عبید اللہ عابد :
دنیا تیزی سے ہربل علاج کی طرف جارہی ہے، بالخصوص کورونا میں متاثرین اور محتاط رہنے والے تمام لوگ ہربل اشیا کو استعمال کرتے رہے۔ اس کا پہلا سبب یہ تھا کہ لوگ پہلے ہی ایلوپیتھک ڈاکٹروں سے تنگ تھے، ان کے کمرشل ازم کے سبب۔ معالج ڈاکٹروں کی فیس بھی غیرمعمولی ہوتی ہے ، پھر وہ ایسا نسخہ لکھتے ہیں کہ دوائوں کا ایک پورا تھیلا ، انہی معالج ڈاکٹروں کے پسندیدہ میڈیکل سٹور سے خریدنا پڑتا ہے، یہ تمام دوائیں انتہائی مہنگی ہوتی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان دوائوں سے متعلق کسی کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ اصلی ہیں یا جعلی۔ ہمارے معاشرے میں جعلی ادویات کا رواج بہت زیادہ ہوچکا ہے۔
خیر! اس پر پھر کبھی ماتم کناں ہوں گے کہ من مانی قیمتوں پر دوائیں اور جعلی دوائیں فروخت کرنے والوں کے خلاف حکومت کیوں حرکت میں نہیں آتی؟ کیوں یہ کہہ کر بیٹھ جاتی ہے کہ یہ ایک بڑا مافیا ہیں۔ اس معاملے پر پھر کبھی ماتم کریںگے۔
ایلوپیتھک معالج ڈاکٹروں کے بجائے ہربل اشیا استعمال کرنے کا دوسرا سبب خود ایلوپیتھک ڈاکٹر کی کورونا وائرس کے بارے میں ناسمجھی ہے۔ جب سے یہ وبا پھوٹی ہے، جدید میڈیکل سائنس والوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ یہ کورونا وبا ہے کیا اور اس کا علاج کیسے کریں؟ وہ مسلسل اٹکل پچو مارتے پھر رہے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران میں ہونے والی جدید میڈیکل سائنس کی ریسرچ رپورٹس ، ڈاکٹروں کی آرا پڑھ لیں، آپ میری بات سے بخوبی متفق ہوجائیں گے۔
اس ڈیڑھ برس کے دوران میں اپنے اردگرد دوست احباب ، رشتہ داروں سے پوچھ لیجئے کہ انھوں نے اپنے آپ کو کورونا وائرس سے بچانے کے لئے کیا کچھ استعمال کیا ؟ وہ آپ کو مختلف جوشاندے، قہوے بتائیں گے۔ سنا مکی ، ادرک وغیرہ کا بہت زیادہ استعمال ہوا اور اب بھی ہورہا ہے۔ لوگ حکما سے بھی رابطے میں رہے ، اب بھی رابطے میں ہیں۔
میں گزشتہ بیس بائیس برسوں سے ذاتی طور پر طب نبوی ، طب اسلامی یا طب یونانی کے طریقہ علاج ہی کو پسند کرتا ہوں۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج سے کیوں متنفر ہوا؟ یہ ایک الگ داستان ہے، وہ پھر کبھی سنائیں گے۔ میں فطری طریقہ علاج سے متاثر ہوا حکیم رفیق احمد صابر مرحوم و مغفور کی وجہ سے، اب مشاورت کرتا ہوں حکیم نیاز احمد ڈیال سے ، جو بنیادی طور پر ہارون آباد( بیت المعاذ نزد جامع مسجد رحمانیہ مین روڈ بسم اللہ کالونی ) کے ہیں، ہفتے میں چند دن وہاں مطب کرتے ہیں اور باقی ایام لاہور کے علاقہ علامہ اقبال ٹائون میں میںواقع مطب میںہوتے ہیں۔
حکیم نیاز احمد ڈیال نبض دیکھنے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو نبض دیکھنے میں ماہر ہے، وہی تشخیص درست کرتا ہے، اور اسی معالج کا علاج بھی موثر ثابت ہوتا ہے۔ حکیم صاحب سے متعدد بار مختلف مسائل کے حوالے سے بات ہوئی، ان کی تشخیص ہمیشہ درست ثابت ہوئی اور ان کی تجویزہ کردہ دوا موثر ثابت ہوئی۔ اللہ بھلا کرے ہمارے دوست ، معروف کالم نگار ، دانشور عامر ہاشم خاکوانی کا ، وہی حکیم صاحب سے تعارف کا ذریعہ بنے۔
ابھی گزشتہ دنوں مجھے تنگی نفس ( سانس لینے میں ہلکی سی دشواری ) محسوس ہوئی، میں نے فوراً حکیم نیاز احمد ڈیال کو فون کیا ، ان کے تجویز کردہ ’ لعوق خیارشنبر ‘ حکیم اجمل دواخانہ کا لیا۔ ایک یا دو بار کھایا تو اللہ کے فضل و کرم سے سانس لینے میں دشواری فوراً دور ہوگئی۔ اس سے پہلے بھی کئی بار سانس لینے میں ہلکی دشواری محسوس ہوئی تو حکیم صاحب ہی کے مشورے کے مطابق عمل کیا ، الحمدللہ شکایت دور ہوئی ۔ کورونا وبا کے دنوں میں سانس کا ہلکا سا مسئلہ بھی محسوس ہو ، فوراً خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔ میں سمجھا ہوں کہ ایسے لاپروائی ، سستی اور غفلت بالکل نہیں کرنی چاہیے اور فوراً معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ معالج کے مشورے کے بغیر ، اپنی مرضی سے دوا کا انتخاب اور استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ معالج ہی جانتا ہے کہ کس مزاج کے مریض کے لیے کون سی دوا موزوں رہے گی۔ پھر مختلف موسم میں دوا بھی مختلف ہوجاتی ہے۔ مثلا ً بعض اوقات حکیم نیاز احمد ڈیال مجھے اشرف لیبارٹریز کا شربت ’ لنگزول ‘ بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس لئے قارئین میں سے کوئی بھی اپنے طور پر دوا استعمال نہ کرے۔ حکیم نیاز احمد ڈیال صاحب سے 03008138517 پر مفت مشورہ کرسکتا ہے۔
اچھا معالج تلاش کرنے میں کچھ محنت تو کرنا پڑتی ہے ، تلاش بسیار تو کرنا پڑتی ہے ۔ اچھا حکیم مل جائے تو ایک مریضکو کئی ایک فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
1۔ مرض کی صحیح تشخیص ہوگی،
2۔ موزوں دوا ملے گی جو کم از کم جعلی نہیں ہوتی۔
3۔ فطری دوائوں کے سائیڈ افیکٹس نہیں ہوتے جبکہ ایلوپیتھک ادویات کے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
4۔ ایلوپیتھک ڈاکٹروں کی نسبت حکما بہت کم اخراجات کرواتے ہیں۔
5۔ سب سے بڑی بات کہ طب اسلامی یا طب یونانی مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے، ایلوپیتھک طریقہ علاج میں مرض کو دبایا جاتا ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اچھا حکیم نہیں ملتا ، تو یہ مکمل درست بات نہیں۔ یقیناً ہمارے معاشرے میں اچھے اور ماہر معالج کی تلاش آسان نہیں۔ تاہم اچھے فطری معالج موجود ہیں جو مسلسل تحقیق کرتے رہتے ہیں، جیسے حکیم نیاز احمد ڈیال ۔ ایسے معالجین کی تعداد کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تعداد میں اضافہ ہو۔
حکما نے ریسرچ اور مطالعہ چھوڑا ، محنت چھوڑی تو ایک دوسرا نظریہ علاج ایلوپیتھک غالب آگیا۔ تاہم ریسرچ اور مطالعہ نہ کرنے اور مریضوں کی کھال اتارنے ، انھیں مہنگی اور جعلی ادویات فراہم کرنے جیسی خرابیوں کے باعث ایلوپیتھک طریقہ علاج سے بھی لوگ پیچھے ہٹ رہے ہیں، ایک بار پھر فطری طریقہ علاج ، جسے طب اسلامی بھی کہا جاتا ہے، اورطب یونانی کا نام بھی دیا جاتا ہے ، کی طرف راغب ہورہے ہیں۔
اب اطبا کے لئے ایک نادر موقع ہے کہ وہ اپنے آپ کو ریسرچ اور مطالعہ کے ساتھ جوڑیں ، اپنے شعبے میں محنت کریں ، اپنے آپ کو حکیم حاذق بنانے کی کوشش کریں، قوم کو صحت مند بنانے میں مدد دیں ۔ اس میں انسانیت کا بھی بھلا ہے اور حکما کا بھی یعنی پورے معاشرے کا۔