ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن
بین الاقوامی لابی شروع دن ہی سے اپنے کاشتہ پودے قادیانیوں کی حفاظت پر کمر بستہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اکثر قادیانیوں کی مظلومیت کاڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ جن مظالم کا وہ تذکرہ کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمان قادیانیوں کو اپنا مردہ دفنانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس الزام کی حقیقت کیا ہے اور ہمارے دین وایمان کے تقاضے کیا ہیں؟ اس حوالے سے چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مدعا بیان کیا ہے۔
1۔ ہم قادیانیوں کو مردہ دفنانے سے کبھی نہیں روکتے، نہ ہی ہماری اعلیٰ اسلامی اخلاقیات اس کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ ہمارے اوپر سراسر الزام ہے اور بہتان تراشی! بلکہ ہم تو ان کافروں کو بھی انسانیت کا درس دیتے ہیں کہ اپنے مردوں کے لیے چند کنال جگہ ہی خرید لیا کرو۔ جنھیں ہم اپنے نبی اور اپنے ملک کا غدار سمجھتے ہیں ہم تو انہیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ اپنے مردے اپنے ہی پاس اپنی ہی زمینوں میں دفن کیا کرو۔ لیکن وہ ایسے ناہنجار، بد اخلاق اور انسانیت سے گرے ہوئے ہیں کہ اپنے مردے ہماری زمینوں اور ہمارے قبرستانوں میں لے آتے ہیں۔
2۔ ایک طرف تو قادیانی اپنا مخصوص ” بہشتی“ مقبرہ بنائے ہوئے ہیں، جس میں دفن ہونے کے لیے، بیس کے قریب احکامات مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی امت کو اپنے وصیت نامے میں لکھ کر دئیے۔ اس ” بہشتی“ مقبرہ میں دفن کے لیے تین بنیادی شرطیں رکھیں، جن میں سے دوسری شرط یہ ہے کہ
” تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے ، اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسبِ ہدایت سلسلہ کے اشاعت اسلام (مرزائی اسلام۔ ناقل) اور تبلیغ احکام قرآن (قادیانی قرآن۔ ناقل) میں خرچ ہوگا۔ اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے لیکن اس سے کم نہیں ہوگا….“
( خلاصہ تحریر: رسالہ الوصیت ، ج 20 صفحات 318 تا 320)
چندہ خوری کے لیے اسی طرح کا ایک مقبرہ پاکستان کے قادیانی مرکز چناب نگر میں بھی ہے۔اس کے علاوہ ایک عام مقبرہ ہے، جو ظاہر ہے غیر سرمایہ داروں کے لیے ہے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ صرف ” بہشتی“ مقبرہ کی سالانہ آمدن میں سے ہی ایک دو فیصد خرچ کریں تو بھی یہ اپنا قبرستان بنا سکتے ہیں، اس کے باوجود ہماری وقف کردہ زمینوں میں ناپاک میتوں کو دفن کرنا محض شرارت نہیں تو اور کیا ہے؟
3 ۔ ہم بحیثیت مسلمان نہ صرف قادیانی بلکہ کسی بھی غیر مسلم کو اپنے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں سمجھتے۔ اس پر عہد نبوی سے آج تک امت کا اجماع چلا آرہا ہے۔
4 ۔ اس لیے کہ ہمارے پیارے رب کریم نے ہمیں غیر مسلموں کی قبروں پر کھڑا ہونے اور دعا کرنے سے قطعی طور پر منع کر دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔“ (التوبہ، 84)
اگر قبرستان مشترکہ ہو تو اس حکم ربانی پر عمل ممکن نہیں رہتا، کیونکہ قبرستان میں داخل ہوتے ہی ہم تمام اہل قبور کے لیے دعا کرتے ہیں، اگر وہیں پر کافر اور خصوصاً قادیانی میت ہو تو وہ بھی عمومی دعا کا حصہ بن جائے گا، جبکہ کافر کے لیے دعائے مغفرت منع ہے۔
5۔ ہمیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسی دینی غیرت دی ہے کہ کافر کو دعا کی بجائے، جہنم کی بشارت سنانے کی تلقین کی ہے۔ (المعجم الکبیر، طبرانی)
6 ۔ خود قادیانی مذہب بھی یہی رویہ رکھتا ہے، وہ خود لکھتے ہیں :
” کیونکہ غیر احمدی جب بلااستثناءکافر ہیں تو ان کے چھ ماہ کے بچے بھی کافر ہوئے اور جب وہ کافر ہوئے تو احمدی قبرستان میں ان کو کیسے دفن کیا جاسکتا ہے۔“
(اخبار پیغام صلح ج24 ، 49 ، مورخہ 3 ، اگست 1936ئ)
7 ۔ یہ ہمارے مسائل تقریبا نصف صدی پہلے پرامن، قانونی وآئینی طریقے سے حل ہوچکے ہیں ، اور طے ہو چکا ہے کہ مسلمان علاحدہ امت ہیں اور قادیانی غیر مسلم ۔
بین الاقوامی طاقتوں کے اشاروں پر ان کو دوبارہ چھیڑنا، شرارتیں کرنا، کہاں کی اخلاقیات ہیں؟
8 ۔ یہ ہمارے تشخص، پہچان اور تاریخ کا بھی مسئلہ ہے۔
امت اسلامیہ ساڑھے چودہ سو سالہ عظیم تاریخ رکھتی ہے اور ہر چیز میں ایک اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اذان، نماز، مسجد ، مینار، کلمہ طیبہ ، اور اس نوعیت کے تمام مظاہر وشعائر ہماری ایک ایمانی، ثقافتی اور تمدنی وتہذیبی پہچان ہیں۔
قادیانی ہم سے علیحدہ ہو چکے ہیں، لیکن ہمارے نوجوانوں میں اشتباہ پیدا کرنے کے لیے ہمارا، نام، ہماری پہچان ناجائز استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس لحاظ سے یہ سوا ارب مسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے، حکومت اور عالمی طاقتوں کو یہ سمجھنا ہوگا۔ تمہارا قانون دو مرلے کی دکان کا ٹریڈ مارک، لوگو، رجسٹرڈ نام کسی دوسرے کو استعمال کی اجازت نہیں دیتا لیکن افسوس کہ سوا ارب مسلمانوں کی شناخت اور تشخص کے مسئلے پر یہ آخر چپ کس لیے؟
9 ۔کیا حکومت انسانی ہمدردی کے تحت ، کسی ہائی سکول کی زمین، یا کسی سرکاری ادارے کے گراو¿نڈ میں دو چار متقی اور صالح مسلمان میتیں دفنانے کی اجازت دے گی؟ اگر یہ مطالبہ کر لیا جائے تو کیا اس میں ذرا بھی معقولیت ہوگی؟ جب حکومت اپنی زمین میں صالح مسلمان میت دفنانے کی اجازت نہیں دیتی تو مسلمان اپنی زمینوں مخصوص محترم قبرستانوں میں کسی کافر کو دفنانے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟
اور وہ بھی دشمن، گستاخ رسول قادیانی کی میت؟
ہاں، جہاں غیر مسلم عیسائی وغیرہ کمزور تھے، بیسیوں ایسی مثالیں ہیں کہ مسلمانوں نے ان کے لیے اپنی گرہ سے علیحدہ جگہ مختص کی۔ یہ ہے اپنے نظریے پر سمجھوتا کیے بغیر انسانی ہمدردی۔
10۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ دنوں ظلم وجبر کی اک نئی داستاں رقم کی گئی ، کورونا میتوں کو خواہ مخواہ عام قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دی گئی؟ چند مسلمان غیور علماءکے علاوہ نہ کسی نے انسانی ہمدردی کا رونا رویا، نہ میت کے وارثوں کے درد بانٹے، محض خود تراشیدہ کرونا پروٹوکولز کی آڑ میں۔
قبرستان کے ایمانی و روحانی، برزخی اور اخروی تناظر میں طے شدہ پروٹوکولز تو، اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے اجماعی تعامل نے طے کر رکھے ہیں، ان پر ہم کبھی سمجھوتا نہیں کرسکتے۔
11۔ ان سب پر مستزاد ہمارا عدل وانصاف بھی دیکھیے، جس طرح ہم کفار کی میت اپنے قبرستان میں دفن نہیں کرتے، ہم اپنی میتیں بھی کبھی کفار کے مقبرہ میں دفن نہیں کرتے۔
اسلام نے ہمیں میت کو تلقین، الوداع، غسل ،کفن اور دفن کے ایسے پروٹوکولز دیے ہیں کہ وہ دنیا میں کسی اور مذہب کے پاس نہیں، ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں اور ان پر دل وجان سے راضی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان واسلام کی سلامتی عطا فرمائے۔ آمین