سید جاوید اقبال بخاری، سیکرٹری جنگلات پنجاب

پاکستان میں گرین سٹرکچر کا فروغ کیسے ہوسکتا ہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سید جاوید اقبال بخاری، سیکرٹری جنگلات پنجاب :

گزشتہ دنوں پاکستان کی میزبانی میں عالمی یوم ماحولیات کی مناسبت سے میگا ورچوئل گالا کا انعقاد ہوا۔ یہ اعزاز اس امر کا اعتراف تھا کہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے مستند کردار ادا کر رہا ہے۔ بلاشبہ یہ اعتراف محکمہ جنگلات اور دیگر متعلقہ محکموں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جس پر میں متعلقہ اداروں اور عوام الناس کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ماحول دوست اقدامات

ان محکموں نے گزشتہ تقریباً ڈھائی، تین سالہ عرصہ میں سرسبز پاکستان کے ویژن کو جس قدر تقویت دی ہے، ماضی میں اتنی سنجیدہ کاوشوں کی مثال نہیں ملتی۔ شجرکاری کے فروغ اور اس کی حفاظت کیلئے محکمہ جنگلات پنجاب نے دن رات ایک کیا ہے۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں لوگوں میں اس ضمن میں آگاہی پھیلائی ہے۔ محکمہ جنگلات نے لوگوں کو مستقبل کے ان چیلنجز سے خبردار کیا ہے جو درختوں کی کمی اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے درپیش آنے والے ہیں۔ گلوبل وارمنگ سمیت گرین اسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے دیگر چیلنجز سے نبٹنے کیلئے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی تناظر میں محکمہ جنگلات پنجاب جہاں مجموعی طور پر 10 ارب درختوں کے ٹارگٹ میں سے اپنے حصے کے ہدف کی جانب گامزن ہے، وہیں انتہائی معمولی قیمت پر عوام الناس میں پودوں کی تقسیم بھی ممکن بنائے ہوئے ہے۔ تمام سرکاری اداروں کو پودوں کی مفت فراہمی کے علاوہ نجی سطح پر بھی درخت کاری پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔

پنجاب میں پہلے مرحلے میں 5 نئے نیشنل پارکس کا قیام اسی پیش رفت کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ درختوں کی حفاظت کیلئے سخت پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ جس کیلئے ترمیمی فاریسٹ ایکٹ کا نفاذ ہر صورت یقینی بنایا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت جہاں ٹمبر مافیا کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، وہیں لکڑی چوری اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف زیرو ٹالیرنس پالیسی بھی اپنائی گئی ہے۔  

ماحول دوست اقدامات کی ضرورت و اہمیت

ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے اور بڑھتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے درختوں کا کردار کلیدی ہے۔ اصولاً کسی بھی ملک کے کل رقبہ کا 25 فیصد رقبہ جنگلات پر محیط ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں جنگلات کا رقبہ صرف 5.1 فیصد ہے، جو کہ کسی صحت مند اور متوازن ماحول کیلئے ناکافی ہے۔ اس میں سے 3.27 فیصد جنگلات پنجاب میں ہیں۔

دوسری جانب بڑھتی آبادی کی وجہ سے گرین سٹرکچر کے مقابلے میں گرے سٹرکچر بڑھتا جا رہا ہے، یعنی عوام کو رہائشی سہولیات کی فراہمی کی وجہ سے جنگلات کا رہا سہا رقبہ اور بچے کھچے درختوں میں بھی مزید کمی آتی جا رہی ہے۔ اس امر کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اک عالمگیر مسئلہ بن چکی ہے، جس سے نہ صرف شہری بلکہ دیہی آبادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ لہذا شجرکاری ہماری بقاء کیلئے ناگزیر ہو چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شجرکاری میں اضافے اور بالخصوص ٹین بلین ٹری پروگرام کے ہدف کی تیز ترین تکمیل کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ یہ عزم ہم سے انفرادی کردار ادا کرنے کا تقاضا کررہا ہے۔محکمہ جنگلات پنجاب اپنے تئیں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور جنگلات کی کمی پر قابو پانے کیلئے تمام تر وسائل اور صلاحیتیں بروئے کار لائے ہوئے ہے۔

بلین ٹری پروگرام کے تحت ہم نے پنجاب میں 46 کروڑ پودوں کا ہدف حاصل کرنا ہے۔ اگرچہ ہم اس ہدف سے زیادہ دور نہیں، لیکن عوام کی شرکت سے ہم یہ ہدف وقت سے پہلے مکمل کرنے کیلئے پُرامید ہیں۔

ہم ماحول کا تحفظ کیسے کرسکتے ہیں؟

اس وقت جہاں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم شجرکاری کے عمل کو زیادہ سے زیادہ ترقی دیتے ہوئے جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کیلئے کاوشیں کریں، وہیں ماحولیاتی آلودگی اور کلائمیٹ چینج سے نبٹنے کیلئے اپنے قرب و جوار کو صاف رکھنے، زرعی سپرے اور زرعی کھادوں کی بجائے آرگینک سپرے اور کھادوں کے استعمال، پٹرول اور ڈیزل کے بلاوجہ استعمال میں کمی لانے، فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے ھل چلا کر زمین کے نامیاتی مواد میں اضافہ کرنے، اطراف میں لگے درختوں اور پودوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال اور پرورش کرنے، انہیں کاٹنے سے بچاتے ہوئے ان کی آبیاری کرنے، اپنے والدین اور بزرگوں کے نام کے پودے لگانے اور جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ یقینی بنانے سمیت بیشتر متعلقہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ 

ہمارا آج کا عمل ہی کل ہماری نسلوں اور ماحول کے تحفظ کا ضامن ہوگا۔ میں اساتذہ سے خصوصی طور پر درخواست کروں گاکہ وہ طلباء کو ماحولیات کے تحفظ اور آلودگی کے خاتمے میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دیں۔ان میں درختوں کی اہمیت و افادیت اور حفاظت حوالے سے آگاہی پیدا کریں۔ یہ ہماری سماجی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے مقابلے اور ٹین بلین ٹری سونامی پروگرام کی تکمیل میں جب تک ساری قوم حصہ نہیں لے گی، منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔

ماحول دوست اقدامات کے فوائد

یاد رکھئے، ہمارے انہی ماحول دوست اقدامات سے موسم کی غیر یقینی تبدیلیاں ختم ہوں گی، آلودگی میں کمی آئے گی، برڈ لائف اور وائلڈ لائف کو تحفظ اور سیاحت کو فروغ ملے گا، یوں ملک لکڑی کی پیداوار میں بھی خود کفیل ہوگا۔ اور اقوام عالم نے اس بابت ہماری جو حوصلہ افزائی کی ہے، ہم اپنی عزت شان کے ساتھ برقرار بھی رکھ پائیں گے۔ 

آئیے، ماحول کے تحفظ اور فطرت کے ساتھ اپنا تعلق بحال کرنے کیلئے محکمہ جنگلات کا ساتھ دیجئے۔ درختوں کی پرورش کر کے اپنے ارد گرد ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے میں اپنے حصے کی شمع جلائیں تاکہ پاکستان ایکو سسٹم کی بحالی کے تناظر میں ایک سرسبز و شاداب ملک کے طور پر پہچانا جائے اور آئندہ سال ہم عالمی یوم ماحولیات مزید فخر کے ساتھ منا رہے ہوں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں