک ملک دکھا دیں جو اپنے معصوم بچوں کو غیر ملکی زبان میں تعلیم دے رہا ہو۔کوئی ایسا ملک دکھا دیں جس میں ایسا بھاری بھرکم بستہ ہو ۔ کوئی ایسا ملک دکھا دیں جس میں ہوم ورک کی جان لیوا پریکٹس ہو ۔ کوئی ایسا ملک دکھا دیں جس نے اپنے بچوں کی تعلیم کو تاجروں کے رحم و کرم پر ڈال دیا ہو۔۔۔۔جبکہ اس کے آئین میں لکھا ہو کہ سولہ سال کی عمر تک کے ہر بچے کو مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہو گی ۔۔ڈاکٹر رفیق احمد 25 مارچ 2020 کو لاہور میں انتقال کرگئے ۔ اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔۔۔۔۔۔