پیاری بھانجی عفیفہ شمسی کے ولیمے کی روداد
ڈاکٹر خولہ علوی :
ولیمہ کرنا سنتِ نبوی ﷺ ہے اور اس کا بنیادی مقصد شادی کا اعلان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
23 مئی 2021ء بروز اتوار، رات کو گجرات میں پیاری بھانجی عفیفہ شمسی کے ولیمے کا فنکشن تھا۔ جس میں دلہن والوں کی طرف سے ہر فیملی کے دو لوگ مدعو تھے۔
نماز عصر کی ادائیگی کے بعد لاہور سے خاندان کے صرف بڑے افراد روانہ ہوئے۔ بچوں کو گھر میں امی جان اور ایک خاتون کی نگرانی میں چھوڑا۔ امی جان بڑھاپے اور صحت کے مسائل کی وجہ سے سفر سے عموماً گریز کرتی ہیں۔
عفیفہ کی سسرال پہنچے تو پونے آٹھ بج چکے تھے۔ سب لوگ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع اور قصر ادا کرکے گھر کےقریب واقع ” میرج مارکی “ میں پہنچے۔
گزشتہ کل رخصتی کے بعد وہ لوگ تقریباً پونے بارہ بجے گھر پہنچے تھے۔ راستے میں نئے نویلے دلہا میاں، ساس محترمہ اور دیگر لوگوں کے رویے شائستہ اور بے تکلف تھے۔
آدھی رات کو گھر میں موجود لوگوں نے اچھے طریقے سے دلہن کا استقبال کیا تھا۔
آج دلہن خوش تھی۔ دلہا میاں خوش تھے ، اس کے سسرال والے بھی خوش تھے۔ یہ جان کر اور دیکھ کر ہم سب بھی بہت خوش تھے۔ الحمدلله ثم الحمدللہ۔
ڈبل سٹوری کشادہ گھر تمام سہولیات سے آراستہ تھا۔
دلہن کا بیڈ روم اوپر والے پورشن میں تھا۔ جس کی ڈیسنٹ سی ڈیکوریشن اچھی لگ رہی تھی۔
گھر میں ہماری آمد کے فوراً بعد دلہن بھی ولیمے کے لیے بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر واپس گھر پہنچ گئی۔ اسے دیکھ کر ہمارے دل باغ باغ ہو گئے۔ حسب توقع ولیمہ کی دلہن پہلے دن سے زیادہ فریش اور خوش باش لگ رہی تھی۔
ماشاءاللہ لا قوۃ الا باللہ۔
ویسے میری والدہ کے بقول ” ساری دلہنیں ہی چندے آفتاب چندے ماہتاب لگتی ہیں۔“ ان پر اتنی محنت جو کی گئی ہوتی ہے۔
شادی میں دلہن کی آرائش و زیبائش کے حوالے سے واضح کردوں کہ ہر طرح کی غیر اسلامی اور ممنوع آرائش سے مکمل گریز کیا گیا تھا۔ الحمدلله۔
میزبان اور مہمان خواتین کی تیاریاں دیکھنے کے قابل تھیں۔ خصوصاً دلہن اور دلہا دونوں کی بہنوں نے اپنے دلی ارمان پورے کیے تھے۔
مارکی کی ڈیکوریشن اچھی لگ رہی تھی۔
ماحول صاف ستھرا اور باپردہ تھا۔
کیٹرنگ کا اچھا بندوست کیا گیا تھا۔
تنظیم اساتذہ اور دیگر کئی واقف کار خواتین سے ملاقات بہت اچھی رہی۔
سٹیج پر بیٹھی دلہن کے پاس پردے والی چادر موجود تھی۔ جب اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی، پردے والی چادر استعمال کی جاتی رہی۔
کھانے کے وقت مرد ویٹرز کے اندر آنے جانے کی وجہ سے کچھ مسئلہ بنا۔
ویسے کھانا کھلانے کے لیے ہال میں خواتین ویٹرز موجود تھیں۔ جنہوں نے بعد میں کھانا کھلانے کی ڈیوٹی اچھے طریقے سے سر انجام دی۔
گرما گرم کھانا سرو ہونے سے پہلے ہی اس کی دل فریب سی مہک چار سو پھیلی ہوئی تھی۔
کھانا ماشاءاللہ بہترین، لذیذ اور وافر مقدار میں تھا۔ الحمدلله۔
دلہن سٹیج پر ٹینشن فری بیٹھی اپنے ولیمے کا فنکشن ہنستے مسکراتے، بچوں بڑوں سے ملتے، انجوائے کر رہی تھی۔ میں دلہن کے ساتھ سٹیج پر بیٹھی ہوئی تھی۔
انٹر نیٹ پر آن لائن موبائل کالز کرنے اور دلہن سے بات کرنے کا سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری وساری رہا۔ دیار غیر میں مقیم بڑی خالہ جان، چچاؤں اور پھپھو سے دلہن کی ویڈیو کالز پر بات چیت ہوئی۔ اور ہزاروں میل دور بیٹھے یہ پیارے لوگ بھی فرحت و انبساط کے اس موقع سے فیض یاب ہوئے۔
اس کی بہن امل غازی موبائل کالز پر اس کی بات کرواتی تھی تو میں کال مختصر کروا دیتی تھی تاکہ ہال میں کسی کو اعتراض نہ ہو کہ دلہن بس فون سے ہی چپکی ہوئی ہے۔ ویسے بھی محفل میں موجود لوگوں کا حق زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت دور بیٹھے لوگوں کے۔ تاہم مختصر سی گفتگو میں حرج نہیں ہوتا۔
دلہن کے چھوٹے چھوٹے بھانجے بھانجیاں خالہ جان سے چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے ساتھ لے کر واپس آنے پر مصر تھے۔ ان بچوں نے خوب رونق لگائے رکھی۔
ہال میں نک سک سے تیار خواتین اور بچیوں کے ہنستے مسکراتے، ہشاش بشاش، گلاب، ماہتاب چہرے، آراستہ و پیراستہ پیراہن، سرسراتے دوپٹے، چوڑیوں کی چھن چھن نے عجب خوبصورت ماحول بنا رکھا تھا۔
نئے شادی شدہ جوڑے کے خوشیوں سے کھلتے ماہتاب چہرے بہت بھلے لگ رہے تھے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اخلاق و کردار کی دائمی خوبصورتی عطا فرمائے، جنت الفردوس میں بھی اکٹھا کردے اور اپنی نعمتوں سے فیضیاب کرے۔ آمین ثم آمین۔
بالآخر شادی کی تقریب بخیر و عافیت اپنے اختتام کو پہنچی۔
رات کے ساڑھے گیارہ بجے دلہا دلہن کےبغیر واپسی کے لیے ہماری روانگی ہوئی۔ ان دونوں نے دو تین دن بعد آنا ہے۔ جیسے وہ خوش، ویسے ہم بھی خوش۔ کوئی مسئلہ نہیں۔
راستے میں گجرانوالہ رک کر ابوبکر بھائی نے سب کو مشہور و معروف ” راہوالی کی کھوئے والی قلفی “ کھائی۔ رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بجے بھی وہاں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ شوقین لوگ قلفیاں خریدنے اور کھانے کے لیے آدھی رات کے بعد بھی لمبی لائنوں میں لگے ہوئے تھے۔
دعائیں پڑھ کر دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ اور تقریباً دو بجے گھر پہنچ گئے۔ جہاں ساری بچہ پارٹی بیدار، چاق و چوبند ہماری آمد کی منتظر تھی۔ ہمارے گھر پہنچنے سے جیسے سوکھے دھانوں میں پانی پڑ گیا ہو، فوراً بچوں کی فرمائشیں شروع ہو گئیں۔ جنہیں کل کے وعدے پر ملتوی کیا۔
اگر ہم سب اسلامی ڈگر پر چل پڑیں تو یہ معاشرے سے شادی کے غیر ضروری رسوم و رواج، نمود و نمائش اور اسراف کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ ان شاءاللہ۔
الحمد للہ یہ بہت یادگار شادی رہی۔
بچوں سے لے کر بڑوں تک سب نے خوب انجوائے کیا ہے۔ الحمد للہ۔
اللہ تعالیٰ دلہن دلہا اور تمام اہل خانہ کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت و الفت پیدا فرمادے اور یہ نکاح ان کے لیے خیر و برکت اور دنیا و آخرت کی بھلائی کا احسن ذریعہ ثابت ہو۔
آمین ثم آمین۔
2 پر “داستان ایک یادگار ولیمہ کی” جوابات
Masha Allah Great Article
Enjoyed a lot of reading this article
Interesting and informative writing style