پاکستانی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے، مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کے مقتدر حلقوں سے براہ راست رابطے ہوئے ہیں۔ اس بات کا انکشاف معروف صحافی اور تجزیہ نگار سید طلعت حسین نے اپنے ویڈیو لاگ میں کیا ہے۔ انھوں نے مقتدر حلقوں کے نمائندگان کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ میاں شہباز شریف اب براہ راست ان سے رابطے میں ہیں۔ سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ رابطے پہلے بالواسطہ انداز میں ہوتے تھے، اب براہ راست ہوگئے ہیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری اب ایک ہی صفحہ پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
میاں نواز شریف ایک عرصہ سے جو بیانیہ لے کر چل رہے تھے، مقتدرحلقوں کے نمائندوں کے مطابق ، وہ بیانیہ اب تبدیل ہوگیا ہے۔ صورت حال کو سمجھنے کے لئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کے بیان کو یاد رکھنا از حد ضروری ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں کوئی دھڑا نہیں ہے، شہباز شریف پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں اور نواز شریف سپریم لیڈر ہیں۔ دونوں فیصلے کرتے ہیں لیکن نوازشریف کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
مقتدر حلقوں کی طرف سے آنے والی ان اطلاعات کے بعد معاملات طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ابتدائی ملاقاتوں کا ذکر کیا گیا، یہ نہیں بتایا گیا کہ ملاقاتیں براہ راست ہوئی ہیں یا واٹس ایپ پر بات چیت چل رہی ہے یا پھر کوئی فرد درمیان میں ہے تاہم ان ذرائع کی طرف سے براہ راست کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ اگر شاہد خاقان عباسی کے بیان کی روشنی میں معاملات کو دیکھا جائے تو مقتدرحلقوں سے یہ رابطے میاں محمد نواز شریف کی آشیرباد سے ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی انہونی نہیں ہے، کیونکہ شہباز شریف شروع دن سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلنا ہے ، ورنہ اگلے انتخابات میں ہمارے ساتھ بہت برا ہوگا۔ اگر ایک اور قومی حکومت نما تجربہ ہوگیا تو ہماری سیاست ختم ہوجائے گی۔
اسٹیبلشمنٹ اور میاں شہباز شریف کے یہ براہ راست رابطے برف پگھلنے جیسے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ دونوں اطراف سے جو مسائل تھے، انھیں دور کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔اسٹیبلشمنٹ ، میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف متفق ہوچکے ہیں کہ اب افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات کو طے کرنا ہے۔ اگر یہ معاملات طے پا گئے تو پاکستان مسلم لیگ ن پر اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کا تاثر آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا۔
یہ رابطے کیوں اہم ہیں؟
نواز شریف کا عام بیانیہ رہا ہے کہ ہم چور دروازے سےمعاملات طے نہیں کریں گے ، ہم جو کام بھی کریں گے، بزور بازو اور ووٹ کی طاقت سے کریں گے۔ تاہم یہ رابطے نواز شریف کے بیانیے سے مختلف ہیں۔ نواز شریف درجنوں بار اپنے ساتھیوں کو سختی سے تنبیہ کرچکے ہیں کہ وہ اسٹیلشمنٹ کے نمائندوں سے رابطے نہ رکھیں۔ جب مسلم لیگی رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آرمی چیف سے میٹنگ ہوئی تو پھر وضاحتیں بھی جاری ہوئیں، اس کے بعد میاں محمد نواز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ آئیندہ ہماری اجازت کے بغیر کوئی ایسی میٹنگز میں شریک نہیں ہوگا۔
گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ کوئی ٹیلی فون کال بھی نہیں سنی جائے گی۔ اس کے بعد جب بھی کوئی فون کال آتی تھی تو میاں نواز شریف کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ فلاں بندہ فلاں معاملے کے لئے ہم سے بات کرنا چاہ رہا ہے۔ اور اجازت طلب کی جاتی تھی کہ ہم اس فون کال کا جواب دیں یا نہیں۔ ان دنوں میاں نواز شریف کے لوگوں سے رابطے کرنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے جاتے تھے، نتیجتا شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کے ذریعے یہ رابطے کیے جاتے تھے۔
اس وقت نواز شریف مصر تھے کہ کسی نے ہم سے بات کرنی ہے تو جاتی امرا آئے اور ملاقات کرے۔ دوسری طرف سے کہا جاتا تھا کہ وہ جاتی امرا نہیں جائیں گے اور نہ ہی کسی خفیہ جگہ پر ملیں گے۔ نواز شریف یہ بھی ضمانت طلب کرتے تھے ، اگر یہ ملاقاتیں ہوں گی تو ان کی خبر لیک نہیں ہوگی، دوسری طرف سے کہا جاتا تھا کہ یہ لیکیج ہماری طرف سے نہیں ، آپ کی طرف سے ہوتی ہے۔
اس تناظر میں میاں شہباز شریف کے اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست رابطوں کی خبریں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں اپنے بڑے بھائی کے پائوں پکڑ لوں گا ، ان کا بیانیہ تبدیل کرانے کی کوشش کروں گا، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ اب براہ راست رابطے ہوچکے ہیں اور یہ نواز شریف کی آشیرباد سے ہی ہوئے ہوں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ شہباز شریف نواز شریف کی مخالفت کے باوجود اس قدر بڑے قدم اٹھائیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ اب نئے حقائق سے ایڈجسٹ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ مسلم لیگ ن پاکستان پیپلزپارٹی پر تنقید کرتی تھی کہ وہ پی ڈی ایم میں رہتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے رکھتی تھی، اس پر ن لیگ بہت باتیں کرتی تھی اور مولانا فضل الرحمن بھی غضب ناک ہوتے تھے ، جبکہ اب جب اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست رابطوں کی خبریں آرہی ہیں، مسلم لیگ ن اب پیپلز پارٹی پر اعتراضات نہیں کرے گی۔ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ان رابطوں کی تفصیل بھی سامنے آجائے کہ یہ کس قسم کے رابطے تھے اور ان میں کیا کچھ زیربحث آیا۔
سید طلعت حسین کا تجزیہ ہے کہ ن لیگ آنے والے چند مہینوں کو بہت اہم سمجھتی ہے۔ اس نے کسی نہ کسی انداز میں یہ مہینے گزارنے ہیں، انتخابات کا جب ماحول بنے گا تو ممکن ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے پرانے بیانیے پر واپس چلی جائے لیکن فی الحال وقت بہت سخت ہے ، موقع بھی بنتا نظر آ رہا ہے، ایسے میں مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ اس سے متعلق اسٹیبلشمنٹ کے اندر جو بدظنی پھیلی ہوئی ، اگر شہباز شریف کے ذریعے اسے زائل کردیا جائے ، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کے مخالف لوگ مثلا خواجہ آصف جیل میں بند ہین، اب ان کا کہیں ذکر ہی نہیں ہوتا ۔اب ن لیگ کے بعض لوگ سوچیں گے کہ کہیں ایسا تو نہیں ، ان روابط کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے لئے سہولت حاصل کر رہی ہو ؟ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جب ان روابط کی ذریعے عمران خان حکومت کو مستحکم کرلیا جائے تو یہ رابطے ختم کردیے جائیں ، کیا یہ روابط مسلم لیگ کے مفاد میں نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان روابط کے ذریعے اپوزیشن کا دبائو ختم کردیا جائے اور عمران خان کے لئے باقی دو برسوں کا راستہ آسان کردیا جائے۔