عثمان گل
ہم پرویز خٹک کو ڈھیلا وزیراعلی سمجھتے تھے لیکن موجودہ وزیر اعلی کے پی کے نے تو ریکارڈ توڑ دیئے ہیں سستی کے۔
پشاور میٹرو پر کام چیونٹیوں کے کسی قبیلے کو دیا ہوا ہے۔ اب بھی کچھ جگہوں پر کھدائی رہتی ہے۔ pillars لگ گئے ہیں تو beams نہیں ڈالے جا رہے۔ جہاں وہ ڈال دیئے ہیں تو نیچے موجود روڈ اسی طرح ٹوٹی پھوٹی چھوڑ دی گئی ہے۔
کارکردگی اور پلاننگ کی انتہا تو یہ ہے کہ جہاں سائیڈ پر موجود روڈ ڈال بھی دی گئی ہے تو ہر چار قدم پر بیچ میں نالے کے اوپر سیمنٹ کے ڈھکنے کو اتنی خوبصورتی سے سائز سے بڑا بنایا گیا ہے کہ وہ کسی بھی گٹر پر فٹ نہیں بیٹھا۔ نتیجہ یہ کہ گاڑیاں اس سے خود کو بچانے کے چکر میں یا تو سست ہوتی ہیں یا اس پر سے گزر کر اپنا بمپر اور شاک خراب کرواتی ہیں۔
ٹریفک کنٹرول کرنے کا نا کوئی پلان ہے نا کوشش۔ جس کا جدھر منہ ہے چلائے جا رہا ہے۔
ناجائز تجاوزات نے فٹ پاتھ کیا سڑکوں پر بھی ایسے قبضہ کیا ہوا ہے کہ ایسے حالات میں جب میٹرو کے کام نے پورے پشاور کو ہیروشیما و ناگاساکی بنایا ہوا، مجال ہے جو کوئی دکان دار خود ہی پیچھے اپنی حدود میں رہے۔ پیدل گزرنے والے کو تکلیف۔ گاڑی چلانے والے کو تکلیف۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ( اخباری رپورٹ) پشاور میں 65000 رکشہ موجود ہیں جس میں سے لگ بھگ 35000 غیر قانونی بنا پرمٹ کے چلتے ہیں۔ اکثر پولیس والوں کے اپنے رکشے ہیں جس کی وجہ سے تمام ٹریفک پولیس نے یا تو آنکھیں بند کی ہوئی ہیں یا پیٹی بند بھائی کی خاطر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک عذاب ہے جو میٹرو کی شکل میں پشاور پر نازل ہوا ہے۔ نا بنا کر ختم کر رہے نا شہریوں کو متبادل روٹس پر سہولت دے رہے۔ رہے صاحب لوگ تو انکا کیا ہے۔ 4*4 VIGO گاڑی میں تو ویسے بھی جھٹکا لگتا کدھر ہے۔ اور آگے ہوٹر بجاتی پولیس کی گاڑی ویسے بھی راستہ کلئیر کروا جاتی ہے۔
وہ سب بھی چھوڑیں۔ ڈبگری گارڈن پرائویٹ ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور لیبارٹریوں کا مرکز ہے۔ اس علاقہ نے ان مریضوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے جنکو یا تو پرائویٹ ڈاکٹروں سے لٹنے کا شوق ہوتا ہے یا سرکاری ہسپتالوں کے دھکوں سے بچنے کی تمنا۔ لیکن وہ حکومت ہی کیا جو ذلیل کرنے کا بندوبست نا کرے۔
صدر سے ڈبگری جانے والے مین راستہ میں میٹرو نامی بزرگ کا پل پڑتا ہے۔ اب پل صاحب تو اوپر اوپر بن رہے ہیں پچھلے چار چھ ماہ سے لیکن نیچے مریضوں کو متبرک مٹی چٹا کر، انکی سانسوں کے ذریعے پھیپھڑوں میں بھر کر اس کے بعد انکو ڈاکٹر کی طرف بھیجنے کا پورا انتظام کیا گیا ہے۔ اب مریض جا ہی رہا ہے ڈاکٹر کی طرف تو سارے علاج ایک ہی دفعہ کروا لے۔
خراب روڈ اور کھڈوں کی بدولت فریکچر کے مریض اپنے لگے پلاسٹر کی مضبوطی مفت میں چیک کر لیتے ہیں۔
اسی روڈ کے سامنے سول سرونٹس کوارٹرز موجود ہیں۔ ذرا کوئی جا کر ان بیچاروں کے گھر کی حالت دیکھ لے جن کے گھر کا کونا کونا ہر وقت گرد سے اٹا ہوا رہتا ہے۔
آلودہ شہروں کی لسٹ میں پشاور پہلے نمبر پر تو آ چکا ہے، لیکن حکومت کو کیا۔ انکی بلا سے۔
دکھ تو صرف پشاور کے اپنے باسیوں کو ہو گا جو روز ذلیل ہوتے ہیں۔