پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات اور روزنامہ ’ وفاق ‘ کے بانی کی داستان حیات
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پرائمری کا امتحان اپنے تمام ہم جماعتوں سے بہتر پوزیشن کے ساتھ پاس کر کے واپس آرہا تھا تو میں نے راستے میں رونا شروع کردیا۔ ساتھیوں کے استفسار پر میں نے بتایا کہ جن والد صاحب کو میرے اس نتیجے پر سب سے زیادہ خوش ہو کر مجھ سے پیار کرنا تھا وہ تو دنیا میں موجود ہی نہیں ہیں۔
ماموں جان اپنے بیلوں کی جوڑی لے کر سحری کے وقت میری حویلی چلے آتے۔ یہ حویلی گاؤں کی سب سے بڑی حویلی تھی اور گاؤں کے آخری سرے پر واقع تھی۔ یہاں سے میرے بیلوں کو ہل پنجالی سمیت تیار کرتے اور مجھے پیار محبت سے جگا جگا کر ساتھ لیتے۔ جس کھیت میں جانا ہوتا وہاں جاتے، ہل چلاتے۔اتنے میں گھر سے میرے سکول کے کپڑے اور بستہ کھانے سمیت کھیت میں پہنچ جاتا۔ کھانا کھانے کے بعد میں جہاں بھی ہوتا وہیں سے اسکول کا راستہ لیتا اور ماموں جان میرے اور اپنے بیلوں کو واپس حویلیوں میں لے جانے کی ذمہ داری ادا کرتے۔ میں اسکول سے واپس آکر مویشیوں کے لئے چارہ لاتا جس میں مشین سے چارہ کاٹنے کا کام بھی شامل ہوتا۔
اس دوران میں یوں تو آزمائش کی بہت سی گھڑیوں سے سابقہ پیش آیا لیکن ایک گھڑی ایسی فیصلہ کن ثابت ہوئی تو جو میری زندگی میں انقلاب کاذریعہ بن گئی۔ کھیتی باڑی کے معاملات سے باخبر لوگ تو جان سکتے ہیں۔ دوسروں کو سمجھانا پورے طورپر مشکل ہے کہ جب میں مویشیوں کے لئے چارہ لانے کی غرض سے اپنے ایک کھیت سے سرسوں کے پودے اکھاڑ رہا تھا تو ایک پودے کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ میں اسے اکھاڑ نہ سکا۔
ایک طرف یہ کہ میں نحیف ونزار تھا اور دوسری طرف یہ کہ میٹرک پاس کرچکا تھا۔ تمنا اور دعا یہ تھی کہ کہیں کوئی اچھی ملازمت مل جائے تو زندگی میں کچھ آسانیاں میسر آسکیں۔ سرسوں کے اس پودے کو اکھاڑنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی۔ اور میں نے روتے روتے اللہ پاک سے فریاد کی کہ مجھے ان مشکلات سے اس لئے بھی نجات ملنی چاہئے کہ میں اپنے اندر ان مشکل کاموں کی ہمت نہیں پا رہا۔
اس دوران میں اگرچہ میں اپنے ساتھ والے گاؤں ”اجمیر“ میں ایک پرائمری اسکول میں جزوقتی طورپر ا ول مدرس کے فرائض سرانجام دے رہا تھا جس کے مہتمم مولوی نبی بخش تھے جن کے بارے میں بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ قادیانیوں ( احمدیوں ) کے معروف 313 میں شامل ہیں۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ ایک مولوی فضل دین، جو عمر کا زیادہ حصہ لاہور کے انتہائی معروف تعلیمی ادارے سنٹرل ماڈل اسکول میں پڑھاتے رہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے شاگردوں میں دوسرے اعلیٰ افسروں کے علاوہ محترم محمد شفیع بھی شامل تھے جو اس دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ کے پرائیویٹ سیکرٹری اور دوسرے اہم اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے ہیں۔ یہ وہی محمد شفیع ہیں جو پنجاب کے مرحوم انسپکٹر جنرل پولیس چودھری سردارمحمد کے سسر تھے۔
مولوی نبی بخش کے دوسرے بیٹے محمد علی اجمیری کے نام سے مشہور تھے جو قادیانیوں کے ترجمان انگریزی جریدے ” ریویو آف ریلجنز “ کے ایڈیٹر تھے۔ میرا ان دونوں حضرات کے بچوں سے بھی قریبی تعلق رہا ہے۔
چنانچہ جب لاہور میں 1953ء کے دوران اینٹی قادیانی تحریک زوروں پر تھی تو میں رحمان پورہ میں مقیم مولوی فضل دین کے گھر گیا۔ اس وقت جماعت اسلامی کا گشتی شفاخانہ میرے اور جناب صفدر حسن صدیقی کی تحویل میں تھا۔ ہم زخمیوں کی ابتدائی طبی امداد اور بعض زخمیوں کو ہسپتال میں منتقل کرنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ میں یہی گشتی شفاخانہ لے کر مولوی فضل دین کے گھر گیا تھا اوران سے کہا کہ آج کل چونکہ ہر وقت حملوں اور بلووں کا اندیشہ رہتا ہے اس لئے آپ بچوں کو میرے ساتھ بھیج دیں۔
انہوں نے نہ صرف یہ کہ میری تجویز ماننے سے انکار کیا بلکہ جماعت اسلامی کو یکسر بے جا طورپر ایک فریق ٹھہراتے ہوئے کچھ سخت سست الفاظ بھی کہے جس کا میں نے بالکل برا نہیں مانا۔ بہرحال ان کی اہلیہ اور دوسرے افراد خانہ خیر خواہی کے میرے اس جذبے پر سراپا شکر گزار تھے۔
سرسوں کے پودے کے حوالے سے روتے روتے جو میں نے اللہ سے فریاد کی تھی اس کی رسائی یقیناً ہوچکی تھی۔ چنانچہ چند ہی دنوں کے اندراندر لاہور سے میرے ایک دوست جناب شوکت علی کا خط موصول ہوا کہ سٹی آف لاہور کارپوریشن میں ملازمتوں کے ایک اشتہار کے جواب میں جونیئر کلرک کی آسامی کے لئے آپ کی طرف سے ایک درخواست دی گئی تھی جس کے جواب میں آپ کو انٹرویو کے لئے بلایا گیاہے۔
اس خط میں مقررہ تاریخ تک پہنچنے کی تاکید بھی کی گئی تھی۔ اب ایک طرف ملازمت کی کشش اور دوسری طرف گھر چھوڑنے اور بہن بھائیوں سے بچھڑنے کا غم ایک عجیب صورتحال تھی۔ والدہ محترمہ کے بعد میری بڑی بہن مجھے سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں ( قربان انجم کی والدہ ) ان سے میری ذہنی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ جب ان کی شادی ہوئی تو میں چیختے چلاتے ہوئے رو رو کر یہ کہہ رہا تھا کہ ” میں تو اپنی بہن کے ساتھ جاؤں گا “۔ انہی ہمشیرہ صاحبہ نے مجھے انٹرویو کے لئے انتہائی پیار بھرے انداز میں لاہور کے سفر پر آمادہ کرلیا۔
لاہور میں کچھ عرصے کے بعد میں نے بعض دوستوں کے مشورے کے مطابق تعلیمی استعداد میں اضافے کے لئے منشی فاضل ( آنرز ان پرشین ) میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لئے شیرانوالہ گیٹ سے باہر صدیقی سٹریٹ میں علامہ علاؤالدین صدیقی کے بھتیجے محترم ضیاء الدین صدیقی نے صدیقی ٹیوٹوریل انسٹیٹیوٹ کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم کررکھا تھا جس میں میں نے اپنے ایک دوست صادق ظفر کے ہمراہ داخلہ لے لیا اور 1946میں منشی فاضل کاامتحان پاس کرلیا۔
اس کے بعد قیام پاکستان کے مراحل پیش آئے۔ میں ذہنی اور نظریاتی طورپر قائداعظم کے فکرو فلسفہ سے بے حد متاثر تھا۔ چنانچہ لاہور میں بھی کسی حد تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا لیکن جب چند دنوں یا چند ہفتوں کی چھٹی لے کر اپنے گاؤں جاتا کہ لا ہور کے حوالے سے دیہات کے لوگ میری باتیں زیادہ توجہ سے سنتے اور جہاں تک مجھے یاد ہے اس دور میں مجھے گاؤں اور اس کے آس پاس کے علاقے میں مسلم لیگ کے سوا کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی قابل ذکر کردار سننے میں نہیں آتا تھا۔
اس مرحلے پر یہ بھی عرض کردوں کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد کا جو نقشہ ہمیں بتایا جاتا تھا اور جس پر ہم یقین کر چکے تھے اس نقشے کے مطابق ہوشیار پور اور گورداسپور کے اضلاع کے مکمل طورپر یا ان اضلاع کے بیشتر حصے پاکستان میں شامل ہونے والے تھے لیکن بدقسمتی سے ریڈکلف ایوارڈ نے ہم لوگوں کے ساتھ کچھ ایسا ہاتھ کیا کہ ہم آزاد ی کی نعمتوں سے وقتی طورپر محروم ہو کر غلامی کے شکنجوں میں جکڑے گئے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر جس ظلم و ستم کا سامنا ہمیں کرنا پڑا وہ گھر سے بے گھر ہونے کا المیہ تھا۔
بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں۔ نہ صرف یہ بلکہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگیا۔ میں تقسیم سے تھوڑی دیر پہلے تک لاہور میں تھا اور میں نے انتہا پسند سکھ رہنما گیانی کرتارسنگھ کو پنجاب اسمبلی کے سامنے اپنی آنکھوں سے کرپان لہراتے دیکھا۔ یوں سمجھیے کہ گیانی کرتارسنگھ کا یہ اقدام ہندو مسلم فسادات کی بدترین بنیاد ثابت ہوا اور ایسا لگتا تھا کہ گلی گلی محلہ محلہ میں سالہا سال سے نہیں صدیوں سے مچھے ہمسایوں کی طرح رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔
کہیں چھوٹا اور کہیں بڑا جلوس جگہ جگہ خون آشامی کے انتہائی خوفناک مناظر پیش کررہا تھا۔ اینٹ پتھر جو کچھ کسی کے ہاتھ میں آتا وہ اپنے حریف پر دے مارتا۔ شریف لوگ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے پرسکون اور پرامن زندگی دہشت و بربریت کا سماں پیش کرنے لگی۔ میں نے اپنے سامنے کہیں مسلمانوں کی کہیں غیر مسلموں کی لاشیں گرتی دیکھیں۔ انسانی خون کی اس نوعیت کی ارزانی کا اس سے پہلے تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ماسٹرتارا سنگھ کے کرپان لہرانے کا واقعہ مارچ 1947ء کے پہلے ہفتے میں پیش آیا۔اس کے بعد فسادات کی آگ نے لاہور ہی نہیں پورے پنجاب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چنانچہ میں اپنی والدہ، اہلیہ اور دوسرے بہن بھائیوں کے بارے میں شدید پریشانی کے عالم میں سرکاری ملازمت سے چند ہفتوں کی رخصت لے کر گاؤں کے لئے روانہ ہوگیا جہاں جن قیامت خیز مناظر کا سامنا کرنا پڑا وہ اپنی جگہ، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ذریعے اور علاقے کے دوسرے لوگوں کے ذریعے ایک طرف اگرچہ اپنی زندگیاں بچانے کا مسئلہ درپیش تھا، اس کے ساتھ ہی بھارت سے نقل مکانی کرکے پاکستان تک سفرکا مسئلہ درپیش تھا۔
ہر طرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ نہتے لیکن جانباز مسلم نوجوان اپنی بقاء و تحفظ کے لئے اور اپنی ماؤں بہنوں کی عزت بچانے کے لئے جو کچھ کرسکتے تھے،انہوں نے اس سے گریز نہیں کیا۔
لٹے پٹے قافلے کو اپنے گھروں اور اپنے علاقوں سے نکل کر امن کے راستے تلاش کرنا بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا اگرچہ بعض فوجی گورکھے امن وامان کے قیام کے لئے ادھرادھر فوجی وردیوں میں ملبوس گھومتے پھرتے نظرآتے تھے لیکن ان کی طرف سے کسی بھی قسم کی ایسی موثر کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی جو فسادات کی آگ کو ٹھنڈا کرسکتی۔
اس عالم میں ہم اپنے مکانوں پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے اللہ کا نام لے کر پاکستان کے لئے خالی ہاتھ اور ننگے پاؤں چل پڑے۔ اس لئے کہ قافلوں کے تمام شرکاء کو بار بار یہ پیغام مل رہا تھا کہ سب کے سب خالی ہاتھ نکلیں کسی کے ہاتھ میں یا کسی کے سر پر کسی بھی قسم کا سامان یا بوجھ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن غم کا بوجھ اور ارض پاکستان تک پہنچنے کی خواہش سے ہمیں کون محروم کرسکتا تھا۔
س:بچپن سے لڑکپن اور جوانی تک مستقبل کے حوالے سے خیال و خواب؟
ج:اس مرحلے پر تو ہر قسم کے خواب و خیال دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نئی دنیا اور نئی زندگی سے سابقہ پیش آنے پر بظاہر کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اب حالات کیا کروٹ لیں گے۔ ملازمت سے برطرفی کا نوٹس مل چکا تھا۔ اس لئے کہ فسادات کی جس آگ نے علاقے بھرکو تباہ وبرباد کررکھا تھا۔ میلے کچیلے بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس ننگے پاؤں لاہور میں داخلے کی نوبت آئی تو اس اعتبار سے اگرچہ نئی زندگی آزادی کی غیر معمولی نعمت سے مستفیض لیکن یہ مرحلہ کچھ ایسی آسانی سے طے نہیں ہوا۔ تاہم اللہ بھلا کرے مخلص اور باوفا احباب کا جن میں صدق و صفا کے پیکر انتہائی عزیز دوست صادق ظفر کا نام سرفہرست شمار کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے کرائے کے ایک مکان میں میرے لئے چارپائیوں کا بندوبست بھی کیا۔ پاؤں کے جوتے سے لے کر پہننے کے کپڑوں تک ہر چیز کااہتمام کیا۔
تفصیل میں کیا جاؤں، اس نوجوان دوست نے خورونوش کے لئے بھی ہر ممکن تعاون کیا حالانکہ یہ کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا بس ایک رفیق خاص کی حیثیت سے دوست داری کے حقوق ادا کرنے میں اس نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر میری روزمرہ ضروریات زندگی کے بارے میں وقتی طور پر مجھے بے نیازکردیا۔
دریں اثناء ہمارے علاقے کے رکن قومی اسمبلی چودھری علی اکبر نے میرے کہنے پر لاہور کارپوریشن کے اعلیٰ حکام کے نام ایک ذاتی خط لکھا جس میں ملازمت سے میری برطرفی کے بارے میں انتہائی سخت الفاظ میں شکوہ بھی کیاگیا تھا اور انتہائی اہم حقائق کی وضاحت کرتے ہوئے فسادات کے دور میں میرے کردار کے بارے میں توصیفی الفاظ لکھنے کے ساتھ ساتھ میری ان پریشانیوں کا ذکر بھی کیا تھا جو عزیز واقارب کے بچھڑنے، گھر سے بے گھر ہونے اورطرح طرح کے جانکارہ حوادث سے گزرتے ہوئے پاکستان متقل ہونے سے تعلق رکھتے تھے۔
ان تفصیلات کو بیان کرنے کا مدعا واضح تھا کہ مجھے میری ملازمت پر بحال کیا جائے اور یہ کہ غیر حاضری کے دور کا معاوضہ بھی ادا کیاجائے۔ معاوضہ تو کیا ملنا تھا کہ نام نہاد قواعد و ضوابط آڑے آتے تھے تاہم ملازمت دوبارہ میسر آگئی۔
میں لاہور کارپوریشن کے دفتر میں اگرچہ 42ء میں بطور کلرک بھرتی ہوا تھا لیکن خوش قسمتی سے حکام بالا نے میری خداداد صلاحیتوں کے پیش نظر مجھے جنرل اسسٹنٹ کی ایسی پوسٹ پر تعینات کر رکھا تھا جو ماتحت عملے میں مقابلتاً زیادہ قدر ومنزلت کی مستحق سمجھی جاتی تھی۔
سرکاری طورپر لاہور کارپوریشن میں میری آخری تقرری آفس انسپکٹر کے طورپر ہوئی تھی کہ مجھے دسمبر 1950ء میں ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ استعفاء کا پس منظر میری زندگی کے ایک نئے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ ( جاری ہے )