نجمہ ثاقب
پنجاب کے دیہی علاقوں میں مراثی ایک قوم نہیں ، ایک معدوم ہوتی تہذیب کا مٹتا ہوا نقش ہیں۔البتہ ضلع سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین کی گوندل بار میں یہ نقش ابھی کسی حد تک تازہ ہے۔ چند سال پہلے تک یہ بنیادی طور پہ بےضرر، معصوم ، کچلے ہوئے لوگ ہاتھ بڑھا کے جام تھامنے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
روز مرہ کی سماجی زندگی میں ان کی حیثیت اور کار کردگی بہت نمایاں تھی۔ شادی بیاہ میں سوہلے گانے کے علاوہ یہ اپنے اپنےچوہدریوں کے حریفوں،حلیفوں میں جوڑ توڑ کے ماہر ایک قسم کے لارنس آف عریبیہ تھے۔ داروں اور چوپالوں میں حقہ پانی کی دستیابی ان کی ذمہ داری۔۔۔۔
موٹے،چوکوراور بھدے پائیوں کی جناتی کھاٹیں اٹھاتے اور بچھاتے۔۔۔۔۔۔۔ حقے شریف کو گھڑی گھڑی تازہ وضو کراتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سارے گاؤں کے مہمانوں کی مٹھی چانپی کرتے ۔۔۔۔۔۔ باراتیں سنبھالتے ۔۔۔۔۔۔ گرمیوں کی لمبی راتوں میں الاؤ میں بےہنگم جھانکڑ جھونکتے ۔۔۔۔۔ اور پیال پہ نیم اونگھتی منڈلیوں کی دل پشوری کو گھٹے نچے ماحول میں بے پر کی چڑیاں اڑاتے۔
پرلے درجے کے چھٹے جملے بولنے میں ماہر ،گل بکاؤلی اور زہر عشق نہ سہی۔ ہیر رانجھا اور سیف الملوک کے میٹھے بول مخصوص لے میں گاتے تھے۔( اب وہ لے بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے)
زبانیں مجاز کی ریل کی طرح
ایک رخش بے عناں کی برق رفتاری کے ساتھ
خندقوں کو پھاندتی،ٹیلوں سے کتراتی ہوئی
فراٹے بھرتے چلی جاتی تھیں۔مجال ہے جو پہیہ ذرا سا بھی رپٹنے پائے۔
میلے گودڑ میں کندھے لپیٹے،چوہدری کی پاپوش سے گرد جھاڑتے ان مراثیوں کو مقامی خاندانوں کے شجرے کھتونیاں نسلوں تک ازبر ہوتی تھیں۔جن میں وہ حسب موقع اور ضرورت ظرافت کے ٹانکے لگاتے جاتے
ٹیلیفون کی آمد سے پہلے موت فوت اور شادی بیاہ کی اطلاعات دور اور قریب کے اعزہ تک پہنچانا انہی کی ذمہ داری تھی۔۔۔۔یہ سنسان راہوں پہ دھول اڑاتے،جنگلی سرکنڈوں اور نوکیلی گھاس سے گٹے چھلواتےپیدل اور مانگے تانگے کی سواریوں پہ لمبی مسافتیں طے کرتے،گاؤں گاؤں اور شہر شہر بندے بنے پھرتے۔
اللہ بخشے ہمارے گاؤں کا نادرا مراثی کہا کرتا تھا۔ہمیں ساری زندگی میں صرف تب ہی بندہ بننا نصیب ہوتا ہے۔جب کوئی اللہ کے حکم سے دنیا سے اٹھ جاتا ہے۔روتی بسورتی سناؤنی لے کر اگلوں کے گھر جاتے ہیں۔ تو سننے والیاں سینہ کوٹ کے دہائی دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہائے ہمارا فلاں گزر گیا ۔ہماری طرف بندہ آیا ہے۔
اسی قبیل کے ایک اور نابغہ،جنہیں اس نسبت سے ماموں کہنے میں بھی چنداں مضائقہ نہیں( کہ ننھیالی گاؤں کاتو کتا بھی ماموں ہوتا ہے۔)۔۔۔۔۔ایسی ہی ایک مہم پہ ریل میں سوار ہوئے۔پوٹلی سیٹ پہ دھری ہی تھی کہ ٹکٹ چیکر آن دھمکا۔۔۔۔۔۔۔۔اب آپ ہی انصاف کیجیے صاحب! کبھی مراثی نے بھی ٹکٹ خریدا ہے؟
مگر یہ رمز مؤا ٹی ٹی کیا جانے؟حضرت نے انہیں یہ کہہ کے ٹالا۔۔۔۔کہ مائی باپ آپ باقی ڈبے کی خبر لیجیے۔میں اتنی دیر میں ذرا سانس درست کر لوں۔ٹی ٹی ساراڈبہ بھگتا کے آگیا۔ تو جناب نے جھپٹ کر پوٹلی سیٹ سے اٹھائی۔لگے ہاتھوں ٹی ٹی کو تھمائی اور ڈنڈا تھام کے تہبند کا لانگڑ اڑستے ہوئے بولا۔
سرکار!آپ اسے سنبھالیے۔میں ٹکٹ نکالتا ہوں۔ادھر ٹی ٹی نے پوٹلی سنبھالی ،ادھر حضرت نے مونہہ ول کعبے شریف اللہ اکبر کہہ کے چلتی گاڑی میں سو رکعت نماز نفل کی نیت باندھ لی۔اب ٹی ٹی کے اندر ہمت ہے تو کرے سو رکعت نماز یک سلام میں ختم ہونے کا انتظار۔
ہمارے بچپن میں ایک مراثن باقاعدگی سے دودھ ،گھی لینے نانی اماں کے پاس آتی تھی۔کچھ عرصہ پہلے اس کی زیارت کا موقعہ ملا۔بدن سوکھے درخت کا ٹھونٹھ بن چکا تھا۔پوپلا مونہہ،اوپر نیچے کے سب دانت ٹوٹے ہوئے،سر پہ بالوں کی جگہ پھونسڑے سے اگ آئے تھے۔مگر آواز کا کرارا پن اول روز کا سا تھا۔
شالا بھاگ لگے رہن۔۔۔۔۔۔۔۔
حسب معمول وہی الفاظ اور خدا جھوٹ نہ بلوائے وہی کنوئیں کی تہہ والا گول برتن۔۔۔۔۔جو موسی کے عصا کی طرح سدا ہاتھ میں رہتا تھا
اللہ دودھ، پتر کی کمی نہ دکھائے۔ذدا اس برتن میں تھوڑا دودھ تو ڈال دو۔کلو برابر دودھ ڈال کر ہٹی تو کہنے لگی۔
بیوی جی۔۔۔۔تھلا تو کج دیتی۔۔(تہہ تو ڈھک دیتی)
بھچک کر برتن میں جھانکا تو واقعی صرف تہہ ڈھکی گئی تھی۔ایسے گہرے برتن کو اٹھائے پھرنے کا کائناتی راز تو اس روز کھلا۔
پچھلے دنوں ایک ادبی حلقے میں گفتگو کے لیے ایک افسانہ پیش کیا تو ایک تبصرہ نگار فرمانے لگے۔۔۔۔یہ آج کے دور کی کہانی ہے ہی نہیں ۔سو اس پہ تبصرہ کیا کرنا”
بادشاہو! کہانی کو مارو گولی۔بات اصل میں اتنی ہے کہ آپ نے منڈی بہاؤالدین اور سرگودھوی گوندل بار کے دیہات دیکھے نہیں۔