محمد بلال اکرم کشمیری
اللہ رب العزت نے کشمیر جنت نظیر کو جہاں عظیم نعمتوں سے نوازا وہاں اس کی کوک سے بہادر،نڈر اور عظیم شخصیات بھی پیدا ہوئیں۔ مظفر آباد سے تقریباً 45 کلومیٹر دور چکار سلمیہ ایک تاریخی حیثت کا حامل گاؤں ہے ،جہاں جید علما ءکے ساتھ ساتھ قد آورسیاست دان بھی پیدا ہو ئے ۔آزاد کشمیر میں یہ گاؤں خاصی اہمیت کا حامل ہے ،اس کے بالکل قریب جہاں ایک جانب سیاحتی مقام سدھن گلی واقع ہے وہاں ہی بلند ترین چوٹی گنگا چوٹی بھی سیاحوں کے لیے دلچسپی کا مرکز ہے ۔2005 کے زلزلے میں بننے والی قدرتی جھیل بھی سلمیہ میں واقع ہے جو مقامی لوگوں کے لیے آج بھی جائے عبرت ہے ۔
وزیر اعظم جناب راجہ فاروق حیدر خان صاحب کی ولادت بھی گاؤں چکار سلمیہ کی ہے ۔جہاں انہیں سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ دینی ماحول بھی میسر آیا ۔ آزاد کشمیر کے مفتی اعظم جناب نذیر حسین صاحب رحمۃ اللہ کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا جن کا شمار مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے مدرسین میں بھی ہوتا ہے ۔علاوہ ازیں مولانا قاری غلام ربانی رحمۃ اللہ جیسے بلند پایہ عالم دین کا تعلق بھی سلمیہ سے تھا جنہوں نے جوہر آباد ضلع خوشاب میں دین کے طلبگاروں کی پیاس بجھائی ،اسی طرح پاکستان کی عظیم اور بین الاقوامی شہرت یافتہ درسگاہ جامعہ اشرفیہ کے رجسٹرار اور شیخ الحدیث ،اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے ممبر حضرت مولانا محمد اکرم کشمیری کا تعلق بھی اسی گاؤں سے ہے ۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اکابرین کی ایک کثیر جماعت کا تعلق اسی گاؤں سے ہےجہاں وہ نہ صرف دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں بلکہ کشمیر کا نام بھی روشن کرر ہے ہیں۔
راجہ فاروق حیدر خان کے والد جناب حیدر خان صاحب مرحوم ایک جرات مند سیاست دان تھے۔معروف کالم نگار سردار عبدالخالق وصی کے مطابق ہر غلط بات کیخلاف ڈٹ جانا اور کمزور کا ساتھ دینا حیدر خان کی شخصیت کا خاصہ تھا آپ دوران ملازمت ایک ایمانتدار اورفرض شناس آفیسر تھے، روکھی سوکھی کھا کر گذارا کرلیتے لیکن کبھی بھی اپنے دامن پر داغ نہ لگنے دیا۔ 1947 میں آپ نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا ، مظفر آباد ڈویژن اور پونچھ میں تحریک آزادی کو منظم کیا اور قبائلی مسلمانوں کو ساتھ ملا کرمظفر آباد ڈویژن اور پونچھ کے بہت سے علاقے ڈوگرہ فوج سے خالی کروائے .آپ دو مرتبہ مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اور آپ کی ہی قیادت میں 1958 میں کشمیر لبریشن مومنٹ کا آغازہوا جس نے حکومتی اایوانوں پر لرزا طاری کر دیا اور نتیجے کے طور پر آپ سمیت چوہدری غلام عباس ،کے ایچ خورشید ،سردار عبدالقیوم خان ،غازی الہیٰ بخش سمیت چیدہ چیدہ مسلم کانفرنسی شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا اور مسلسل چھے ماہ تک آپکو زیر حراست رکھا گیا۔1961 میں مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر جب پاکستان میں ایوب خان کی حکومت تھی اور کسی میں بھی فوجی آمر پر تنقیدکرنے کی ہمت نہ تھی آپ نے پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئےاجلا س سے خطاب میں جنرل ایوب کو ’’کاغذی فیلڈ مارشل ‘‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے اور پاکستانی عوام کو اپنے نمائندوں کے انتخاب کا حق ملنا چاہیے۔ آپ کے چچا زاد بھائی راجہ لطیف خان مرحوم بھی اپنے مرحوم بھائی کے نقش قدم پر استقامت کیساتھ کھڑے رہے ۔1985 میں انہوں نے ہی راجہ فاروق حیدر خان کو مسلم کانفرنس کا ٹکٹ لے کر دیا اورقانون ساز اسمبلی کیلئے الیکشن لڑوایا ،راجہ فاروق حیدر خان دو بار آزاد کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہوئے پہلی بار 22 اکتوبر2009 سے 29 جولائی 2010 تک جب کہ دوسری بار 2016 کے الیکشن میں کامیاب ہوئے۔
راجہ فاروق حیدر خان نے ہمیشہ کشمیر کی بات کی ،اپنی عوام کا بہترین انداز سے مقدمہ لڑا ،اپنی عوام کو دینی تربیت کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور بھی عطا کیا ،سادگی کے ساتھ ساتھ جرات ان کا خاص وصف ہے ،یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پاکستان کی جانب سے نافذ کردہ ان پالیسوں پر بھی سخت تنقید کی جو کشمیری عوام کے حق میں بہتر نہیں تھیں۔
علما ءخاندان اور راجگان کے درمیان دیرینہ تعلق کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ راجہ فاروق حیدر خان کو ہمیشہ ان کے آبائی گاؤں سے کامیابی ملی،اور یہی وجہ تھی کہ راجہ فاروق حیدر خان نے کرونا کے دوران نہ صرف مسجدیں آباد رکھنے کے احکامات جاری کیے بلکہ خود بھی مساجد میں جا کر بیانات کرکے عوام کی رہنمائی کی۔یہ اسی خاندانی تعلق کا اثر تھا کہ جب کشمیر میں ختم نبوت تحریک چلی تو راجہ فاروق حیدر خان نے اس سلسلے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیااور قادیانیوں کے خلاف 7 فروری 2018 میں آزاد کشمیر پارلیمنٹ سے بل منظور کروایا۔اصل میں یہ سب اس تعلق اور اسی خاندان کا اثر تھا جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے وہاں آباد چلا آرہا ہے ۔
راقم الحرف کی راجہ فاروق حیدر خان صاحب سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں ،جس میں میں نے انہیں ہمیشہ سادہ طبیعت ،مہمان نواز اور ایک ملن ساز شخصیت کے طور پر پایا۔یہ دو عظیم خاندان آج بھی سر زمین سلمیہ پر آباد اور شاد ہیں ،سلمیہ میں آباد راجگان سے ہوسکتا ہے بعض برادریوں کا سیاسی اختلاف ہو مگر یہاں آباد علما ء خاندان سے آج بھی ہر کوئی رہنمائی لیتا ہے اور ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔اگر کسی نے سیاست اور مذہب کا حسین امتزاج دیکھنا ہو تو وہ سلمیہ ضرور دیکھے ۔