ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :
کورونا وائرس کی تیسری لہر میں وہ علاقے اور شہر بھی متاثر ہورہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پہلی اور دوسری لہر میں محفوظ رہے تھے لیکن اب حالات خطرناک رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہر روز ایک محلے سے دو دو، تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں۔
بظاہر کورونا کی تیسری لہر نے حکومت اور عوام کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ملکی حالات کافی خراب دکھائی دے رہے ہیں۔ کئی نجی اور سرکاری ادارے بند ہونے کے قریب ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔
بہت سے شہروں میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے۔ مہنگائی اور معیشت کے مسائل حل ہونے میں نہیں آرہے۔ حکومت کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فوج حالات کو نارمل کرنے کے لیے میدان عمل میں آچکی ہے۔
کورونا بیماری کی ابتدا سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہسپتالوں میں عزیز واقارب یا واقف کاروں کی عیادت کے لیے جانا ہوتا تھا۔ تب بھی ہسپتال مریضوں سے بھرے نظر آتے تھے اور ہر وارڈ میں مریضوں کی تکلیف اور بے بسی و پریشانی دیکھ کر منہ سے استغفار جاری ہوجاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے تھے۔
کورونا بیماری کے بعد بھی یہی صورتحال ہے۔ اب لوگوں نے ہسپتال جانا ہو تو سوچ بچار کے بعد جاتے ہیں کہ نامعلوم ہسپتال میں کیا حالات پیش آئیں بلکہ تیمار دار بھی مریضوں کو ہسپتال میں داخل کروانے کے حوالے سے غور وفکر کے بعد یہ قدم اٹھاتے ہیں۔
کورونا وائرس اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت کے تحت آیا اور پھیل رہا ہے۔ اور اس کے حکم پر ہی کسی کے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو مسلمانوں میں زیادہ پھیلانا چاہتے تو اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ یہ صرف اللہ تعالٰی کے احکامات اور مقاصد کی تکمیل کرنے آیا ہے۔
حال میں انڈیا میں کورونا بیماری بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور کثیر تعداد میں لوگ اس کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ انڈین گورنمنٹ اور ہسپتال بڑی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک میں بھی کورونا بیماری کا پھیلاؤ بہت زیادہ رہا ہے بلکہ ابھی تک یہ مسائل جاری ہیں۔
عموماً ہمارے ذہنوں میں یہ تصور ہوتا ہے کہ مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکہ میں علاج کی بہت زیادہ سہولیات ہیں اور وہاں لوگوں کو ہمارے جیسے معاشرتی مسائل درپیش نہیں ہوتے لیکن برطانیہ اور امریکہ دونوں میں کورونا کی بیماری کے حوالے سے بڑی بدترین صورتحال رہی ہے اور ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات ہیں اور کورونا مریض بڑی بے چارگی کی کیفیت میں ہیں۔
وہاں مریضوں کے علاوہ ڈاکٹروں کے لیے بھی مکمل سہولیات موجود نہیں تھیں بلکہ بعض بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں مثلاً ماسک، دستانے، حفاظتی کٹس وغیرہ اور مریضوں کے لیے ان چیزوں کے علاوہ کرونا ٹیسٹنگ کے لیے ٹیسٹ کٹس اور وینٹی لیٹرز وغیرہ کی بھی کمی ہے۔ حکومت اور ہسپتال ابھی تک کورونا مریضوں کو سنبھالنے میں بظاہر بڑی دشواری کا سامنا کررہے ہیں۔
کورونا مریضوں کو بیماری کی چیکنگ کے لیے ٹیسٹ کی تاریخ کئی دن بعد ملتی ہے۔ کورونا مریض بہت زیادہ ہیں اور ہسپتال باری آنے پر ان کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ اور وہ مریضوں کی اس بڑھتی ہوئی صورتحال کو بڑی مشکل سے ہینڈل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے کافی مشکلات ہیں۔ علاج معالجہ کے لیے وسائل و ذرائع کی کمی ہے اور ” کوارنٹائن “ (الگ تھلگ) کرنے کی مکمل سہولیات موجود نہیں ہیں۔ بہت سے مریض اپنے آپ کو اپنے گھروں میں ” کوارنٹائن “ کر لیتے ہیں۔
ایک بہن نے لندن اور برطانیہ کے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کی صورتحال کے بارے میں اپنا درد دل لکھا اور اس کا تجزیہ بھی کیا کہ:
” لندن کے ہسپتالوں میں کورونا بیماری کے مریضوں کی بے چارگی اور بے بسی کے مناظر دیکھ کر افسوس ہونا فطری بات ہے لیکن آج ان کے ہاں جو افراتفری اور بوکھلاہٹ دیکھنے کو مل رہی ہے، شاید یہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ وہ جو دوسرے ممالک خصوصاً اسلامی ممالک میں آ کر بمباری، تباہی اور لاکھوں اموات کے مناظر برپا کرتے رہے ہیں، تو اس کے پس منظر میں ان کو یہ اطمینان حاصل ہوتا تھا کہ ان کا اپنا ملک محفوظ ہے۔ اسی یقین کے ساتھ یہ آ کر دوسرے ممالک کو تاخت و تاراج کرتے رہے ہیں۔ جہاں جہاں سے ان کے منحوس قدم گزرتے رہے ہیں، وہاں لوگ بھوکوں مرتے رہے ہیں۔ آج حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ان کے ہاں بے روزگاری اور غربت بڑھنے کی وجہ سے اندرونی خلفشار پھیلنے کا ڈر ہے اور کورونا بیماری نے اس قوم کی حالت غیر کر ڈالی ہے۔ کوئی قوم باہر سے آکر ان پر حملہ نہ کر پائی، تو اللہ تعالیٰ کی اس دوسری مخلوق ” کورونا وائرس “ نے ان پر اندر سے حملہ کر ڈالا ہے، جس کی انھیں توقع نہ تھی۔“
ایک جرثومے نے تاریخ بدل کے رکھ دی
اشک پتھر ہیں، کہیں دیدہ تر زندہ ہے
برطانیہ میں مقیم میری ایک اور قریبی عزیزہ نے بتایا کہ
” اس کے سسر برطانیہ میں آئی سپیشلسٹ ہیں لیکن جب سے برطانیہ میں کورونا وائرس کی بیماری کا مسئلہ پھیلا ہے تو اب ان کی ڈیوٹی آئی۔ سی۔ یو میں لگی ہوئی ہے جہاں کورونا وائرس کے انتہائی نگہداشت والے مریضوں کو رکھا اور ان کا علاج کیا جاتا ہے۔
وہ کورونا مریضوں کی آنکھوں دیکھی صورتحال بیان کرتے ہیں تو بڑی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ پہلے وہ جب بھی ہمارے گھر آتے تھے تو میرے چند ماہ کےچھوٹے چھوٹے جڑواں بچوں سے کھیلتے تھے، ان کو ہنساتے تھے۔ بچے بھی اپنے دادا جان کو دیکھ کر ہنستے تھے، ہاتھ پیر مارتے تھے اور خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن جب سے ان کے دادا جان کے ڈیوٹی آئی۔سی۔ یو میں لگی ہے، وہ جب بھی ہمارے گھر آتے ہیں تو بچوں سے کم ازکم تین چار فٹ دور کھڑے ہوکر کچھ دیر ان کو دیکھتے رہتے ہیں، ان کو وہیں سے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ مجھے ان پر بہت ترس آتا ہے کہ وہ بچوں کو اب احتیاط کی وجہ سے ہاتھ بھی نہیں لگاسکتے۔ کیونکہ کئی ڈاکٹر بھی کورونا مریضوں کے علاج کے مراحل کے دوران خود اس بیماری کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔“
برطانیہ میں مقیم میری ایک قریبی عزیزہ کی تقریباً ساری فیملی کورونا وائرس کی بیماری میں مبتلا رہی ہے اور اب بفضلِ الہی سب صحت مند ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ
” برطانیہ کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کو دیکھیں تو بدترین صورتحال نظر آتی ہے۔ علاج کے لیے ضروریات اور سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ مریضوں کے علاوہ ان کے پاس تو ڈاکٹروں کے لیے بھی کافی و شافی سہولیات موجود نہیں ہیں بلکہ بعض بنیادی سہولیات کی بھی کمی ہے اور مریضوں کے لیے ان چیزوں کے علاوہ کورونا ٹیسٹنگ کے لیے ٹیسٹ کٹس اور وینٹی لیٹرز وغیرہ کی بھی بہت کمی ہے۔ مریضوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی اس تعداد کو حکومت اور ہسپتال صحیح طرح manage نہیں کر پا رہے۔ یہاں حکومت کورونا مریضوں کو سنبھالنے میں بظاہر ناکام نظر آرہی ہے۔“
برطانیہ کے حالات مسلسل خراب ہوتے جا رہے ہیں اور امریکہ اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
امریکہ میں کئی کئی دن میتیں ہسپتالوں میں پڑی رہتی ہیں، اجتماعی جنازے بھی ہو رہے ہیں اور اجتماعی قبریں بھی بن رہی ہیں۔ کفن کی کمی کے مسائل بھی درپیش ہیں۔
آسٹریلیا میں کورونا کی صورت حال
آسٹریلیا میں بھی کورونا بیماری کی صورتحال پریشان کن ہے۔ آئسولیشن اور سوشل ڈسٹینسنگ پر بہت زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ بوقت ضرورت اور حسب ضرورت قرنطینہ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کو تسلی بخش سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سعودی عرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے صورت حال
خانہ کعبہ میں پہلے طواف روک دیا گیا تھا۔ پھر ملک کی تمام مساجد بند کردی گئی تھیں سوائے مسجد حرام اور مسجد نبوی کے۔ اور نماز با جماعت پر پابندی لگادی گئی تھی ، عمرہ پر پابندی لگادی گئی تھی۔ اور عمرہ فلائٹوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دیگر تمام فلائٹیں بھی بند کر دی گئی تھیں۔ تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔ عوامی مقامات پر اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
مکہ اور مدینہ کے علاوہ دوسرے سب شہروں میں پہلے لاک ڈاؤن، پھر جزوی کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ کچھ شہروں کے کچھ حصوں میں مکمل کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ رمضان میں مساجد میں تراویح کی ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
اب وہاں صورتحال کافی فرق ہے لیکن احتیاطی تدابیر جاری ہیں البتہ بین الاقوامی فلائٹس پھر بند کر دی گئی ہیں۔
بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
دبئی میں کورونا کی صورت حال
دبئی کی ریاستوں میں تقریباً سعودی عرب جیسی صورتحال ہے۔ آئسولیشن اور سوشل ڈسٹینسنگ پر بہت زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ قرنطینہ سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔
ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کو خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور ان کو کافی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دبئی کی تقریباً تمام ریاستوں میں لاک ڈاؤن اور پھر کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ حکومت نے تقریباً دس ہزار غیر ملکی ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا تھا۔
اسرائیل، سویڈن، جرمنی، جاپان، اٹلی، سپین وغیرہ میں بھی حالات خراب ہیں۔
یہ چند ممالک کی مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں وگرنہ دنیا کے اکثر علاقوں میں کورونا بیماری کی صورتحال پریشان کن ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی صورتحال اور مختلف نقطہ نظر رکھنے والے گروہ
پاکستان میں کورونا بیماری کی صورتحال بہت بہتر ہے۔الحمد للہ۔ اس وقت تک جتنے کیسز سامنے آچکے ہیں، ان میں سب سے زیادہ پنجاب میں ہیں۔
پاکستان میں اس مرض کو ابتدا میں ہی کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ عوامی مقامات پر اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔ اور پھر لاک ڈاؤن کا حکم نافذ کر دیا گیا۔
پاکستانی حکومت بہتر طریقے سے مریضوں کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانیوں کا مدافعتی نظام ( Immune system ) بھی الحمداللہ مضبوط ہے۔ پاکستان میں گرم آب وہوا کا بھی فرق ہے۔ لہٰذا برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی نسبت پاکستان میں بلکہ تقریباً تمام اسلامی ممالک میں کم کیسز سامنے آرہے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020ء کو رپورٹ ہوا تھا۔ کورونا کی پہلی لہر میں پاکستان اور سعودی عرب ابتدا میں کئی ایام تک کورونا کیسز کے اعداد و شمار کے اعتبار سے تقریباً برابر چل رہے تھے۔ اگرچہ دونوں حکومتوں کے کیے گئے اقدامات میں بہت نمایاں فرق ہے۔ بلاشبہ پاکستان پر یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت کا سایہ ہے!!!
مسلمانوں کا مدافعتی نظام مضبوط ہونے کی مختلف وجوہات ہیں مثلاً مسلمان حلال کھاتے اور کماتے ہیں، حلال جانوروں کو مسنون طریقہ سے ذبح کر کے ان کا جراثیموں سے پاک صحت مندانہ گوشت استعمال کرتے ہیں۔ تازہ سبزیاں، تازہ پھل، گھر کا بنا ہوا تازہ کھانا، تازہ دودھ، دہی، لسی وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ ڈبوں میں پیک خوراک کے استعمال کا رجحان نسبتاً کم ہے۔
مسلمان عموماً حرام کھانے اور کمانے دونوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ شراب نہیں پیتے، دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال مذہبی اعتبار سے گناہ سمجھتے ہیں، سور کا گوشت نہیں کھاتے، دیگر مضر صحت اور حرام اشیاء سے پرہیز کرتے ہیں۔ پانی سے طہارت کرتے ہیں، ٹشو پیپر سے مسلمانوں میں طہارت کرنے کا رواج نہیں ہے۔
وہ پانی سے غسل کرتے ہیں، سن باتھ نہیں لیتے، پنج گانہ نمازوں کے لیے پانچ وقت وضو کرتے ہیں جن میں ظاہری جسمانی اعضاء دھونے کے علاوہ کلی کرنا، ناک اچھی طرح صاف کرنا، سر اور کانوں کا مسح بھی شامل ہے۔ سر کا مسح کئی ذہنی امراض کا علاج ہے۔
پھر وہ نماز کی ادائیگی کرتے ہیں اور اچھی طرح رکوع و سجود کرتے ہیں۔ وضو اور نماز میں کئی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ ” انفاق فی سبیل اللہ “ کرنے کی وجہ سے ان کے رزق میں برکت رہتی ہے۔
زنا اور ہم جنس پرستی جیسے فحش اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں، کتا کلچر کو پروان چڑھانے کے بجائے انسانوں کو ترجیح دیتے ہیں، اپنا گھریلو خاندانی نظام بحال رکھے ہوئے ہیں، والدین اور بزرگوں کی خدمت اور دعاؤں کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں۔ نوجوان نسل کی رہنمائی اور ان کی نگرانی کرتے ہیں۔ مذہب سے لگاؤ کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر ” توکل علی اللہ “ رکھتے اور مشکلات اور بیماریوں کو برداشت کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی موسم گرما و سرما کی شدت برداشت کرتے ہیں، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی وغیرہ جیسے معاشرتی مسائل و مشکلات برداشت کرنے کے بھی خوگر ہوتےہیں۔ لہٰذا ان کا مدافعتی نظام اہل مغرب کی نسبت کافی مضبوط ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ کے فضل و کرم سے بہت حد تک کورونا جیسی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور اگر خدانخواستہ کورونا ٹائپ بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو اللہ کی مہربانی سے ان کی بڑی تعداد صحت یاب بھی ہوجاتی ہے۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے۔
اگر پاکستان میں کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں تو صحت یاب ہونے والے بھی کثیر تعداد میں ہیں۔ پاکستان اس وقت کورونا مریضوں کی ری کوری (recovery) کے اعتبار سے سرفہرست ہے الحمد للہ۔
تاہم کچھ لوگ یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز کم نہیں ہیں بلکہ نظر کم آتے ہیں۔ کیونکہ یہاں ٹیسٹ کم کیے گیے ہیں۔ لہٰذا پتا نہیں چلتا کہ کیسز کی اصل تعداد ہے کتنی؟ اور ویسے بھی یہاں نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں ہے۔ اسے کورونا کی بیماری لاحق ہو بھی جائے تو اکثریت کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کورونا بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کیونکہ نوجوان طبقہ کا مدافعتی نظام سب سے بہتر ہوتا ہے ہے۔ تاہم نوجوان ہی اپنے بے احتیاطیوں کی وجہ سے اس بیماری کو سب سے زیادہ پھیلانے کا سبب (Carrier) بنتے ہیں۔
جب ایک افریقی ملک Burundi کے وزیر صحت سے پوچھا گیا کہ ” آپ کے ہاں کورونا وائرس کے کیس اتنے کم ہونے کی کیا وجہ ہے؟ “ تو انہوں نے کہا کہ ” اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ٹیسٹ کٹس ہی نہیں ہیں۔ کٹس نہیں ہوں گی تو کورونا کے اعداد و شمار بھی کم ہی ہوں گے۔“ شاید یہ معاملہ دیگر کئی ممالک کے ساتھ بھی درپیش ہو۔
تاہم اس بارے میں ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں درحقیقت اتنے کیسز ہیں نہیں جتنے حکومت ظاہر کر رہی ہے۔ ” اس کی کیا وجہ ہے؟“ اس کا جواب اس نظریہ کے حامل لوگ یہ دیتے ہیں کہ ” بیرونی امداد اور فنڈز حاصل کرنے کے لیے نیز بین الاقوامی دیگر فوائد سمیٹنے کے لیے۔” بلکہ پاکستان میں جب کورونا بیماری کا آغاز ہوا تھا تو ایک لطیفہ عام ہوا تھا کہ ” حکومت کورونا کے مریض ڈھونڈتی پھر رہی ہے اور اسے مریض مل نہیں رہے۔“
بعض اوقات کیسز زیادہ ہوتے ہیں لیکن حکومت اور میڈیا ان کی تھوڑی تعداد ظاہر کرتی ہے۔
واللہ اعلم
رمضان المبارک میں بازاروں میں خواتین کا شاپنگ کے لیے اتنا زیادہ رش دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ کورونا شاید عورتوں کو کچھ نہیں کہتا۔ بہر حال خواتین کو پوری احتیاط کرنی چاہیے۔ زندگی شاپنگ سے نہایت قیمتی ہے۔ زندگی رہی تو شاپنگ بار بار ہوتی رہے گی لیکن زندگی کی قیمت پر شاپنگ صرف خسارہ ہے!!!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ مشکلات کے یہ شب و روز اس کی حفظ و امان میں اور بہت جلد گزر جائیں۔آمین ثم آمین۔
2 پر “کورونا ، کیا پاکستان پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہے؟” جوابات
پاکستان پر واقعی اللہ کی رحمت ھے ورنہ انڈیا کی آب وہوا بھی اتنی گرم ھے جتنی پاکستان کی۔ لیکن یہ طے ھے کہ ہر وہ ملک جہاں لاک ڈاون زیادہ لگا وہاں کرونا کم پھیلا ھے۔۔۔
ماشاء اللہ تبارك اللہ
بہت اعلیٰ
بارك الله فيك