نگہت حسین :
سہیلی ہمارے ساتھ باتوں میں مصروف تھی ۔ چار چھوٹے بچوں کی ماں ۔
چائے کے کپ نکالنے لگی تو پانچ سالہ بیٹا دوپٹہ پکڑ کر فرش پر بیٹھ گیا ، کھینچ کر ضد کرنے لگا کہ سارے کام چھوڑیں ، میرے پاس آئیں ۔ بچہ ضد میں تھا ، ماں پیار سے نظر انداز کرتی رہیں لیکن اتنا ہی بچے کا رونا تیز ہوتا گیا ۔
پڑوس سے آئی ایک خاتون نے حیرانی سے کہا ۔۔۔۔ہائے ۔۔۔۔یہ تمہارا بیٹا ہے ، کتنا ضدی ہے ! ۔۔۔ تم اتنی سمجھ دار ہو ، تم سے ایسی تربیت کی توقع نہیں تھی ۔
سب چلے گئے تو شرمندہ سی سہیلی نے بتایا کل سے بخار تھا بیٹے کو ، آج ہی بہتر ہوا ہے تھوڑا ، اس لئے تھوڑا ضدی ہورہا ہے .
سہیلی کی شرمندگی دیکھ کر افسوس سے سوچتے رہے کہ ہم کس قدر ججمنٹل ہیں ۔
بچوں کو بچہ مانتے ہیں نا ؟
۔۔۔غلطی بھی کریں گے ۔۔۔۔۔۔ بے موقع کھلکھلا اٹھیں گے ۔۔۔۔۔ کہیں بھوک سے بے تاب ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ کبھی ضد میں ہوں گے ۔۔۔۔ سنی ان سنی کر جائیں گے ۔۔۔۔اپنی پسندیدہ چیزوں پر بے صبری کا مظاہرہ کریں گے ۔۔۔۔۔۔اکتا جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ نت نئی سرگرمیاں چاہیں گے ۔۔۔۔۔۔ نئے تجربوں سے گزرنے کی ضد کریں گے ۔۔۔۔۔ناسمجھی ۔۔۔ بے وقوفی ، نادانی ہر ایک چیز کا امکان ہے ؟
ایسے مواقع پر سب وے اسٹوری بہت یاد آتی ہے جو کہ اس کے مصنف اسٹفین کوی نے ایسے ہی ججمنٹل رویوں پر ایک بہت ہی اچھا واقعہ تحریر کیا ہے کہ Seven Habits of highly effective people ایک شہرہ آفاق کتاب ہے
نیویارک کے ایک سب وے پر ایک اتوار کی صبح لوگ خاموشی سے بیٹھے تھے۔ کچھ اخبارات پڑھ رہے تھے ، کچھ سوچوں میں گم ہوگئے ، کچھ آنکھیں بند کرکے آرام کر رہے تھے۔ یہ ایک پر سکون ، پرامن منظر تھا۔ پھر اچانک ، ایک شخص اور اس کے بچے سب وے کار میں داخل ہوئے۔ بچے اتنے تیز اور بے چین تھے کہ فوری طور پر سارا پرسکون منظر بدل گیا ۔
بچوں کی ہلڑ بازی سے بے نیاز وہ شخص میرے پاس بیٹھا اور آنکھیں بند کرلیں ، بظاہر صورتحال سے غافل۔ بچے آگے پیچھے چیخ رہے تھے ، چیزیں پھینک رہے تھے ، یہاں تک کہ لوگوں کے کاغذات بھی پکڑ رہے تھے۔ یہ بہت پریشان کن تھا۔ اور پھر بھی ، میرے پاس بیٹھے آدمی نے کچھ نہیں کیا۔
پریشان نہ ہونا مشکل تھا۔ میں یقین نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اتنا بے حس ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس طرح جنگلیوں کی طرح چلانے دے گا ، اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کرے ، بالکل بھی ذمہ داری قبول نہ کرے ۔
سب وے پر موجود ہر فرد کا اس ہلڑ بازی سے پریشان ہونا فطری تھا ۔ لہذا آخر کار ، میں نے جو محسوس کیا وہ غیر معمولی صبر اور تحمل تھا ، میں نے اس کی طرف رجوع کیا اور کہا : "جناب ، آپ کے بچے واقعی بہت سارے لوگوں کو پریشان کررہے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ اگر آپ ان پر تھوڑا زیادہ کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں؟
اس شخص نے اپنی نگاہیں ایسے اٹھائیں جیسے پہلی بار صورتحال اس کے علم میں آئی ہو اور وہ ہوش میں آیا ہو ۔ اس نے آہستہ سے کہا ، "اوہ ، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہئے۔ ہم ابھی اسپتال سے آئے تھے جہاں ایک گھنٹہ قبل ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ میں نہیں جانتا کہ کیا سوچنا ہے ، اور مجھے لگتا ہے کہ بچے اس صدمے کو سنبھالنا نہیں جانتے ہیں۔بچے سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ ان کی والدہ اب ان کے ساتھ نہیں ہیں ۔
اسٹیفن کوی کا کہنا ہے کہ اس ایک بات سے کہ بچوں کی ماں کا ابھی انتقال ہوا ہے ، سن کر سارے لوگ سکتے میں آگئے اور جہاں غصہ تھا ادھر ہمدردی اور محبت نے جگہ لے لی ۔ پھر بچوں کو سب نے پرسکون رکھنے کی کوشش کی،”
بچے عام طور پر بیماری ، بھوک اور نیند میں اس قسم کی جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہی ہیں ۔ سمجھ دار، تمیز والے بچے بھی خوف ، غم ، بھوک بیماری کی حالت میں ایسے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں کیوں کہ چھوٹے ہوتے ہیں ، اپنے جذبات و احساسات کو خود بھی سمجھ نہیں سکتے ہیں ۔
یہ بات مانیں تو بات آگے بڑھے ۔
بات یہ ہے کہ سمجھ دار والدین کے بچوں کے کاندھوں پر والدین کی سمجھ داری کا وہ بوجھ ہوتا ہے جو ان کا بچپن چھین لیتا ہے ۔اس لئے سمجھ دار حساس اور ذمہ دار والدین کے بچوں کو کسی بھی قسم کے خصوصی حالات کا کوئی مارجن نہیں دیا جاتا ہے ۔
ارے یہ تمہارا بیٹا ہے ؟ آئس کریم کیسے چاٹ رہا ہے ؟
اف ! تمھاری بیٹی ڈبل کریم بسکٹ کو کیسے کھول کھول کر گند پھیلا رہی ہے ؟
اس میں اتنا غصہ ؟ تمہارے بچے کو ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔یہ رو کیوں رہا ہے ؟ یہ اتنا چڑچڑا کیوں ہوگیا ہے ؟
یہ کیوں سورہا ہے ؟ اس کو کتابوں کا شوق کیوں نہیں ہے ؟
اس میں وہ والی بات نہیں جو تم میں ہے ۔تمھاری بیٹی نہیں لگتی یہ تو بالکل ۔۔۔
یہ صوفے پر پاؤں رکھ کر کیوں بیٹھا ہے ۔
یہ زمین پر کیوں لوٹ رہا ہے ؟
بات سن لیجیے !
کبھی جو آپ نے ایک چکر لگایا ۔۔۔۔۔اس میں کوئی ایسا نظارہ دیکھا ۔۔۔۔۔۔ بغیر کوئی سبب جانے اور موڈ مزاج کے پس منظر کو پرکھے بناء ہی اسی وقت اماں ابا کی عقل مندی ،سمجھ داری ، ذمہ داری اور صبر کے فریم میں ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو فٹ کرنے کا بے رحمانہ کام کیا ۔ان کے والدین کی شخصیت کے مقام و معیار سے ان کے چھوٹے بچوں کو جانچنے کا جو کام کیا ۔اس سے کیا ہوا ؟
کہیں نہ کہیں حساس والدین کے اوپر ایک دباؤ پڑ گیا۔ مجرمانہ سا احساس ہوگیا ۔ہم سے کمی رہ گئی ہے ۔۔۔ہم وہ نہیں کر پارہے ہیں جو کرنا چاہیے ۔۔۔۔میرے بچوں کو تو لازمی ماڈل ہونا چاہیے ۔۔۔ احساس جرم ۔۔۔غفلت ۔۔۔۔۔شرمندگی ۔۔۔۔کے بوجھ تلے دبے سمجھ دار والدین جو بچوں کو تمیز تہذیب سکھانے کی ایک سے ایک جدوجہد کررہے ہوتے ہیں ایسے ججمنٹل نظروں اور تبصروں سے خود اپنی اولاد کے لئے ججمنٹل ہوجاتے ہیں ۔ہر وقت اپنی ذات اور مقررہ معیار پر پرکھتے ہیں اپنی اولادوں کو ۔۔۔ بچوں کو بچہ ہی سمجھیے
خدارا والدین کی سمجھ داری اور صبر کا فریم ان والدین کے بچوں کے بچپن پر فٹ نہ کیجیے ۔
ایک تبصرہ برائے “ہم اس قدر جلد ججمنٹل کیوں ہوجاتے ہیں؟”
بہت ہی بہترین انداز میں منظر کشی کی ہے آپ نے۔۔ یقینا تربیت دونوں اطراف کی ہونا ضروری ہے آج کل۔۔۔
بہت اعلی
سلامت رہیں