شمائلہ ڈھلوں
اس وقت جہاں مقبولیت کے اعتبار سے ترک سے اردو زبان میں ڈب ہونے والی ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی پہلے نمبر پر ہے، وہیں اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ تین سیزن کے مقابلے میں ’ارطغرل غازی‘ کا چوتھا سیزن ناظرین کی نہ صرف بھرپور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ ریٹنگ کے اعتبار سے بھی اس میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے کی اقساط میں اصلحان خاتون اور ترگت سعادتین کوپیک کی سازش چڑھتے ہیں، انھیں مشروب میں زہر ملا کر دیا جاتا ہے، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اس نوبیاہتا جوڑے کو بچانے کے لئے آرتک کسی حد تک ان کی زندگی سے مایوس دکھائی دیتا ہے کیونکہ علاج تب تک ممکن ہیں جب تک اس چیز کا پتہ نہ چل جائے کہ زہر کس چیز سے تیار کیا گیا ہے۔
عجب بے بسی اور مایوسی کے اس لمحے میں زمیندار ایریس ارطغرل سے ملنے آتا ہے اور اسے زہر بنانے والے کا پتہ بتاتا ہے۔ ارطغرل اپنے سپاہیوں کے ساتھ جب اس غار تک پہنچتا ہے تو زہر بنانے والا سعادتین کوپیک کے وفادار سپاہی کے ہاتھوں مارا جاچکا ہوتا ہے۔ قاتل اس سانپ کے بھی دو ٹکڑے کرکے پھینک دیتا ہے جس کے زہر سے یہ خطرناک زہر تیار کیاگیا تھا لیکن اس کے باوجود آرتک کو یہ بات پتہ چل جاتی ہے کہ زہر کس چیز سے بنایا گیا تھا۔ ترگت اور اصلحان کو زہر دینے کے شبے میں اصلحان کے چچا کو دھرلیا جاتا ہے اور قبل اس کے کہ وہ ارطغرل کے ہاتھوں قتل ہوجاتا آرتک اسے اطلاع دیتا ہے کہ زہر بہادر نے نہیں دیا۔ اصلحان اور ترگت صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب کاراجیسار کی جانب رواں دواں صلیبیوں کا لشکر تاجر نیکو، اسلحہ اور سپاہیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک زبردست منصوبہ بندی کے تحت ارطغرل اس لشکر پر حملہ کرتا ہے اور کامیابی پاتا ہے مگر عین اس وقت جبکہ وہ کارا جیسار کو فتح کرنے کے حوالے سے اپنے محاذوں پر کامیابیاں سمیٹ رہا ہوتا ہے، زمیندار ایریس کا قائی قبیلے میں موجود جاسوس ارطغرل کے بیٹے گندوز کو اڑنے والا گھوڑا دکھانے کے بہانے اغوا کرلیتا ہے اور اس سے یہ بھی جان لیتا ہے کہ ارطغرل کارا جیسار پر حملہ کرنے کی غرض سے نکلا ہے، وہ یہ اطلاع فوراً زمیندار کو پہنچاتا ہے۔ ادھر قائی قبیلے میں گندوز کے اغوا کی خبر سے شدید بے چینی پھیل جاتی ہے۔ ہر کوئی گندوز کو ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔
ارطغرل کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد بہادر چاودار قبیلے میں انتقامی جذبے کے تحت منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ ارطغرل کا وفادار سپاہی جرگہ ان کی جاسوسی کررہا ہوتا ہے کہ بہادر کے سپاہی کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے، اور بہادر کے ہاتھوں شہید ہوجاتا ہے۔
بلاشبہ! ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی میں اس قدر ربط ہے کہ دیکھنے والوں کو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا اور ڈرامہ ختم ہوجاتا ہے۔ ہفتے میں پانچ دن روزانہ رات کو ٹیلی کاسٹ ہونے کے باوجود تشنگی اضطراب میں بدل جاتی ہے کہ آگے ڈرامہ میں کیا ہونے والا ہے؟
جس نے بھی ’ارطغرل غازی‘ ڈرامے کی ایک بھی قسط دیکھی، وہ اس کے سحر سے نہیں نکل پایا۔ ڈرامہ میں جہاں اچھے مناظر اور بہترین ہدایت کاری لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، وہی گاہے بگاہے ڈرامے کے مناظر میں ہونے والی نعرہ بازی ناظرین کو کوفت اور بے زاری میں مبتلا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ نعروں کی طوالت سماعت پر شدید گراں گزرتی ہے جنھیں ایڈیٹ کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے آر وائی سے نشر ہونے والی اردو ڈرامہ سیریل ’اولاد‘ مقبولیت کے اعتبار سے اس وقت اول درجے کے ڈراموں میں شمار ہورہا ہے۔ معاشرتی رویوں اور اولاد کی بے حسی پر مبنی یہ ڈرامہ سیریل سچے رویوں کی عکاس ہے۔ والدین زندگی بھر تکلیفوں اور پریشانیوں کو برداشت کرتے ہیں تاکہ ان کی اولاد زندگی کے سارے سکھ پاسکے مگر اس کے باوجود جب اولاد بڑی ہوتی ہے تو والدین کی ساری تکالیف کو پس پشت ڈال کر اسے ان کا فرض اور اپنا حق کہہ کر اپے فرائض سے غافل ہوجاتی ہے۔ ایسے وقت میں بیٹیاں والدین کی پریشانیوں پر آنسو بہاتی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جہاں ایک طرف بیٹیاں والدین کی تکالیف پر پریشان ہوتی ہیں، انھیں دلاسہ اور تسلی دیتی ہیں تو دوسری طرف ویسی ہی بیٹیاں بہو کے روپ میں انہی بزرگوں کے خلاف اپنے شوہروں کو الٹی سیدھی پٹیاں پڑھانے میں دن رات مشغول ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کے وہ غلط رویے ہیں جن کی اصلاح بہرحال ہم لوگ خود ہی کرسکتے ہیں۔ جب تک ہم اپنی بیٹیوں کو یہ احساس نہیں دلائیں گے کہ شوہر کے والدین بھی اسی قدر اہمیت کے قابل ہیں جس قدر ان کے اپنے، تب تک والدین کے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناہمواریوں سے نمٹنا ممکن نہیں۔