اعزاز سید :
تم بتائو تمہیں کیا مسئلہ ہے، پاکستانی؟
افغانستان کے شہر جلال آباد میں موجود انٹیلی جینس سینٹر کے لمبے تڑنگے انچارج منورشاہ نے چھوٹی سی کھڑکی سے سیل کے اندر موجود پاکستانی قیدی سے پوچھا:
’’میری کوئی شکایت نہیں ہے البتہ میں چاہتا ہوں مجھے میرے گھر بات کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ میں انہیں اپنی خیریت سے آگاہ کرسکوں‘‘ ۔ جواب سن کر افغان انٹیلی جنس سینٹر کا انچارج پھٹ پڑا اور بولا:
’’تم ان لوگوں میں شامل ہو جوہمارا وطن برباد کررہے ہیں۔ میں اس بات کا بالکل بھی پابند نہیں ہوں کہ تمہارے گھروالوں کو آگاہ کروں۔ میرے بس میں ہو تو میں ساری زندگی یہاں نیچے بنے ہوئے تہہ خانے میں تمہیں قید رکھوں اور تم دوبارہ سورج کی کرن بھی نہ دیکھ سکو‘‘ ۔
جیل کا یہ قیدی کوئی اورنہیں کراچی سے تعلق رکھنے والا پاکستانی صحافی فیض اللہ خان ہے جس نے اپریل 2014میں افغانستان میں گرفتاری اور پھر پانچ ماہ بعد رہائی کے بعد دسمبر 2016میں یہ تفصیلات اپنی دلچسپ آپ بیتی’’ ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ میں شائع کی ہیں۔ کتاب میں صرف یہی نہیں بلکہ کئی دیگر اہم واقعات اور مشاہدات درج کیے گئے ہیں۔
دراصل فیض اللہ خان کالعدم تحریک طالبان کے رہنمائوں کے انٹرویوز کرنے کراچی سے پشاور آئے اور پھر اس وقت کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کی ہدایت پر غیر قانونی طور پر پاک افغان سرحد کراس کرگئے۔ صحافی بڑی خبروں کے چکر میں اکثر بڑا رسک بھی لے جاتے ہیں فیض اللہ نے بھی یہی کیا۔ ان کی کالعدم تحریک طالبان کے کچھ رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں مگر ایک موقع پرسفر کے دوران وہ افغان سیکورٹی کے ہاتھوں گرفتارہوگئے اور یہیں سے ان کی زندگی ایک نئے مگردلچسپ موڑمیں داخل ہوئی۔
گرفتاری کے دوران ان سے افغان انٹیلی جنس حکام کی پوچھ گچھ کے دوران ایک مرتبہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا افسر بھی موجود تھا۔ اس کی موجودگی میں افغان حکام نے فیض اللہ سے پاکستان کے اندررونما ہونے والے واقعات اور پاکستانی خفیہ ادارے کے کردار کے بارے میں بھی سوال جواب کیے ۔
کتاب میں براہ راست تجربات کی روشنی میں بتایا گیا کہ افغان حکومتی زعما اورسرکاری حکام سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی افغانستان میں مبینہ مداخلت کی بنا پر وہ پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت کرتے ہیں تاہم پاکستان سے محبت کرنے والے بھی کم نہیں۔
اس کتاب میں فیض اللہ نے جیل میں براہ راست انٹرویوز کے ذریعے ثابت کیا کہ کالعدم تحریک طالبان نے ہی ملالہ یوسفزئی پر حملہ کیا تھا اوراس حوالے سے یہ جماعت پاکستان میں دیگر مقامات پر حملوں میں بھی ملوث ہے ۔ فیض اللہ مذہبی رجحان کے حامل ہیں، اس لئے بعض مقامات پر طالبان سے متاثر اور ان کی سوچ کے بعض حصوں کے حامی بھی نظرآتے ہیں لیکن انہوں نے کمال یہ کیا ہے کہ ایک اچھے صحافی کی طرح افغان حکومت ، افغان طالبان ، کالعدم تحریک طالبان اور القاعدہ رہنمائوں سے قید کے دوران ہونے والی ملاقاتوں اور بات چیت کو بھی کتاب کا حصہ بنایا ہے، یہ سب افغانستان کوعوامی انداز میں سمجھنے میں مدددیتا ہے ۔
آپ سوچیں گے کہ مجھے فیض اللہ کی 2016 میں شائع ہونے والی کتاب اچانک کہاں سے یاد آگئی؟
دراصل افغانستان میں حالات بدلتے دیکھ کر مجھے جن چند کتابوں کا خیال آتا ہے ،ان میں فیض اللہ خان کی اردو میں لکھی یہ کتاب بھی شامل ہے۔ اب امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کردیا ہے جس پر رواں برس ستمبرتک مکمل عمل درآمد کا امکان ہے ۔
اس ساری صورتحال میں ایک بار پھر افغان طالبان زور پکڑ رہے ہیں۔ مارچ 2020میں مجھے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدہ کی قطرمیں کوریج کا اتفاق ہوا تھا ۔ اسی دوران کچھ آنکھوں دیکھے واقعات کے بعد مجھے احساس ہوگیا تھا کہ اب افغانستان دوبارہ طالبان کے ہاتھوں میں جائے گا اور شاید اس سب کے دوران بہت خون خرابہ بھی ہو۔ افغانستان خون خرابے کی حالیہ لہر اقتدار کے لئے فریقین کی باہمی کشمکش کا واضح ثبوت ہے۔
عید الفطر پر افغان طالبان کے موجودہ سربراہ کی طرف سے دیا گیا بیان بڑا اہم ہے، جس میں انہوں نے افغانستان کی موجودہ حکومت سمیت تمام شراکت داروں کو مستقبل کی اسلامی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے یعنی یہ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ وہ باقی شراکت داروں کو حصہ دیں گے لیکن اقتدارکا اصل کنٹرول انہی کے پاس ہوگا۔
افغانستان کا معاملہ واضح طورپر افغان طالبان کےہاتھ میں جاتا نظرآرہا ہے ۔ افغان طالبان کے افغانستان میں عروج کا مطلب کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کا پاکستان میں عروج ہے ۔ بظاہریہ دونوں جماعتیں الگ ہیں ایک افغانستان میں تو دوسری پاکستان میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ دونوں میں اختلاف بھی ہوتا ہے تاہم کالعدم ٹی ٹی پی کا سربراہ افغان طالبان کے سربراہ کی بیعت کرنے کا پابند بھی ہوتا ہے۔ ویسے بھی ٹی ٹی پی اِن دنوں افغانستان میں افغان طالبان کی مہمان ہے لیکن یہ وقت بھی بدلتا نظرآرہا ہے۔
کچھ ہی عرصہ قبل ٹی ٹی پی میں شامل ہونے والے عدنان رشید کچھ سول آبادیوں پرحملوں اور فکری اختلافات کے باعث کالعدم ٹی ٹی پی چھوڑ کر افغان طالبان میں شامل ہوگئے۔ وہ کسی اورجماعت میں شامل ہوتے تو شاید مسئلہ ہوتا مگر افغان طالبان میں شمولیت ان کے تحفظ کی ضمانت تھی۔ یہ وہی عدنان رشید ہیں جن پرپرویزمشرف پرحملے کا الزام تھا اورجنہیں کالعدم تحریک طالبان کے جنگجوجیل تڑوا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
افغانستان میں طالبان اورپاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کا عروج دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز اپنی سرزمین کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے کیا پالیسی اختیارکرتے ہیں؟