ابنِ فاضل
ایک بار ہم چین کے ایک وسطی شہر چونگ چینگ Chongqing میں تقریباً محصور ہوکر رہ گئے. ہوا کچھ یوں کہ چینیوں کی اکتوبر کی سالانہ چھٹیوں سے ایک روز قبل ہماری یہاں ایک انتہائی اہم میٹنگ تھی. میٹنگ کے بعد ہم نے اپنے میزبان سے کہا کہ ہمارے لیے شنگھائی کی ٹکٹ بک کروا دے. اس نے کچھ کوشش کے بعد اعلان کیا کہ چونکہ یہاں سالانہ چھٹیاں ہیں لہذا تین روز سے پہلے کوئی جہاز، ریل یا بس وغیرہ نہیں مل سکتی، مجبورا ہمیں تین دن کیلئے یہیں رکنا پڑا.
چونگ چینگ کے جس علاقے میں ہمارا قیام تھا وہاں دور دور تک کوئی مسلم فوڈ ریسٹورنٹ نہیں تھا چنانچہ، تین دن کی اس تقریباً قید میں ہمارا گزارا دودھ، ڈبل روٹی اور جوس وغیرہ پر تھا. اس دوران سخت بیزاری کے عالم میں ہم بیکری سے کچھ مختلف تلاش کرتے ہوئے ایک چھوٹا سا بند نما کیک بھی اٹھا لائے. جب کھانے کیلئے توڑا تو اس میں جامنی رنگ کا جام سا بھرا تھا. ہم نے احتیاطاً نہیں کھایا کہ جانے کوئی حلال شے ہے کہ نہیں.
مگر وقت گزاری کے دوران کی گئی تحقیق میں پتہ چلا کہ یہ اروی کا بنا جام ہے. اچھی طرح تسلی کے بعد جب چکھا تو بہت لذیذ پایا. مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ اروی نہ صرف جامنی بلکہ گلابی رنگ کی بھی ہوتی ہے اور اس سے بہت سی مزیدار میٹھی اشیاء تیار کی جاتی ہیں. جبکہ ہم نے تو زیادہ سے زیادہ اروی بینگن ہی با دل نخواستہ کھارکھے تھے.
جامنی ،گلابی اور سفید ہر سہ اقسام کی اروی کو خشک کرکے اس کا پاؤڈر بنایا جاتا ہے. جو بہت سے کھانوں اور ڈیزرٹس میں استعمال کیا جاتا ہے. خاص طور پر سفید اروی کے پاوڈر میں خشک دودھ ملا کر اس سے تارو ملک ٹی taro milk tea بناتے ہیں. اروی کے پاؤڈر سے ملک شیک، سمودی اور آئسکریم تیار کی جاتی ہیں. اس مقصد کے لیے جامنی اور سفید اروی دونوں استعمال کی جاتی ہیں.
اروی کے تنے taro stem سے ویت نام کا مشہور زمانہ taro stem soup بنایا جاتا ہے جس کو خوش ذائقہ اور توانائی بخش ہونے کی وجہ سے پوری مشرقی ایشیاء میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے. کورین اس سوپ کے دیوانے ہیں. ویت نام ہرسال لاکھوں ڈالر کے اروی کے خشک تنے کوریا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کو برآمد کر کے کثیر زرمبادلہ کماتا ہے.
ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ اگرہم بھی اروی کے تنے درست طریقے سے خشک کرکے پیک کرنا سیکھ لیں تو انہیں کوریا اور دیگر ممالک کو برآمد کرکے اربوں روپے سالانہ کما سکتے ہیں.اسی طرح چھیل کاٹ کر پیک کی ہوئی فروزن اروی کی بھی لاکھوں ڈالر سالانہ کی بھی مارکیٹ ایشیاء، آسٹریلیا اور یورپ میں موجود ہے.
اروی کے پتوں میں قدرت نے وٹامن سی، وٹامن اے کے ساتھ ساتھ اینٹی آکسیڈنٹس اور کئی مائیکرو نیوٹرینٹس رکھے ہیں. ان کے استعمال سے نظر تیز ہوتی ہے، بیماریوں خاص طور پر کینسر کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے. دل کے امراض میں کمی واقع ہوتی ہے اور موٹاپے سے نجات حاصل ہوتی ہے.
یہی وجہ ہے کہ بہت سے ایشیائی ممالک کے لوگ اس کے پتے بھی پکا کر کھاتے ہیں. اور انہیں خشک کرکے محفوظ بھی کرتے ہیں. امارات میں فلپائن کے خشک پیک شدہ اروی کے پتے پاکستانی ایک ہزار روپے سے زائد فی کلوگرام فروخت ہورہے ہیں جبکہ ایمزون پر ان کی قیمت پاکستانی تین ہزار روپے فی کلوگرام سے بھی زیادہ ہے.
اروی کے پاوڈر میں اسی سے پچاسی فیصد ایک خاص قسم کا میدہ ہوتا ہے. اس میدے کا اگر دس فیصد کا محلول پانی میں تیار کیا جائے اور اس میں چار فیصد گلیسرین ملا کر اسی ڈگری سینٹی گریڈ پر کچھ دیر کے لیے گرم کرلیا جائے تو یہ ایک جیل کی صورت اختیار کرلیتا ہے. اس جیل کو کسی ہموار سطح پر بچھا کر بارہ سے بیس گھنٹے بیس درجہ حرارت پر چھوڑ دیا جائے تو یہ مہنگے ترین بائیوڈیگریڈایبل پلاسٹک میں تبدیل ہو جاتا ہے.
پودوں سے حاصل کیے جارہے بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک میں سے یہ سب زیادہ مضبوط اور قابل بھروسہ پلاسٹک ہے. جس سے مختلف کھانے کے اشیاء کی پیکنگ تیار کی جاتی ہیں. گویا ہمارے پاس دہائیوں سے موجود ایک ایسا خام مال جس سے درجنوں بیش قدر اشیاء بنائی جاسکتی ہیں محض ایک ناپسندیدہ سبزی کے طور پر جانا جاتا ہے.
وجہ صرف وہی کہ نہ ہمیں علم کی جستجو ہے اور نہ تحقیق کا شوق. لیکن اب ہم علم بھی حاصل کریں گے اور کم قیمت خام مال سے مہنگی اشیاء بنانے کی عملی مشقیں بھی کریں گے.. کیونکہ اب ہمیں ہونا ہے خوشحال..