جویریہ خان :
ایک ہفتہ سے زائد عرصہ تک غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 212 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 61 بچے اور 36 خواتین بھی شامل ہیں ۔ فضائی حملوں میں اسرائیل نے ہسپتالوں اور ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا، ریڈکریسنٹ کے دفتر پر بھی حملہ کرکے اسے تباہ کردیا، میڈیا ہائوسز کو تباہ کیا۔ اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے ایک سکول کو بھی نشانہ بنایا جہاں متعدد فلسطینی خاندان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے میڈیا ہائوسز پر حملے کی خبر سن کر محض ” مایوسی “ کا اظہار کیا۔
غزہ کی صورت حال مزید بڑے المیے کے لئے خبردار کررہی ہے۔ مراکز صحت زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ فلسطینی ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد شہید یا زخمی ہوچکی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت خون کی ڈونیشنز مانگ رہی ہے۔ اسرائیل انفراسٹرکچر تباہ کررہا ہے۔ پینے کا صاف پانی کہیں موجود نہیں۔ سڑکوں کو تباہ کیا جاتا ہے کہ ایمبولینسیں حملے والی جگہوں پر نہ پہنچ سکیں۔ بنیادی انسانی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ 52 ہزار فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔
نو دن بعد بھی لڑائی جارہی ہے ۔ اسرائیل اور محصور فلسطینیوں کے مابین یہ لڑائی 2014 کے بعد بدترین ہے۔ ہر روز حملے ہورہے ہیں ۔ اسرائیل فضائی حملے کررہا ہے جبکہ جواب میں اسے ہزاروں راکٹس کا سامنا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیل نے اس بار غزہ پر حملہ کرنے سے پہلے سوچا نہیں تھا کہ اسے بھی جواب میں نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غزہ پر حملہ کرکے اسرائیل نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس کا نقصان اسے بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس نے جو سوچا تھا کہ وہ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دے گا، وہاں لاشوں کے انبار لگا دے گا اور وہ خود محفوظ و مامون رہے گا۔ یہ سوچ غلط نکلی۔
غزہ کی طرف سے 24 گھنٹے راکٹ باری ہوتی رہتی ہے۔ حماس نےاسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے جنوبی مشرقی تل ابیب تک اسرائیلی شہروں پر کم ازکم دو ہزار راکٹ فائر کئے ہیں۔ اگرچہ اس راکٹ باری کے نتیجے میں جانی نقصان کم ہوا ہے، تاہم معاشی اور نفسیاتی نقصان شدید ہورہا ہے۔ جہاں راکٹ گر رہے ہیں ، وہاں تباہی مچی ہوئی ہے ۔ سہولتوں سے بھری ہوئی نہایت آرام دہ زندگی گزارنے والے ، اپنے آپ کو محفوظ و مامون سمجھنے والے گھروں سے بے گھر ہوچکے ہیں ، اسرائیلی اب تک 10 اسرائیلی راکٹ حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں،
ایسا ہی ایک راکٹ سیدھا ایک اسرائیلی خاتون ’ ساپیر نواچ ‘ کے اپارٹمنٹ پر لگا اور وہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ۔ اسرائیلی خاتون نے بتایا کہ ایک راکٹ ان کی گلی میں گرا ، ایک دھماکہ ہوا اور پھر سب کچھ برباد ہوگیا۔
” میں یہاں نہیں تھی، میں اپنے والدین کے گھر میں تھی۔ میں نہیں جانتی کہ میں نے اس ہفتے اپنے والدین کے گھر جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اب زندگی گزارنے کے لئے میرے پاس اپارٹمنٹ نہیں ہے ۔ “
’ ساپیر نواچ ‘ دیگر بہت سے اسرائیلی شہریوں کی طرح اب خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ۔ اس کا کہنا ہے کہ ” پہلے میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی لیکن اب میں محفوظ نہیں ہوں۔ ہم نے سوچا نہ تھا کہ راکٹ تل ابیب یا رمات گان تک پہنچیں گے۔ اب میں چاہتی ہوں کہ یہ صورت حال ختم ہو۔“
مقبوضہ بیت المقدس جسے اسرائیلی یروشلم کا نام دیتے ہیں، میں فلسطینی سڑکوں پر ہیں اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف نعرہ زن ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ قابض قوت کو نا منظور بھی کہہ رہے ہیں۔ اسرائیلی پولیس اور فوج مظاہرین پر تشدد کررہی ہے اور انھیں گرفتار کررہی ہے۔ فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں آج مکمل طور پر ہڑتال کی ، یہاں نہ کوئی دکان کھلی ، نہ ہی کوئی گاڑی چلی۔ مقبوضہ علاقے مکمل طور پر ، جی ہاں !سو فیصد سنسان رہے۔
اسرائیلی علاقے گزشتہ ایک ہفتہ سے زائد عرصہ سے مسلسل ہنگامی حالت میں ہیں۔ جنوبی اسرائیلی شہروں میں سنسانی سی سنسانی ہے۔ راکٹوں کے رینج میں آنے والے اسرائیلی علاقوں میں شدید خوف و ہراس کا عالم طاری ہے۔ باقی اسرائیلی شہروں میں بھی لوگ غیریقینی کی صورت حال کے شکار ہیں۔ یہ منظر اس سے پہلے اسرائیل میں دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ بالخصوص مسئلہ فلسطین میں ایک نئی پیش رفت ہے۔
ایک غیرمعمولی پیش رفت یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف مسلمان ممالک میں ہی نہیں، غیرمسلم ممالک میں بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر ہیں۔ احتجاج اس قدر شدید ہے کہ فرانس کی حکومت کو اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے کہ اسرائیل کو غلط سمجھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف بڑھتے ہوئے جذبات میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب دنیا بہت غور سے اسرائیل فلسطین صورت حال کو دیکھ رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جو لوگ اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں شعور عام کررہے ہیں، انھیںکامیابی مل رہی ہے۔