ایک بیٹے کی سچی کہانی جس نے ماں کو ملازمہ قرار دیدیا تھا
شمائلہ ڈھلوں :
ہر ماہ کی آج بھی وہ ہمارے دروازے کے باہر بیٹھی تھی۔ امی کو اس کے آنے پر سخت اعتراض ہوتا تھا۔ بڑی عمر کی یہ گوری چٹی عورت بہت پیاری اور موہنی صورت والی تھی جو دیکھنے میں کسی بھی لحاظ سے مانگنے والی نہیں لگتی تھی۔ مگر اس کے باوجود ہر ماہ کی پہلی تاریخوں میں وہ ضرور ہمارے گھر آتی۔
امی ہر مہینے اسے ایک مخصوص رقم تو دیتیں مگر انھیں اس کا آنا کبھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ مگر میرے دل میں اماں کے لئے ہمدردی ضرور رہتی۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ کس بات نے اماں کو اس بھلے چنگے حلیے کے باوجود مانگنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ پھر ایک دن میں نے امی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب کی بار اماں مانگنے آئی تو اس سے پوچھنا ہے کہ آخر وہ کیونکر مانگتی ہے۔
مجھے اماں کا انتظار رہنے لگا۔ مہینے کی اوائل تاریخوں میں آخر ایک دن اماں آگئی۔ یہ گرمیوں کا ایک سخت دن تھا۔ اس بار اماں کو باہر سے نہیں بھیجا گیا بلکہ میں اسے اندر لے آئی۔ ٹھنڈا شربت پلایا۔ اماں اس اچانک تبدیلی پر شاید حیران ہوئی ہو مگر اس نے اظہار نہیں کیا۔ بلکہ حسب روایت بہت سی دعائیں دیں۔ اس بار امی نے اماں جی سے پوچھا:
”آپ دیکھنے میں اچھے گھر کی معلوم ہوتی ہیں، مانگتی کیوں ہیں؟“
اماں کچھ یوں گویا ہوئیں:
”میرا تعلق ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔ میرا شوہر لکڑی کا کام کرتا، اس سے ہماری گزر اچھی خاصی ہو جاتی، میرا ایک ہی بیٹا تھا، پڑھنے میں بہت اچھا تھا، گاؤں کے سکول میں جاتا۔ زندگی بڑی اچھی گزر رہی تھی۔ نہ کوئی دکھ تھا نہ تکلیف۔
پھر ایک دن میرے شوہر کو دل کا دورہ پڑا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ یہ صدمہ اس قدر بڑا تھا کہ لگتا تھا کہ آسماں سر پر گر گیا ہو۔ نہ کچھ دکھائی دیتا اور نہ کچھ سجھائی۔ میرا واحد سہارا اور کفیل میرا شوہر تھا اور وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔گھر میں فاقے ہونے لگے۔ تب ہی میں گاؤں کے نمبردار سے ملی۔ اس نے سال بھر کے لئے گندم کا وعدہ کیا۔ گاؤں کے چند بااثر گھرانوں نے میری مدد کرنا شروع کردی اور اس طرح گھر کا نظام چلنے لگا۔
بیٹا گاؤں کے سکول سے نکل کر شہر کے سکول میں جانے کے قابل ہوا تو خرچہ بڑھنے لگا۔ میں شہر کے کچھ گھروں سے مدد لینے لگی۔کیا کرتی، نہ پڑھی لکھی تھی اور نہ ہی کوئی ہنر جانتی تھی۔شہر کے جن گھروں سے میں مدد لیتی، یہ سب لوگ میری داستان جانتے تھے۔ لہذا سب نے میرے اخراجات بانٹ رکھے تھے۔ کوئی میرے بیٹے کی فیس ادا کرتا، تو کوئی اس کی کتابوں کا خرچہ اٹھائے ہوئے تھا۔ میرا بیٹا بہت لائق تھا۔ایف ایس سی میں اس نے اتنے نمبر لئے کہ اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا۔تب مجھے لگا کہ مشکلوں کا دور گزر گیا۔اب آگے کی منزلیں آسان ہوجائیں گی مگر میری مشکلوں کے اختتام کا وقت ابھی نہیں ہوا تھا۔
لوگوں نے اس وقت بھی میرا بہت ساتھ دیا جب بیٹا چھوٹا تھا اور اس وقت بھی اس ساتھ میں کمی نہ آئی جب وہ میڈیکل کی مہنگی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔اس بات کا ادراک بیٹے کو بھی تھا۔ اسے احساس تھا کہ اس کی ماں اس کی خاطر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے۔ چار سال تک وہ باقاعدگی سے گھر آتا رہا مگر جیسے ہی اس کی ہاؤس جاب شروع ہوئی۔اس کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔
وہ گھر میں کم کم آنے لگا اور پھر یوں ہوا کہ رابطہ بالکل ہی کٹ گیا۔ میں مصیبتوں کی ماری پریشان حال عورت گھبرا گئی کہ اللہ خیر کرے، کس چیز نے میرے بیٹے کو گھر آنے اور مجھ سے ملنے سے روک دیا۔ میں نے اپنے جاننے والے کئی لوگوں کو بیٹے سے متعلق معلوم کرنے کو کہا۔
ایک دن ایک شخص نے اطلاع دی کہ اماں! تمھارے بیٹے نے شادی کرلی ہے۔ میری رہائش سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے ایک نواحی گاؤں میں تھی جبکہ بیٹا فیصل آباد رہائش پذیر تھا۔ اتنی بڑی بات مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی۔میرا بیٹا مجھے بتائے بغیر ایسا کیسے کرسکتا تھا۔جب مصیبتوں کے ختم ہونے کا وقت آیا تو کیا میرے بیٹے نے مجھے ایک بار پھر تنہا چھوڑ دیا؟ مجھے کسی طور پر بھی اس بات کا یقین نہیں آرہا تھا۔
میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں خود فیصل آباد جا کر ساری صورت حال کا جائزہ لوں گی۔ صبح ہوئی اور میں فیصل آباد جانے والی بس میں بیٹھ گئی۔ فیصل آباد پہنچی اور تھوڑی کوشش اور تلاش کے بعد میں بیٹے کے ایڈریس پر پہنچ گئی۔ پتہ چلا کہ وہ یہاں نہیں رہتا مگر جہاں وہ رہتا تھا، وہاں کا پتہ مجھے مل گیا۔ میں وہاں پہنچی، گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے مجھے روکا تو میں نے بتایا کہ میں تمھارے صاحب کی ماں ہوں۔ وہ باعزت طریقے سے مجھے اندر لے گیا۔ مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک پیاری سی لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اس نے میرے ساتھ بڑے اچھے طریقے سے سلام دعا کی۔پھر بولی:
”آپ ارسلان کی کیا لگتی ہیں؟“
میں بولی کہ میں اس کی ماں ہوں۔
وہ لہجے میں حیرت لئے بولی:
”ماں“ مگر ارسلان کے والدین تو فوت ہوچکے ہیں، مجھے ایک دھچکا لگا۔
”بیٹا! آپ کون ہو؟“ میں نے کچھ جھجھکتے ہوئے لڑکی سے پوچھا:
”میرا نام ڈاکٹر نادیہ ہے اور میں ارسلان کی بیوی ہوں۔“
مجھے لگا جیسے میرے سر پر دھڑام سے چھت آن گری ہو۔ میں گم صم اس ڈاکٹرنی کی شکل دیکھنے لگی۔مطلب مجھے ملنے والی اطلاعات غلط نہ تھیں۔بہرحال اس نے مجھے ارسلان کے آنے تک کا انتظار کا کہا اور خود کمرے سے چلی گئی۔
یہ لگ بھگ شام پانچ بجے کا وقت تھا جب کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر اسی ڈاکٹرنی کے ساتھ میرا بیٹا بھی داخل ہوا۔میں اسے دیکھ کر کھل اٹھی مگر اس کا رویہ خاصا روکھا پھیکا تھا۔ وہ رسماً مجھ سے ملا۔اتنے عرصے بعد ملنے پر تو اس کے رویے میں والہانہ پن ہونا چاہیے تھا مگر ایسا کچھ نہ تھا، وہ ناگواری اور اکتاہٹ کے ملے جلے تاثرات لئے ہوئے تھا۔ میں اس کے رویے کے اتار چڑھاؤ کو ہی دیکھ رہی تھی کہ اس کی بیوی کے سوال پر میں چونکی:
”ارسلان! تمہارے والدین تو مر چکے مگر یہ اماں کہہ رہی ہیں کہ میں تمھاری ماں ہوں؟“ میرے بیٹے نے جواب دیا:”یہ ہماری ملازمہ ہیں، انھوں نے مجھے پالاہوا ہے، اس لئے ایسا کہہ رہی ہیں۔“میرے بیٹے کے جواب نے مجھے جیتے جی مار دیا، وہ ساری عمر کی میری ریاضتوں کو کیسے بھول گیا۔ اک آہ میرے دل سے نکلی کہ یا اللہ! یہ کیسا امتحان ہے، یہ کیسی آزمائش ہے کہ جس بیٹے کے لئے ساری زندگی گزار دی اس نے مجھے تپتے ریگستاں میں ننگے پاؤں ننگے سر چھوڑ دیا۔
میں اس کا جواب سن کر سُن ہوچکی تھی۔ اسے ایسا کہنا ہی تھا تو اپنی بیوی کو انگریزی میں کہہ دیتا، اس کا بھی بھلا ہوجاتا اور میرا مان بھی نہ ٹوٹتا۔ وہ مزید کچھ کہے سنے بغیر کھڑا ہوا، جاتے جاتے ملازم کو آواز لگائی اور کہنے لگا:
”اماں جی کی خدمت میں کوئی کمی نہ رہے، مجھے فی الحال ہسپتال جانا ہے، واپسی پر ملاقات ہوگی۔“
وہ یہ کہہ کے کمرے سے نکل گیا۔ ملازم میرے لئے کھانا لے آیا مگر نوالہ میرے حلق سے کیسے اترتا۔ میں نے واپسی کی راہ لی۔ میری بہو نے مجھے روکا کہ آپ رہیں مگر کیسے رہتی وہاں جہاں میرا سگا بیٹا میرا تعارف اپنی بیوی سے ایک نوکرانی کی حیثیت سے کروا رہا تھا۔ کاش! زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتی۔ میں گاؤں واپس آگئی، جس نے بھی سنا ملال کیا۔
مجھے گاؤں آئے ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایک دن اطلاع ملی کہ میرا بیٹا سڑک کے حادثے میں انتقال کرگیا ہے۔ یہ اس سے بھی بھیانک خبر تھی۔ وہ جو رویہ میرے ساتھ اپنا چکا تھا اس کے بدلے میں ، میں نے کبھی ایسا تو نہ چاہا تھا۔ ساری عمر کی جمع پونجی میرا بیٹا تھا جسے میں گنوا چکی تھی مگر ایسے گنوا دوں گی کبھی سوچا نہ تھا۔
پہلے ایک گماں تھا کہ ملے نہ ملے مگر دنیا میں میرا کوئی تو ہے مگر ارسلان کے مرجانے سے یہ گمان بھی جاتا رہا۔ ساری عمر بدنصیبی نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ اپنی بدنصیبی کو ساتھ لگائے میں آج بھی در در مانگنے پر مجبور ہوں۔ اماں اپنی کہانی سنا کر خاموش ہوگئی۔ آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے اور میرے پاس دلاسہ دینے کے بھی الفاظ نہ تھے۔
میری والدہ اماں جی کو دلاسہ دینے لگیں۔ وقت بعض اوقات ایسے گھاؤ دے جاتا ہے کہ کسی کی تسلی کسی کا دلاسہ کام نہیں آتا۔ کاش! اولاد والدین کی محبت کا اصل حق ادا کرسکے، انھیں وہ مقام دے پائے جن کے وہ حق دار ہیں تاکہ کوئی ماں کوئی باپ دکھی نہ ہو۔ کسی والدین کی آہ عرش کو ہلانے کا باعث نہ بنے۔