جمال عبد اللہ عثمان، اردو کالم نگار، تجزیہ نگار

”الحمدللہ ! پاکستانی معیشت چل پڑی ہے!“

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جمال عبد اللہ عثمان

بجٹ کی آمد آمد ہے۔ پی ٹی آئی کا چوتھا بجٹ ہوگا۔ وہ اس طرح کہ منی بجٹ بھی اس میں شامل کیا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے بجٹ سے پہلے پوری ایک فضا بنالی ہے۔ وہی جو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی سے زیادہ بہتر اپنا ”منجن“ کوئی نہیں بیچ سکتا۔ وہی منجن اس وقت بڑے پیمانے پر بیچا جارہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان جہاں گفتگو کرتے ہیں، وہ اعدادوشمار پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ماشاء اللہ! ملک چلنا شروع ہوگیا۔ الحمدللہ معیشت چل پڑی ہے۔ وزرا بھی گالم گلوچ سے ہٹ کر اب کارکردگی پر بات کرنے لگے ہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف نے واقعی ایسی کارکردگی دکھادی ہے جس طرح پیش کی جارہی ہے؟

اکانومی ایک مشکل موضوع ہے۔ میں اس کا طالب علم نہیں رہا۔ لیکن اس پر پڑھنا اور سننا ضرور پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ پھر بجٹ کی آمد کے ساتھ اس پر مطالعہ کرنا مجبوری بھی بن جاتی ہے۔ سو گزشتہ کچھ دنوں سے اس پر جتنا پڑھ اور سن سکا ہوں، اس کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

پاکستان تحریک انصاف مسلسل کہہ رہی ہے کہ ہم نے ایکسپورٹس بڑھادی ہیں۔ آپ کو کچھ تفصیل بتاتے ہیں۔ 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، ہماری ایکسپورٹس تقریبا 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تب بھی 25 ارب ڈالر رہیں۔ آخری سال میں 24.8 ارب ڈالر پر آگئیں۔

گزشتہ تین سال سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ گزشتہ سالوں کو چھوڑدیں کہ وہ بدترین رہے، صرف گزشتہ گیارہ ماہ میں اس کی ایکسپورٹس ساڑھے 22 ارب ڈالر رہیں۔ ایک ماہ اس کے پاس ہے۔ اس میں ریکارڈ ٹوٹ جائیں تب بھی ڈھائی ارب ڈالر ہوجائیں گے۔ گویا تیسرے سال اس کی ایکسپورٹس ساڑھے 24 ارب ڈالر ہوں گی۔ ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں 500 ملین ڈالرز کم۔

حالانکہ ایک اہم ترین بات آپ کے گوش گزار کروں۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور میں روپے کی قدر میں تقریبا 40 فیصد کمی آئی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ ہماری ایکسپورٹس کم ازکم بھی 35 ارب ڈالر تک پہنچ جاتیں۔ روپے کی قدر میں کمی کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کو کورونا نے شدید متاثر کیا۔ اس کا فائدہ بھی ہمیں پہنچنا چاہیے تھا کہ خدا کا شکر ہے ہم خطے میں سب ممالک کے مقابلے میں کم متاثر ہوئے ہیں، لیکن وہ فائدہ بھی یہ حکومت نہیں اُٹھاسکی۔

اسی طرح پی ٹی آئی 3.9 فیصد جی ڈی پی گروتھ پر بھی پھولے نہیں سمارہی۔ اگرچہ یہ ابھی پروجیکشن ہی ہے۔ لیکن اسے حقیقت مان بھی لیا جائے، تب بھی پاکستان مسلم لیگ ن اسے آخری سال میں 5.8پر چھوڑکر گئی تھی۔

ایک اور کارنامہ اس وقت گنوایا جارہا ہے اور وہ ہے ترسیلاتِ زر کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین اضافہ ہوا ہے، اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ حکومت کے لیے ایک غیبی مدد سے کم نہیں ہوگا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں حکومت کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں۔ ترسیلاتِ زر میں اضافے کی کئی وجوہات ماہرین بتاتے ہیں۔

ان کے بقول ایک وجہ بیرون ملک پاکستانیوں کے غیرضروری اخراجات میں کمی ہے۔ ان کی سیروتفریح کورونا کے دوران میں تقریبا ختم ہوکر رہ گئی۔ ملک کے اندر بھی ان سمندر پار پاکستانیوں کے سفر انتہائی محدود ہوکر رہ گئے۔ اسی طرح کچھ ممالک نے الاؤنسز دیے۔ جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے فورا یہاں اپنے اہل وعیال کو بھیجے۔ پھر ایف اے ٹی ایف نے جو زبردستی ہم سے قوانین منظور کروائے، ان کی وجہ سے بھی بینکنگ چینلز کے ذریعے رقوم آنا شروع ہوئیں۔

آسان الفاظ میں سمجھنا ہو تو سابق وزیر خزانہ اور مسلم لیگ ن کے راہنما مفتاح اسماعیل کا ترسیلاتِ زر سے متعلق یہ جملہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ترسیلاتِ زرپر حکومت کی خوشیاں منانا ایسا ہے جیسے مرغا صبح کے وقت اذان دے کر کہے کہ صبح میری وجہ سے ہوئی ہے۔

سو موجودہ حکومت اگر اپنی کسی کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے تو یہ بالکل بے جا ہے۔ اگر وہ واقعی سمجھتی ہے کہ ہم نے کچھ تیر مارا ہے تو اسے اپنی حکومت کے ساتھ نہیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ موازنہ پیش کرنا چاہیے۔ سابق ادوار میں معیشت کیا رہی اور اب معیشت کیا ہے؟ یہ موازنہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرجائے گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں