سن 1947 میں خون کی ہولی، آغاز کس نے کیاتھا؟ حقیقت سامنے آگئی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جان سارترے
تقسیم ہند کے وقت ہونے والے خونریز فسادات کے متعلق ایک دوست نے لکھا ہے کہ اس کا آغاز مسلمانوں کی جانب سے ہوا کیونکہ قائد اعظم نے سکھوں کو بتا دیا تھا کہ پاکستان میں ان کی حیثیت ایک Sub-Nation کی ہو گی۔ جس کے بعد سکھوں نے بھارت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔

غالباً انہیں یہ یاد نہیں رہا کہ مسلمان تو ہمیشہ ہی سے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کرتے چلے آرہے تھے جسے میثاق لکھنئو میں کانگریس نے تسلیم کر لیا تھا تاہم بعد ازاں گاندھی اور نہرو اس سے مکر گئے تھے۔ اگر سکھ قیادت نے بھی جداگانہ انتخاب کو قبول کیا ہوتا اور خود کو ہندوؤں میں ضم نہ کیا ہوتا تو نہ صرف پنجاب تقسیم سے محفوظ رہتا بلکہ سکھ قوم بھی پورے پنجاب میں سکون سے رہتی۔

جہاں تک بات ہے کہ فسادات کا ذمہ دار کون تھا تو اگرچہ لڑائی شروع ہونے کے بعد اس کا درست فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے آنکھیں کس نے دکھائیں؟ پہلی گالی کس نے دی؟ پہلا گھونسا کس نے مارا؟ لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ 3 مارچ 1947 کو پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کرپان لہراتے ہوئے پاکستان مردہ باد کا نعرہ کس نے لگایا تھا؟ ماسٹر تارا سنگھ کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کے لیے کرپس مشن کے سامنے پیش کی جانے والی یادداشت کے الفاظ کافی ہیں:
“سکھ قوم اس وقت تک اپنے جائز حقوق حاصل نہیں کر سکتی جب تک پنجاب کو دریائے راوی کی سرحد بنا کر دو حصوں میں تقسیم نہ کر دیا جائے۔”

اس میں پنجاب کی تقسیم کی ذمہ داری مسلم لیگ پر ڈال کر آنسو بہانے والے دانشوروں کے لیے بھی نشانیاں ہیں۔
جب کرپس مشن کی آئینی تجاویز کانگریس اور اکالی دل نے مسترد کر دیں تو وہ بھی ماسٹر تارا سنگھ ہی تھا جس نے “آزاد پنجاب” کی تجویز دی جو تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئی۔

ماسٹر تارا سنگھ کی “احمقانہ” سیاست کا جو نتیجہ نکلا وہ تو سب کے سامنے ہے لیکن سکھ قوم اسے کس نظر سے دیکھتی تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ تقسیم کے بعد جب اس نے بھارتی پنجاب کو سکھ ریاست بنانے کا مطالبہ کیا اور حسب معمول نہرو کے جھانسے میں آکر اپنی بھوک ہڑتال ختم کی تو سکھ قوم اس کے خلاف ہو گئی۔ سکھ مت کے مذہبی رہنماؤں کی کونسل نے اسے شرومنی اکالی دل کی سربراہی سے ہٹا کر سنت فتح سنگھ کو سربراہ مقرر کر دیا۔

اس کے باوجود ماسٹر تارا سنگھ سے سکھ قوم کی نفرت ختم نہیں ہوئی یہاں تک کہ اس کی بیٹی راجندر کور کو 1989 میں سکھ حریت پسندوں نے قتل کر دیا۔

جہاں تک بات ہے تقسیم کے وقت فسادات کی تو پہلی بات یہ ہے کہ ماسٹر تارا سنگھ کے گھر پر حملے کو ان فسادات کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ سانحہ 5 مارچ کو پیش آیا تھا یعنی تقسیم ہند کے اعلان سے تین ماہ قبل۔ اگر آپ اس واقعے کو فسادات کا پیش خیمہ قرار دینا چاہتے ہیں تو 1946 کے بنگال مسلم کش فسادات کو کہاں رکھیں گے؟ بہرحال فار دی سیک اَو ریکارڈ 1946 سے 1959 تک نہرو کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے ایم او متھائی نے اپنی تصنیف “نہرو دور کی یادیں” میں لکھا ہے:
“چند سال بعد ایک دوست نے مجھ سے پوچھا: ظلم میں کون آگے تھا؟ مسلمان یا سکھ؟

میں نے جواب دیا: ایک فریق کے نصف درجن دوسرے کے چھ کے برابر تھے مگر ۔۔۔ سکھ ایک قدم آگے تھے اور ہندو بھی سکھوں سے پیچھے نہیں تھے۔”


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں