اولاد کے بغیر اداس ایک باپ کے احساسات ، شامی شاعر عمربہائوالدین کی لکھی شاندار عربی نظم کی اردو زبان میں ترجمانی
*اردو ترجمانی* پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن
*پس منظر
* سب بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، بیٹیاں رخصت ہو چکیں، بیٹے اپنے اپنے گھروں میں آباد ہوچکے ہیں، ماں باپ اپنی اولاد سے اداس ہیں اور ایک باپ فریاد کررہا ہے، سنیے۔ وہ کیا کہتا ہے؟
وہ رس گھولتا، شور شرابا کہاں کھو گیا ہے؟
کہاں ہے وہ کھیل کود کے ساتھ ساتھ پڑھنا پڑھانا؟
…………..
بچپن کی شرارتیں اور چالاکیاں کہاں گئیں؟
فرش پر بکھری کتابیں اور گڑیا کہاں ہے؟
…………..
بے مقصد گھومنا پھرنا اور بلاوجہ کی شکایتیں کہاں ہیں؟
ایک ساتھ غم اور خوشی، باہم ہسنا ہنسانا اور رونا رلانا کہاں ہے؟
…………..
کہاں گیا میری گود میں آنے کے لیے مقابلہ ؟
کھاتے پیتے وقت ازراہ محبت میرے ساتھ بیٹھنے کی کوشش کہاں ہے؟
…………..
میری ہم نشینی کے لیے ، اور میری قربت کی خاطر
آتے جاتے، موڑ کاٹتے، وہ دھکم پیل کرتے،
جب بھی ان پر خوف طاری ہوتا،
یا شوق کا غلبہ ہوتا
فطری طور پر وہ میرا ہی رخ کرتے! !
…………..
خوشی میں ان کا ایک ہی نغمہ ہوتا، (بابا)
جب غصے میں دھمکی دیتے تو بھی کہتے، (بابا)
دور سے چیختے چلاتے توپکارتے ( بابا)
قریب سرگوشی کرتے تو بھی کہتے (بابا)
ہاں! کل ہی تو وہ ہمارے گھر کی رونق تھے،
آج، ہائے آج، وہ سب جا چکے ہیں!!
…………..
یہ سکوت کے بوجھ اور خاموشی کے پتھر،
جو ان کے فراق کے بعد میرے گھر میں اترے ہوئے ہیں!
یوں لگتا ہے جیسے کسی غم کے ستائے، تھکے ماندے مریض کو اونگھ آرہی ہو،
…………..
وہ سبھی چلے گئے، ہاں سبھی چلے گئے!
لیکن وہ دور ہیں یا نزدیک بہرحال میرے دل میں بستے ہیں!
میں تو جدھر دیکھتا ہوں، میرا دل جدھر جھانکتا ہے، وہی نظر آتے ہیں،
کبھی وہ سوتے دکھائی دیتے ہیں، کبھی اچھلتے کودتے،
میں اپنے دل ہی دل میں ان کی آنکھ مچولیاں، محسوس کرتا ہوں،
گھر کے صحن میں ان کی بے تکان کھیل کو بھی ویسے ہی محسوس کرتا ہوں،
میں محسوس کررہا ہوں اب بھی کی آنکھوں میں جیت کی چمک،
ہاں میں ان کی شکست کے آنسو بھی محسوس کر رہا ہوں!
…………..
گھر کے ایک ایک کونے میں انہی کے نشان ہیں،
ایک ایک زاویے میں ان کا شور وشغب ہے ،
کھڑکیوں کے ٹوٹے بکھرے شیشوں میں ،
دیواروں میں نقب زدہ سوراخوں میں ،
دروازوں کی شکستہ چٹخنیوں میں،
ان پر بنے نقش ونگار میں،
دروازوں پر لکھی تحریروں میں، لکیروں میں،
صحن میں بچی کھچی کھانے کی کچھ بکھری چیزوں میں،
مٹھائی کے ڈبے میں جس پر وہ ٹوٹ پڑے تھے،
سیب کی ادھ کھائی قاشوں میں،
ہاں اس بچے پانی میں جو انہوں نے بہایا تھا،
میں جدھر دیکھتا ہوں، وہی دکھائی دیتے ہیں،
جو پرندوں کے جھنڈ کی طرح اڑ چکے ہیں،
…………..
مجھے یاد ہے وہ آنسو جسے میں ہمت کرکے اندر ہی اندر اتار گیا تھا،
جبکہ وہ سوار ہوتے، جدا ہوتے ہوئے رو رہے تھے،
لیکن جب وہ چلے گئے، تو میرے پہلو سے دل ساتھ ہی کھینچ کر لے گئے تھے،
…………..
اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو دیکھا،
تو میں جذبات میں بالکل بچہ بن چکا تھا،
اب وہی تھما ہوا آنسو، بارش کی طرح رواں دواں ہے ،
اگر کوئی آدمی روتا تو ملامت گر تعجب کرتے،
اگر میں اس حال میں نہ روؤں تو قابل تعجب ہے ،
بالکل نہیں، ہر آنسو کمزوری کی علامت نہیں ہوتا،
بحیثیت باپ مجھ میں اب بھی مردانہ ہمت ہے
( دعوت عمل ۔
امید ہے شادی شدہ بیٹے، بیٹیاں، اپنے بچوں میں مصروف، رہ کر اپنے والدین کے احساسات کا خیال رکھیں گے. رب ارحمهما كما ربياني صغيرا).