حارث عبداللہ :
ہوا میں جھومتے، اڑتے ، پروں کو پھڑپھڑاتے سفید کبوتروں کے درمیان بلخ کی خوبصورت نیلی مسجد کا منظر طبیعت کو سرشار کر دیتا ہے ، بڑے بوڑھوں کا ماننا ہے کہ جناب علی(رضی اللہ عنہ) کا مزار مقدس نجف میں نہیں بلخ میں ہے ، خیر ہونے کو تو کئی باتیں مشہور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانائے بلخی ( رومی) کی ” نے” سے نکلی ” بشنو” کی صدا آج بھی ایک وجد آور آہنگ کے ساتھ وہاں گونج رہی ہے۔
ایک والہانہ پن ۔۔۔۔۔۔ ایک معنوی تاثیر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک قلبی واردات ۔۔۔۔۔۔”بلخ باستان” کی فضا آج بھی روحانیت سے معمور ہے۔۔۔۔۔
آج بھی "ابن سینا” کا "قانون” شفا بخش اور راحت آور ہے۔۔۔۔۔۔ آج بھی رشک فردوس وادیوں سے پھوٹتے برفآب کے چشمے کار مسیحائی اور جان پروری کرتے ہیں۔۔۔۔۔
ذرا دور "فاریاب” کے وسیع و عریض کوہ دامن اور سبزہ زار جنہوں نے کبھی "ابو نصر فارابی” جیسے فیلسوف کو اپنے آغوش میں پالا تھا آج غم و اندوہ اور رنج و حرماں کی فضا میں جب لہلہاتے ہیں تو ایک عالم کا کلیجہ کٹتا ہے۔
بامیان کی چٹانوں میں بدھا کے دیو قامت،شکستہ مجسمے میں بہت دنوں سے بارود کی بو سونگھتے اب کچھ سہمے ، سہمے سے رہنے لگے ہیں۔۔۔۔۔
ہرات علم و فن کا مرکز، فنون و ہنر کا گہوارہ ہوا کرتا تھا تہذیب و ثقافت میں یکتا۔۔۔۔۔۔ثروت و تمدن میں تاک ۔۔۔۔۔۔ خوشحالی کہ کیا کہنے۔۔۔۔۔۔اسی ہرات کی نشاط انگیز محفلوں کی مستی و سرمستی میں دونوں جہان ہار کر ظہیرالدین بابر کہہ اٹھا تھا کہ:
نوروز و نو بہار و می و دلبری خوشیست
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مگر آج خواجہ عبداللہ انصاری کے ہرات پر خونیں بادل گھر آئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غور اور غزنی نے کبھی دور عروج کے فاتحین کی سطوت و جلال کا نظارہ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ آج دنیا ان کے حسرت و ملال کا تماشا کر رہی ہے:
وتلک الایام نداولہا بین الناس
گئے وقتوں میں جب کبھی ہندوستان کے مسلمانوں پر کوئی افتاد ٹوٹتی ، زوال اور انحطاط حد سے گزرنے لگتا۔۔۔۔۔ زمام اقتدار پر گرفت کار کچھ ڈھیلی پڑنے لگتی ۔۔۔۔ تو دہلی کی کسی کٹیا سے شاہ ولی اللہ قندھار کے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھتے اور وہ مرد افغان آندھی و طوفان و باد و باراں کی طرح ، کوہ و دشت و دریا و دمن عبور کرتا، ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کو پہنچتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ برسوں یونہی ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبانی ہوتی رہی مگر آج اسی قندھار میں خرقہ مبارک خانقاہ کے دروازوں پر خوف کے پہرے دار متعین ہیں ہیں ۔
بہار میں سرخ ، قرمزی چادر اوڑھ کر شعراء کی بزم خیال کو اپنے خراماں رقص سے رنگین کرتے بغلان کے لالہ زاروں میں مٹکتے گل لالہ اب بہار میں چٹختے ضرور ہیں مگر خوف سے رقص نہیں کرتے۔
پنج شیر،تخار اور تالقان کی جنت نظیر وادیاں ہوں یا کنڑ، لغمان اور نورستان کی ندیاں، جھرنے اور چشمے سب پر منحوس سیاہ بادل خون کی پھوار برسانے کو تیار کھڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
قلب ایشیا میں تمدن کے چوراہے پر واقع کابل شرق و غرب کی تہذیبوں کے کتنے ہی قافلوں کا پڑائو رہا ہے، وقت کی کتنی ہی سرد و گرم ، خشک و تر گردشیں گزریں مگر علم کی ہوائوں میں رچا ، تہذیب کے رنگ میں رنگا ، تمدن کے ڈھنگ سے سجا اور دین کے انگ سے بنا کابل قائم و استوار رہا ، مگر اب تو چہارآسیاب اور پغمان کے درمیان فقط موت کا بیوپار ہوتا ہے کہ انسان بہت ظالم ہے۔
دور بدخشان کی کسی وادی میں بعد نوروز ، بہار کی بارش کے بعد جب دھنک اپنے رنگ ہر چار طرف بکھیر دیتی تو اس فسوں خیز منظر کے سحر میں مبتلا ہو کر کوئی چرواہا ، کوئی گدڑیا بنسری پر سریلی دھن چھیڑتا اور مدھرتا سارے میں پھیل جاتی ۔۔۔۔۔ ہوا کے دوش پر بنسری کے سریلے آہنگ گلے میں لعل بدخشاں کی مالا لٹکائے اٹھلاتی ہوئی کسی پری چہرہ نازنیں کے کانوں سے ٹکراتے۔۔۔ پل بھر میں وہ معصوم ، چشم غزال بھینج کر مسکراتی ، تو دور کھڑے کسی شاعر کو کتنی ہی غزلیں موزوں ہوجاتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق ، محبت اور رومان کے کتنے ہی نئے ، اچھوتے اور نادر مضمون سجھائی دے جاتے اور کہنا پڑتا کہ:
فکر رنگینم کند نذر تھی دستان شرق
پاره لعلی کہ دارم از بدخشان شما
مگر آج خسرو کے اسی گل و بلبل و جام و مینا سے بدخشان پر جنگ کے سائے ڈھلکتے ہیں ۔۔۔۔۔ وحشتیں کہ الحذر، تباہیاں کہ الاماں۔۔۔
غرض افسانوی اور اساطیری سا افغانستان آج ایک اور داخلی اور تحمیلی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔
آج تاریخ کی شاہراہ پر طویل ، صبرآزما اور تھکا دینے والا سفر کرنے ، کئی موڑ مڑنے اور دشوار چھٹیوں سے نکلنے کے بعد آج افغانستان ایک بار پھر، ایک تباہ کن خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر گام موت زندگی پر پہرا دیتی ہے، بستیوں میں ویرانی سی ویرانی ۔۔۔۔۔۔ ویرانوں میں وحشت کا مہیب رقص ۔۔۔۔۔ کابل کی گلیوں میں معصوم بچوں کی پتھرائی آنکھوں سے خوف عیاں ہے ۔۔۔۔۔۔ چار سو شام غم ہر طرف المیہ ۔۔۔۔۔
یوں تو جوش نمرود نے بارہا بےخطر گلزارخلیل کو پامال کیا ہے اور عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی میں افغانستان اور افغان عوام بارہا پامال ہوتے رہے ہیں مگر حالیہ دنوں کی بنتی بگڑتی صورتحال ۔۔۔۔ کابل کے ہوائی اڈے پر اڑان بھرتے طیارے ۔۔۔۔ شاہراہ چہل ستون پر فراٹے سے دوڑتی گاڑیاں ۔۔۔۔ سفارت کاروں کی مسلسل و پیہم رفت آمد ۔۔۔۔ مذاکرات کی بچھتی میز، سیاست کی لپٹتی بساط ۔۔۔۔ ڈیلتا ، ڈولتا ، ڈوبتا ، ترتا ریاستی ڈھانچہ ۔۔۔۔ جنگ کے نعرے ، صلح کے سنگیت ، عوام میں سناٹا ، ایوانوں میں سرگوشیاں ، میڈیا پر شور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان اپنی تاریخ کے نازک ترین ، خطرناک اور دلچسپ دور میں داخل ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر افسوس:
دیدی کہ در خون می تپی گریان شدی کابل
(جاری ہے)