بنت کشمیر شازیہ عبدالقادر:
کشمیر الیکشن کی آمد آمد ہے، اور میرے کشمیر جنت نظیر سے رشتہ دار و احباب کی فیس بک وال اور واٹس ایپ اسٹیٹس پر الیکشن کی گہما گہمی عروج پر جارہی ہے۔ ایسے میں لاہوری کشمیری ہونے کی وجہ سے جوش و جذبہ بیدار ہونا فطری امر ہے۔ برصغیر پاک و ہند کا مزاج بھی انوکھا ہے۔ یہاں جمہوریت کے بیج تو ڈال دئیے گئے لیکن ان کی کھاد اور پرورش کا نظام غیروں نے اپنے ہاتھ ہی رکھا۔ آزاد کشمیر کے سیاسی افق پر پاکستان کی سیاست کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ جو پارٹی پاکستان میں ”سلیکٹڈ“ …… میرا مطلب برسراقتدار ہوتی ہے وہ آزادکشمیر میں اپنے تعلقات بنانے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتی کہ اس کی ہمنوا پارٹی ہی کشمیر میں برسراقتدار آئے۔
پاکستان کی سیاست اور آزاد کشمیر کی سیاست
اس مرحلے پر ایک سرسری سا جائزہ پاکستانی سیاست کا بھی لیتے ہیں۔ یقیناً آزادکشمیر میں رہنے والوں کے لئے اس میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام میں برسرپیکار سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ان 74 سالوں میں کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ جو لوگ خود اقتدار کی خاطر بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائیں، ان میں نظریہ کہاں باقی رہتا ہے۔ پھر موروثیت اور خاندانی سیاست نے رہی سہی کسر نکال دی۔
پاکستان میں سب سے زیادہ حکومت کرنے والی پارٹی مسلم لیگ ن اسمبلیوں میں قانون سازی نہ کرسکی۔ عوام کی حقیقی مشکلات پر توجہ دینے کی بجائے سارا بجٹ ایک دو شہروں پر لگادیا۔ عوامی پذیرائی ملی بھی تو کارگل جیسا دھبہ ان کے شریف دامن پر لگا۔ مزید دیکھیں تو کچھ بائیں بازو کی جماعتوں نے نظریہ پاکستان سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی سر اٹھایا۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لاڑکانہ کی آلودہ گلیوں میں دم توڑ گئے۔ جہاں غریبوں سے بیگار کے نام پر ان سے جینے کا حق تک چھین لیا جاتا ہے لیکن بھٹو پھر بھی زندہ ہے۔ یہ لوگ جب کشمیر پہنچے تو لوگوں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے کشمیر میں خونی سیاست میں سکہ جمایا۔
سیاسی جماعتوں کے پرانے مہروں کے ملغوبے سے نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار پاکستان میں ہر نیا آنے والا دن عام آدمی کے لئے مشکل سے مشکل تر کرتے جارہے ہیں کہ وہ بلبلا اٹھتا ہے کہ بھائی! نیا پاکستان اپنے پاس رکھو،ہمیں پرانا پاکستان واپس دے دو۔ دینی جماعتوں کو دیکھیں تو اول ان میں اتحاد ناپید ہے، اکھٹے ہوجائیں تو جلد الگ ہوجاتے ہیں کہ کچھ مدرسے چلانے والوں کو تھوڑے اور وقتی فائدے پر ہمنوا بنالیا جاتا ہے۔ عرصہ دراز کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہنے کے باوجود آزاد کشمیر اور آزادی کشمیر کے لئے اقدامات سے ان کا ریکارڈ بھی خالی نظر آتا ہے۔
گزشتہ دنوں ساری اپوزیشن جماعتیں (سوائے جماعت اسلامی کے ) پی ڈی ایم نامی اتحاد کے پلیٹ فارم سے نئے پاکستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کو ہر نئے دن نیا مضحکہ خیز کلپ لئے میدان میں آتی ہیں،کبھی سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں، پھر کبھی پرانی ازلی دشمنی سر اٹھاتی ہے تو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی شروع کردیتے ہیں۔کبھی ہاں، کبھی ناں، کبھی یہاں،کبھی وہاں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔
عوام کا یہ حال ہے کہ مہنگائی بڑھتی جارہی ہے کہ بنیادی ضروریات زندگی کا حصول مشکل ترین ہوگیا ہے۔
آلو پیاز ٹماٹر مہنگے تو سبزی مرغی مناسب، سبزی مرغی مہنگی تو آلو پیاز ٹماٹر سستے۔کبھی آٹے،چینی کا بحران تو کبھی گھی اور کوکنگ آئل مہنگا۔ پٹرول ہو یا بچوں کے تعلیمی اخراجات، ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جبکہ تنخواہوں میں اضافہ انتہائی کم۔ جان ومال کے تحفظ، عدل و انصاف کی فراہمی میں ناکام۔ سفر ہو یا علاج معالجہ انسان کے بس سے باہرہوتا جارہا ہے۔ عام آدمی کے لئے زندگی ایک مسلسل عذاب بن گیا ہے۔ کوئی بچوں سمیت خودکشی کرلیتا ہے، کوئی سیکرٹریٹ کے باہر خود کو جلانے لگتا ہے۔
نفسیاتی مسائل کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا۔ شادیاں تاخیر کا شکار ہورہی ہیں۔ فراغت اور فرسٹریشن مل جل کر حیوانیت میں اضافہ کررہے ہیں۔ جہاں پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ تھا، وہاں پناہ گاہیں کھل رہی ہیں،جہاں ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ تھا وہاں لنگرخانے بن رہے ہیں۔ الغرض یہ سیلیکٹڈ تبدیلی پاکستانی عوام کو بہت مہنگی پڑی ہے۔
آزاد کشمیر اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ ہے۔ قائداعظم رحمہ اللہ نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ جغرافیائی اور نظریاتی حدود ایسی ہیں کہ پاکستان سے الحاق میں ہی پاکستان اور کشمیر دونوں کی بقا ہے۔ یہاں کچھ لوگ خود مختار ریاست کا بچگانہ نعرہ لگاتے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی آئی ایم ایف، امریکا کے قدموں میں جھکا ہوا ہے،
مفاد پرست سیاستدانوں کی بدولت اس کی معیشت، اقتدار اسی آشیرباد سے چل رہا ہے۔ ان دیکھی قوتیں پاکستان پر قابض ہیں۔ وہاں کشمیر کی ریاست پاکستان کے ساتھ مل کر ایک قوت تو بن سکتی ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ الگ ریاست پر بھارت پنجے گاڑنے کو تیار بیٹھا ہے۔ شہ رگ جسم کے بغیر کچھ نہیں اور جسم میں روح شہ رگ کے بغیر نہیں۔کشمیر کا فطری الحاق اور قوت پاکستان ہے۔
آزاد کشمیر کی سیاست پر پاکستانی سیاسی پارٹیوں کا غلبہ اور اثر و رسوخ اسے ترقی کی جانب بڑھنے میں معاون نہیں ہے جیسے وہ دوغلے،کرپٹ حکمران پاکستان کے ساتھ وفاداری نہیں کرسکے کشمیر کے ساتھ بھی وفاداری نہیں کرتے نہ ہی کریں گے۔کشمیریوں کو اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔
کشمیری ووٹ کسے دیں؟؟؟
یہ آج کا اہم سوال ہے۔ سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ووٹ ایک فرض، ایک ذمہ داری ہے۔ ہرفرض اور ہر ذمہ داری ایک امانت ہوتا ہے۔ چنانچہ رب رحیم قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ ” امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔“ ہر فرض اور ہر وہ ذمہ داری جو ہمارے سپرد اس دنیا میں ہے، ہمیں اس کا حق ادا کرنا ہے اس لئے کہ آخرت میں ہم سب کو اللہ کے سامنے اس کی جوابدہ ہونا ہے۔
ہمارے ووٹ یعنی اس امانت کا حق دار کون ہے؟
سورہ الحج آیت 41
”یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو یہ نماز قائم کریں اور زکوۃ کی ادائیگی کریں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں بے شک سب کاموں کا انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔“
سادہ الفاظ میں ہمارے ووٹ جیسی امانت کا اہل وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا وفا دار اور اطاعت گزار ہو، سود کھانے والا نہ ہو،کرپٹ نہ ہو، ایسی پارٹی سے تعلق نہ ہو جس کی تاریخ کرپشن، سود خوری، ظلم اور ناانصافی سے بھری ہو۔ جو اللہ کا خوف رکھے گا،آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھے گا، اللہ سے ڈر کر بندوں سے معاملات کرے گا، وہی ووٹ جیسی اہم امانت اہم فرض اہم ذمہ داری کا اہل ہے۔
پاکستان کی پارٹیوں میں جمہوریت کا تجزیہ شائعہو،کرپشن سے شفاف دامن کی بات ہو، اسمبلیوں میں کارکردگی کی بات ہو یا منتخب نمائندوں کے حلقہ جاتی فلاح و بہبود کے منصوبے، موروثی سیاست سے پاک ہو،تعلیمی و خدمتی سرگرمیاں ہوں، ایسی جماعت صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔ الیکشن میں کھڑے ہوتی ہے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نام بلند کرتے ہوئے، جیتے یا ہار ے، دونوں صورتوں میں عوام کے درمیان موجود رہتی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے جماعت اسلامی اقامت دین کی عالم گیر جماعت ہے۔ اس نظریہ پر عرب میں الاخوان،کہیں النہضہ،کہیں اسلامی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، اسلامی تحریک، تحریک اصلاح، حماس، اسلامی پارٹی جبکہ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، جموں کشمیر و آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کے نام سے نبوی فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔
قائد اعظم ، پاکستان اور کشمیر
قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو مسجد قرار دیا تھا،کشمیر کو اس کی شہ رگ قرار دیا۔ ایک رپورٹر نے امیرجماعت اسلامی سراج الحق سے پوچھا کہ لوگ آپ کو ووٹ نہیں دیتے پھر بھی آپ الیکشن میں کھڑے ہوجاتے ہیں؟ سراج الحق صاحب نے جواب دیا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے پانچ بار مسجد میں نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے۔ اگر لوگ نماز پڑھنے نہ بھی آئیں تو موذن کا کام اذان دینا ہے۔ ہم الیکشن میں کھڑے ہوکر اذان دیتے رہیں گے۔
کشمیر الیکشن 2021 کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس بار جماعت اسلامی اپنے نشان اپنے جھنڈے کے ساتھ الیکشن کے میدان میں اتری ہے۔ جن لوگوں کو یہ اعتراض تھا کہ ہمیشہ دوسروں کے ساتھ مل جاتی ہے، اپنا نشان، اپنا جھنڈا نہیں بلند کرتی، اب وہ اعتراض بھی نہ رہا لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوت کے ساتھ جماعت اسلامی کو سپورٹ کیا جائے اور کامیابی سے ہمکنار کیا جائے۔
جماعت اسلامی کا نصب العین حقیقتاً رضائے الہٰی و فلاح اخروی اور عملًا حکومت الہیہ کا قیام ہے،اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا علم بلند کئے میدان میں ترازو کے نشان کے ساتھ اتری ہے۔ آپ کے ووٹ کی حق دار یہی جماعت ہے۔ یقین رکھیں کہ جب اس کے لوگ جیت کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے تو عوام انھیں اپنا ہمدرد و غم گسار پائیں گے۔ بالفرض کہیں جیت نہ سکے تو بھی آپ کا ووٹ ضائع نہیں ہوگا۔ اللہ کے ہاں میزان میں لکھا جائے گا کہ آپ نے اللہ کی رضا کو مقصد رکھنے والی جماعت کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔
جماعت اسلامی کی خدمات
جماعت اسلامی نے اتحادی سیاست سے کنارہ کشی کی پالیسی کا اعلان کیا ہے،کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی۔ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ جماعت اسلامی صرف الیکشن کے دنوں کے علاوہ بھی آپ کو نظر آئے گی، یہ ایک سڑک بنواکر غائب نہیں ہوگی،اس بات کا یقین رکھیں۔ اس وقت آزادکشمیر میں جماعت اسلامی کے زیرانتظام 385 سکول کام کررہے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ اور سات ہزار سے زائد اساتذہ ہیں۔
گزشتہ برسوں میں کشمیر بورڈ میں نمایاں پوزیشن انہی اسکولوں کے حصے میں آئی۔ ہزاروں مستحق طلبہ کو مفت تعلیم، یونیفارم، کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔ خدمت کے میدان میں الخدمت کے توسط سے صرف سال 2020 میں 19 کروڑ مالیت کے منصوبے مکمل ہوئے۔ پانی کے 200 سے زائد منصوبے،3 ہسپتال و ڈسپنسریاں،واٹرفلٹریشن پلانٹ 3 عدد۔ زلزلہ زدگان کی امدادی سرگرمیوں میں ڈیڑھ ارب سے زائد رقم خرچ ہوئی۔
کورونا کے دوران الخدمت فاؤنڈیشن کی مثالی سرگرمیوں پر آزادکشمیر کے صدر اور وزیراعظم کی جانب سے شاندار خراج تحسین اور ایوان صدر میں تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ تحریک آزادی کشمیر میں اول روز سے جماعت اسلامی آزادکشمیر ہراول دستہ ہے۔ ہزاروں شہداء کی قربانیوں کے ساتھ شہدا کے خاندانوں اور کشمیری مہاجرین کی سرپرستی میں بھی پیش پیش رہی ہے۔
گزشتہ الیکشن میں جماعت اسلامی آزادکشمیر کے 2 ایم ایل اے کشمیر اسمبلی میں پہنچے۔جماعت اسلامی آزادکشمیر کی نامی گرامی شخصیت عبدالرشید ترابی اور محترمہ رفعت محمود۔ جناب عبدالرشید ترابی نے تعلیمی اداروں میں قرآن کریم کی لازمی تعلیم ، اسمبلی میں موجود ختم نبوت کی قرارداد کو باضابطہ قانون کا حصہ بنانا، شریعت اپیلٹ بنچز کا قیام، عالم دین جج پر کاوشیں اسمبلی کے فلور پر پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔
این ٹی ایس، پبلک سروس کمیشن کے ذریعے 73 سالوں میں پہلی بار غریبوں کے بچے میرٹ پر بھرتی ہوئے،13 ویں آئینی ترمیم آزاد کشمیر کو بااختیار، با وسائل بنوانے،کشمیر کونسل کی متوازی حکومت ختم کروانے میں اہم کردار، غیر جریدہ ملازمین کے مسائل کاحل، سرکاری اداروں کے ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق، حلقہ انتخاب کے 400 منصوبوں سمیت آزادکشمیر کے دیگر حلقہ جات کی سکیمیں مکمل کروائیں، سرکاری محکموں میں میرٹ کی بنیاد پر ترقیات کو ممکن بنانا اور سیاسی انتقامی کلچر کے خاتمے کے لئے کوششیں،
تحریک آزادی کشمیر کے لئے نہ صرف کشمیر اسمبلی میں کاوشیں بلکہ دنیا بھر میں کشمیریوں کی نمائندگی کا فریضہ سرانجام دیا۔۔ دنیا بھر میں کشمیر اسمبلی کی منظور شدہ قراردادوں کو پہنچایا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 40 سال بعد متحرک کردار،اداروں میں مالیاتی ڈسپلن کو ممکن بنایا،کروڑوں روپے کی ریکوری کروائی،متاثرین بنگہ ڈیم،اوورسیز کے مسائل کے حل کے لئے کوششیں اور میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں این او سی لازمی قرار کروائی۔
خاتون ایم ایل اے رفعت محمود نے کشمیر میں خواتین کے حقوق اور مسائل کے حل پر خصوصی توجہ دی۔فیملی کورٹس کے قیام،دوردراز علاقوں میں میٹرنیٹی سینٹرز،نوزائیدہ بچوں کے لئے جدید نرسریوں کے قیام کی کوششون کے ساتھ ساتھ خواتین ٹیچرز کے تبادلے و تقرریاں ان کی مقامی یونین کونسل سے باہر نہ کروانے پر قانون سازی،ورکنگ ویمن اور تعلیمی اداروں میں ڈے کئیر سنٹرز کے قیام کی خصوصی کوششیں۔ پاکستان و برطانیہ میں خواتین کانفرسز میں کشمیری خواتین کی نمائندگی،جبکہ ترقیاتی سکیموں کے لئے ملنے والے فنڈز کا دیانت دارانہ استعمال کرتے ہوئے آزادکشمیر میں 250 سکیمیں مکمل کروائیں۔
جماعت اسلامی کے امیدواران
جماعت اسلامی نے آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات 2021ء کے 31امیدوران کی فہرست جاری کردی باقی حلقوں کے امیدوران کا اعلان بعد میں کیا جائے گا
31انتخابی حلقوں کی فہرست میں 26امیدواران آزادکشمیر جبکہ مہاجرین سے 5امیدواران فائنل کردئیے ہیں بقیہ حلقوں کی فہرست بعد میں جاری کی جائے گی،
ایل اے 3میرپور شہرسے ذوالقرنین بٹ
,ایل اے 4میرپور4راجہ الطاف،
ایل اے 5بھمبرمظفر حسین،
ایل اے6پروفیسر فخرالدین احمد،
ایل اے7بھمبر شہرڈاکٹر ریاض مرزا،
ایل اے10کوٹلی شہر عبدالحمید چوہدری،
ایل اے 11سہنسہ راجہ محفوظ،
ایل اے 12چڑہوئی چوہدری غفارت شاہد،
ایل اے13کھوئی رٹہ حبیب الرحمان آفاقی،
ایل اے14غربی باغ راجہ خالد محمود خان،
ایل اے15وسطی باغ عبدالرشید ترابی،
ایل اے16شرقی باغ قاضی سردار ساجد چغتائی،
ایل،ایل اے19ہجیرہ سردار سرفراز اشرف
،ایل اے 20پونچھ 3سردار زاہد رفیق ایڈووکیٹ،
ایل اے21راولاکوٹ شہر سردار عبدالقیوم افسر،
ایل اے 22سردار سجاد انور،
ایل اے 23سدہنوتی سردار ارسلان نثار ایڈووکیٹ،
ایل اے24بلوچ سردار ارشد ندیم ایڈووکیٹ،
ایل اے 25اپر نیلم محمد الطاف،
ایل اے26لوئر نیلم عنایت علی قاسمی،
ایل اے28لچھراٹ راجہ اسد اسلم،
ایل اے29مظفرآباد شہر سید نذیر حسین شاہ،
ایل اے 30ہٹیاں دوپٹہ بشیر اعوان،
ایل اے31کھاوڑہ قاضی شاہد حمید ایڈووکیٹ،
ایل اے 32ہٹیاں ڈاکٹر مشتاق احمد خان،
ایل اے33لیپہ سیدعمادالسلام شاہ ایڈووکیٹ،
جبکہ مہاجرین مقیم پاکستان سے
ایل اے37جموں 4صوفی اقبال
ایل اے 38جموں 5رانا عمر صدیق
ایل اے 40وادی 1محمد سہراب بٹ
ایل اے42ویلی3سعید احمد ایڈووکیٹ،
ایل اے45ویلی 6سے نورالباری جماعت اسلامی کے امیدوار ہوں گے۔
مذید دو حلقوں کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے
ایل اے 8 کوٹلی 1راج محل سے محمود الحسن چودھری جبکہ
ایل اے 18 پونچھ 1 عباس پور سے پروفیسر سردار ذوالفقار احمد
اہل کشمیر کے پاس اس وقت جماعت اسلامی کی صورت دیانت دار امیدواران کا بہترین آپشن موجود ہے،آزمائے ہوئے کھوٹے سکوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ جو رب کا وفا دار نہیں وہ کسی کا وفادار نہیں۔ جماعت اسلامی اپنی شفاف کارکردگی اور دیانتداری کو ترازو کے نشان کے ساتھ لے کر آپ کی دہلیز تک آئی ہے۔
آزادکشمیر کو جماعت اسلامی جیسی نڈر،بیباک،دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے۔ آپ کا ووٹ ایک امانت ہے، اسے اہل امانت کے سپرد کیجئے۔ اپنی نسلوں کے لئے گھر، مال، دولت کا بندوبست تو کرتے ہیں۔ اچھے اور دیانتدار حکمرانوں کے ہاتھوں ملک کی باگ ڈور بھی دیں۔ہماری نئی نسلوں کا مستقبل محفوظ اور مضبوط ہاتھوں میں ہونا چاہیے جو صرف اور صرف ترازو پر مہر لگا کر ہی تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔