وزیراعظم عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان سعودی عرب تعلقات میں جو خرابی پیدا ہوئی ، اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ تعلقات کی خرابی کا باب دراصل عمران خان حکومت کی نااہلی کا نتیجہ تھا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب خرابی بڑھنے کا سلسلہ نہ صرف ختم ہوگیا ہے بلکہ بحالی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔
گزشتہ دنوں معروف تجزیہ نگار نجم سیٹھی نے پاکستان سعودی عرب تعلقات کی خرابی اور پھر بحالی کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب عمران خان وزیراعظم بنے تو پاکستانی فوج کے سربراہ نے انھیں فوری طور پر سعودی عرب اور چین کا دورہ کرنے کو کہا کیونکہ یہ روایت ہے ، پاکستان کا وزیر اعظم پہلا دورہ سعودی عرب ہی کا کرتا ہے۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بالکل ٹھیک ! میں بناتا ہوں پروگرام ۔ وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری کے بعد ایک ایک کرکے دن گزرتے چلے گئے لیکن وزیراعظم نے کوئی پروگرام نہ بنایا۔ پھر ایک دن آرمی چیف نے وزیراعظم کو یاد کرایا سعودی عرب کے دورے کا، تب عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں تین ماہ تک پاکستان میں ہی رہوں گا۔ ابھی مجھے یہاں کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تین ماہ بعد ، میں غیرملکی دورے شروع کروں گا۔
یہ ایک شرمندگی کا مقام تھا کیونکہ سعودی عرب کو اطلاع کردی گئی تھی کہ ہمارے وزیراعظم صاحب آرہے ہیں۔ اس مرحلے پر خود آرمی چیف کو سعودی عرب جاکر سعودی حکام کو وضاحت دینا پڑی کہ بعض وجوہات کی بنا پر دورہ میں دیر ہوجائے گی۔ واپسی پر آرمی چیف وزیراعظم سے ملے اور انھیں کہا کہ آپ کو جلد از جلد سعودی عرب کا دورہ کرنا پڑے گا۔ نتیجتاً عمران خان سعودی عرب پہنچ گئے۔
اس دورے کے نتیجے میں سعودی عرب نے پاکستان کے سٹیٹ بنک میں کچھ پیسے بھی رکھوا دیے اور ادھار پر تیل بھی دیدیا۔ اس کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آئے ، انھوں نے گوادر پر آئل ریفائنری لگانے کا وعدہ کیا۔ اس کے لئے دس ارب ڈالر بھی مختص کر دیے۔ انھوں نے پاکستانی وزیراعظم کو ایک فون بھی دیا ہاٹ لائن کے لئے کہ آپ صرف ایک بٹن دبائیں گے تو میرے ساتھ بات ہوجائے گی۔
اس کے بعد معاملات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ عمران خان نے ملائشیا اور امریکا کا دورہ کیا۔ امریکا جانے سے پہلے سعودی عرب گئے۔ وہاں محمد بن سلمان نے انھیں اپنا ذاتی جہاز دیا کہ کمرشل فلائیٹ پر جانے کے بجائے اس جہاز پر سفر کریں۔ نتیجتا ً پاکستانی وزیراعظم اور ان کے رفقا شاہی جہاز پر نیویارک پہنچ گئے۔ وہاں عمران خان نے ایک دو ایسے بیانات دیے جس سے سعودی عرب ناراض ہوگیا۔
ایک بیان یہ تھا کہ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کروں گا۔ اس بیان سے یہ تاثر ملا جیسے سعودی عرب کے ایما پر عمران خان ایسا کہہ رہے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ پھر عمران خان نے ایک اور بیان دیدیا کہ پاکستان ترکی اور ملائشیا ایک ٹی وی چینل شروع کرے گا۔ سعودی عرب کو یہ بیان بھی پسند نہ آیا۔ نجم سیٹھی کے مطابق سعودی عرب ان بیانات پر اس قدر ناراض ہوا کہ اس نے عمران خان سے شاہی جہاز واپس لے لیا حالانکہ بقول نجم سیٹھی ، شاہی جہاز پاکستانی وزیراعظم اور ان کے رفقا کو لے کر اڑ چکا تھا تاہم پائلٹ کو حکم دیا گیا کہ وہ پاکستانی حکام کو واپس نیویارک اتارے اور سعودی عرب آجائے۔
بعدازاں پاکستانی حکمران وفد نیویارک سے ریاض ، سعودی عرب آیا لیکن سعودی حکام نے اسے کوئی خاص پروٹوکول نہ دیا گیا۔ یوں سعودی حکام نے اچھی خاصی ناراضی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد عمران خان نے ملائشیا میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کا اعلان کردیا، اس پر سعودی عرب مزید ناراض ہوگیا۔ ادھر سے عمران خان ڈٹ گئے کہ آل سعود کون ہوتے ہیں مجھ پر دبائو ڈالنے والے۔ نتیجتاً ناراضی بڑھ گئی۔
سعودی عرب نے ادھار دیے ہوئے پیسے بھی واپس مانگ لیے اور تیل کی قیمت ادا کرنے کو بھی کہا۔ معاملات میں مزید خرابی اس وقت بڑھ گئی جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، اس پر پاکستان نے او آئی سی اور سعودی عرب سے حمایت کرنے کو کہا۔ جب انھوں نے حمایت نہ کی تو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے او آئی سی پر تنقید کی۔ نجم سیٹھی کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے نے یہ بیان عمران خان کے کہنے پر دیا تھا، جس کے نتیجے میں پاک سعودی تعلقات میں تلخی بڑھ گئی ۔
اس پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بہت پریشان ہوگئی۔ وہ سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتی تھی، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب امریکا خطے سے واپس جارہا ہے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے شاہ محمود قریشی کے بیان پر عمران خان کے سامنے احتجاج کیا۔ جس کے بعد پاک سعودی تعلقات میں خرابی دور کرنے بلکہ اسے بحال کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہوا۔ پہلے بیک چینلز کے ذریعے ، پھر آرمی چیف خود سعودی عرب پہنچے، انھوں نے ماضی کو بھلانے اور آگے بڑھنے پر سعودی حکام کو قائل کیا۔
سعودی عرب بھی چاہتا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال ہوں کیونکہ جب سے بائیڈن امریکی صدر بنے ہیں، امریکا سعودی تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے ہیں۔ اس دوران میں دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ نہیں ہوا۔ اس تناظر میں سعودی حکمران بھی تنہائی محسوس کر رہے تھے۔ تنہائی کے اس احساس کے ساتھ سعودی حکام نے تین کام کئے۔
ایک : پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرلئے کہ شاید مستقبل میں پاکستان کی ضرورت پڑ جائے۔
دوم : یمن میں امن عمل شروع کرنے کی باتیں شروع کردیں۔
سوم: قطر کے ساتھ تعلقات بحال کرلئے جبکہ ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات کی باتیں شروع کردیں۔
نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ پاک سعودی تعلقات کی بحالی میں فوجی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہایت اہم ہے۔ عمران خان کے حالیہ دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی کوارڈی نیشن کونسل قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ‘سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان توانائی کے شعبے، انفرسٹرکچر، ٹرنسپورٹ، پانی اور کمیونیکیشن کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ایک اور مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کیے گئے ہیں۔