مسجد نبوی ، مدینہ منورہ، سعودی عرب

یادِ حرم

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سعدیہ نعمان :

میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی
سلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں

فون کی اسکرین پہ ایک بار پھر حوّا کا نام جگمگا رہا تھا ، ایک محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ میں نے پیغام کھولا تو اس نے کچھ تصاویر شیئر کی تھیں ۔ میں نے جواب میں کچھ پھول اور دل روانہ کئے ، یہ واٹس آپ پیغامات اور اس کے علاوہ کبھی کبھار کوئی فون کال جس میں وہ ” سعادیہ سعادیہ “ کہتے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جذبات کا اظہار کرتی اور میں ہنسے چلی جاتی۔

نہ میری انگریزی اس کی سمجھ میں آتی اور نہ مجھے اس کی مقامی افریقن زبان، پھر بھی 2012 سے اب 2021 تک ہم ایک مضبوط رابطہ میں ہیں، ہماری ملاقات صحن حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوئی تھی۔ جب اس نے میرے ساتھ بچوں کو دیکھ کے کہا تھا کہ میں حج پہ آتے ہوئے اپنے بچوں کو گھر چھوڑ کے آئی ہوں ، ان بچوں کے ہم عمر ہیں وہ ، اپنے بچوں کو یاد کر رہی تھی پھر ہم نے کتنی ہی دیر ایک ساتھ وقت گزارا ۔ جاتے سمے فون نمبرز کا تبادلہ کیا ۔ پھر سنٹرل افریقہ کے شہر کیمرون سے آنے والی حوا سے صحن حرم میں قائم ہونے والی دوستی پکی ہو گئی کہ مشترک اس میں اللہ و رسول کی محبت تھی۔

پھر ایک روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہال میں ملنے والی وہ چینی حسینہ معصوم سی مسکراہٹ لئے میرے دائیں جانب بیٹھی تھی ۔ نماز میں ابھی کچھ وقت تھا، میرے ساتھ تینوں بیٹیوں کو دیکھ کے وہ بہت خوش تھی لیکن پھر وہی زبان کا مسئلہ ۔ انگریزی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اور چینی زبان سے میں بالکل نا آشنا تھی ۔

ٹوٹی پھوٹی گفتگو میں ہم ایک دوسرے کو مدعا سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ۔ وہ حیران تھی کہ یہ تین بیٹیاں میری ہیں۔ اسے یقین نہ آتا تھا ۔ پھر جب میں نے بتایا کہ دو بیٹے بھی ہیں جو اپنے بابا کے ساتھ مردوں کی طرف ہیں تو وہ اپنی حیرت چھپا نہ سکی ۔ بار بار بے یقینی سے کچھ کہتی رہی ۔ میں نے پرس سے ایک چھوٹے سائز کی ایک فیملی پکچر نکالی اور اسے دکھائی تو اسے یقین آیا۔ بڑی محبت سے اس نے وہ تصویر مجھ سے مانگ لی اور پیار سے اس پہ ہاتھ پھیرتی رہی ۔ پھر اپنے بیگ میں رکھ لی ۔

میں نے اسے لکھ لکھ کے ، ڈرائنگ بنا بنا کے فون نمبر ای میل یا کوئی بھی رابطہ کا ذریعہ جاننے کی کوشش کی لیکن بد قسمتی سے کچھ بھی نہ مل سکا۔ اب شاید جنت میں ہی ملاقات ہو لیکن رمضان کے بابرکت دنوں میں حرم کی یاد کے ساتھ وہ چینی حسینہ بھی اسی مسکراہٹ کے ساتھ جھٹ سے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔

پھر وہ امریکہ میں بسنے والی عزیمت کی تصویر جس کی آپ بیتی نے مجھے ہلا کے رکھ دیا تھا ، جو کبھی مجھے بھولتی ہی نہیں، جب کبھی بھی کوئی یہ حسرت بیان کرتا ہے کہ جانے کب بلاوا آئے گا تو وہ پیاری سی مریم اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ لئے میرے دل سے نکل کے آنکھوں میں آ ٹھہرتی ہے۔

یہ بھی حرم نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ایک پر سکون شام تھی۔ مغرب کی نماز میں کچھ وقت تھا ۔ میرے ساتھ ہی ایک انڈین ٹیچر اپنے ٹیبلٹ پہ قرآن لگائے تلاوت میں مصروف تھیں ۔ سامنے قالین پہ عبداللہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ایک گہرا سکون تھا جو اندر تک اتر رہا تھا ۔ ایسے میں اگلی صف میں تنہا بیٹھی ہچکیوں سے روتی مریم پہ نگہ پڑی۔ یہاں سب روتے ہیں ، یہ در ہی ایسا ہے ، یہ گھر ہی ایسا ہے، جیسے بچہ ماں سے لپٹ کے روتا ہے ضد کرتا ہے اپنی باتیں منواتا ہے اسی طرح یہاں سب روتے ہیں،لیکن اس کا رونا ختم ہی نہ ہوتا تھا،

میں نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا ، اس نے پلٹ کے پیچھے دیکھا ،اس کے آس پاس اس کے ساتھ کوئی نہ تھا ۔ بس وہ تنہا تھی، میں اس کے قریب بیٹھ گئی ، کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ہوں، میرے پوچھنے پہ وہ بلک بلک کے رونے لگی،

” سنو میرا یہاں آنا قبول ہو جائے گا نا، سنو میں اسے ضائع نہیں کرنا چاہتی، میں اسے بالکل ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ میں پوری زندگی اس خزانہ کو سمیٹ کے رکھنا چاہتی ہوں ۔ میں نے 15 سال انتظار کیا ۔ میں نے 15 سال اس آس پہ کاٹے کہ کب میں اللہ کے در پہ حاضری دوں گی ، کب میں نبی مہربان کے شہر میں جا سکوں گی، میں بالکل تنہا ہوں ، میرے والدین نے مجھے نہیں چھوڑا ، میں نے انہیں چھوڑ دیا ۔ سب رشتے ختم کر دیئے وہ مسلم نہ تھے ۔ وہاں وہ سب ہوتا تھا جو حرام ہے ۔ مجھے اپنی بہنوں سے ماں سے محبت تھی میں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن کچھ بھی نہ سدھرا ، پھر میں نے انہیں چھوڑ دیا،

مجھے اللہ کریم نے ہدایت کے رستہ پہ ڈالا، شوہر ہے تو مسلمان لیکن اس کے ساتھ رہتے رہتے پتہ چلا کہ یہ صرف نام کا مسلم ہے ۔ پھر اس کی اصلاح کے لئے میرا تڑپنا اور سیدھے راستہ پہ چلنے کی آرزو اسے پسند نہ آئی ، وہ مجھ سے بیزار ہوتا گیا ۔ اب میرا اس کا صرف نام کا رشتہ ہے ۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے جس کا ایمان بچانے کی خاطر میں نے اپنے والدین سے رشتہ توڑا ۔ شوہر کو بہت راضی کرنے کی کوشش کی کہ اللہ کریم کے در پہ حاضری کا شوق پیدا ہو تو حج عمرہ کے لئے جا سکیں لیکن وہاں تو بےحسی تھی کہ ختم ہی نہ ہوتی تھی،آرزو تھی کہ جاگتی ہی نہ تھی،

پھر میں نے اپنے معصوم بیٹے کے بڑے ہونے کے انتظار میں 15 سال گزارے تاکہ وہ محرم کے طور پہ میرے ساتھ اس سفر پہ آسکے، ان 15 سالوں میں کچھ جمع پونجی اکھٹی کرتی رہی ، اب الحمدللہ میرا بیٹا میرے ساتھ آیا ہے ۔ روتے روتے وہ مسکرانے لگی اس کی آنکھوں میں چمک تھی ، اب گروپ کے سب لوگ دبئی کے راستہ چند دن کا قیام کرتے ہوئے واپس جانا چاہتے ہیں اور تمہیں پتہ ہے نا دبئی کے ان چند دنوں کے قیام میں کیا ہو گا ، بس مجھے یہی خوف ہے کہ یہاں سے نکلتے ہی میرا سرمایہ ضائع نہ ہو جائے ،اب میں اور بیٹا اپنے لئے ڈائریکٹ فلائٹ دیکھ رہے ہیں بس میں یہاں گزرا ایک ایک پل محفوظ رکھنا چاہتی ہوں کہ میں نے اس کے لئے بڑ ا لمبا انتظار کیا تھا۔۔۔۔“

اس کی عزیمت کی داستان نے مجھے گنگ کردیا تھا،
رب تمہیں ضائع نہیں ہونے دے گا مریم !
میں نے اسے 60 کی دہائی میں یہودی خاندان کو چھوڑ کے اسلام قبول کرنے والی اسی کی ہم نام مریم جمیلہ کی کہانی سنائی، ان کی لکھی کچھ کتابوں کے بارے میں اسے بتایا اور ہم گلے ملتے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے لیکن مریم مجھ سے کبھی جدا نہیں ہو سکی ۔

اور وہ ہندوستانی نژاد کینیڈین حلیمہ ، ہماری بلڈنگ ہی کے گراؤنڈ فلور والے اپارٹمنٹ میں اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ رہائش پذیر تھی ،ایک دن مجھ سے کہنے لگی :
سعدیہ یہ پاکستانیوں کی نبی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے شدید محبت سے میں بہت متاثر ہوں،خاص طور پہ رمضان المبارک کے ان دنوں میں جدھر نظر جاتی ہے حرم میں پاکستانی ہی نظر آتے ہیں،
اور میں سوچنے لگی کہ کس کی محبت شدید ہے ،حلیمہ تم سب کی یا حرم میں جوق در جوق آنے والے زائرین کی۔ حلیمہ اور اس کا شوہر کینیڈا میں جا بسنے والے انڈین خاندان کی تیسری نسل تھے جو جما جمایا بزنس عالیشان گھر اور زندگی کی سب سہولیات چھوڑ کے خاندان بھر کی مخالفت مول لے کے دونوں چھوٹے بچوں کو لئے مدینہ آ بسے تھے۔

بچوں کو یہاں حفظ کے حلقہ میں داخل کروایا ۔ شوہر طالب علم کو ملنے والے ماہانہ وظیفہ پہ دینی تعلیم لینے لگے ، معاش کے لئے کچھ روزگار بھی کرنے لگے، حلیمہ بتاتی تھی کہ یہ سب اس لئے ہے کہ بچوں کی بنیاد اچھی بن جائے یہ حفظ کر لیں گے اور بنیادی دینی تعلیم حاصل کر لیں گے تو واپس چلے جائیں گے۔

رمضان کریم میں اس کی محنت دیدنی ہوتی۔ تین بجے سہ پہر ہی وہ بچوں کو ساتھ لئے افطار تقسیم کے سامان کی ایک بڑی ٹوکری خود تھامے ، پانی اور جوس کی بوتلیں بچوں کو تھمائےحرم کے راستہ پہ ہو لیتی، گھر سے شاہراہ عبدالعزیز سے ہوتے ہوئے حرم تک گاڑی میں کوئی دس منٹ لگتے ہوں گے لیکن رمضان المبارک میں یہی راستہ بے پناہ رش کی وجہ سے گھنٹہ بھر میں طے ہوتا۔

سوا گیارہ بجے رات تک تراویح ختم ہوتے ہی گھر کا رخ کرتے تو ایک بجے تک گھر پہنچ پاتے ، آخری دنوں میں تو رش مزید بڑھ جاتا تو وہ دس دنوں کے لئے حرم کے ساتھ ہی کمرہ کرائے پہ لیتے گھر کو تالا لگا کے ادھر ہی شفٹ ہو جاتے تاکہ آخری دس دنوں کی برکات سمیٹ سکیں،ایسی پیاری تھی اس کی پریکٹیکل محبت،

اور پھر وہ سیکنڈ فلور والی ثمینہ جو بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور ماں کی سب سے لاڈلی تھی ۔ اسے جب ایک رات اپنی امی کی وفات کی خبر ملی لیکن فلائٹ نہ مل سکی تو وہ حرم جا کے خوب روئی، اور امی کے لئے دعائیں کرتی رہی ، دل کے پورے اطمینان و سکون سے واپس آئی کہنے لگی
سعدیہ ! میں کس قدر خوش قسمت ہوں کہ یہاں ہوں میں نے اپنی ماں کو اس پاک زمین سے دعا کا وہ تحفہ بھیجا جس کی اب انہیں ضرورت تھی مجھے لگا میرا رب مجھے تسلی دے رہا ہے۔

اور وہ فلسطینی بزرگ آنٹی جن کے چہرے سے نور ٹپکتا تھا ، جن کی دی ہوئی چاکلیٹس ایک عرصہ تک بیگ میں رکھی رہیں، اور وہ فرشتوں جیسی دکھتی پاکستانی ضعیف خاتون جو رو رو کے مجھ سے کہتی تھیں: بیٹا ! تم تو پڑھی لکھی لگتی ہو مجھے بتاؤ ادھر کیسے مانگتے ہیں ، کیا مانگتے ہیں ، مجھے تو کچھ نہیں آتا اور پھر ہاتھ پھیلائے مسجد کے میناروں کو تکنے لگتیں اور میں ان کی جانب دیکھ کے سوچتی، یہاں آپ کی یہ بے زبانی سنی جا چکی ہے یہاں ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں یہاں تو بس خالص محبت کا سکہ چلتا ہے،

اور وہ پھلجھڑیاں چھوڑتے رہنا اور ہنستے ہنستے رہنا جن کی عادت تھی العقیق گرلز سکول کی روح رواں ٹیچر شمیم جو کیمسٹری گھول کے طالبات کو پلا دیتی تھیں بیس سال بعد اس شہر مقدس سے جانے پہ کس بری طرح اداس تھیں ۔

اور وہ صحن حرم کی سیڑھیوں پہ جھولتے اور اس کی ڈھلوانوں پہ کھیلتے بچے جن کو دیر تک بیٹھ کے دیکھنا ایک دلپسند مشغلہ تھا کہ عبداللہ کو ان بچوں کے ساتھ کھیلتا دیکھ کے صدیوں پرانا منظر ایک فلم کی طرح چلنے لگتا ۔ یہی طیب فضا صحن حرم اور حسن حسین امامہ عبداللہ ابن زبیر ،عبدالرحمن، سعد، اور بہت سے پیارے بچے( اللہ کی رحمتیں ہوں ان پہ اللہ ان سے راضی ہو )

یہیں اسی پاکیزہ فضا میں کھیل رہے ہیں ، کھیل کھیل میں تعلیم بھی پا رہے ہیں ،دنیا بھر سے اور سعودیہ کے ہر گوشہ سے جمع ہوئے بچے رنگ نسل ملک کی تفریق کے بنا اتفاق و محبت سے کھیلتے بچے، قرآن کے حلقوں میں ہاتھوں میں سپارے تھامے بلند آواز سے سبق دہراتے بچے،پیارے بچے ،

اتنے میں مغرب کی اذان بلند ہوتی اور روزہ دار دعاؤں کے ساتھ افطار کرتے ، اہل مدینہ دل کھول کے میزبانی فرماتے، کھنچ کھنچ کے اپنے دستر خوانوں پہ بٹھاتے ، دل و جاں سب نچھاور کر دیتے ، اور پھر ادھر امام صاحب اقامت کہتے اور ادھر سب کچھ یوں چٹکی بجاتے سمٹ جاتا اور صفیں بن جاتیں ،

کیسے پیارے دن ، اور کیسی پیاری راتیں،
وہ صبح مدینہ
وہ شام مدینہ
پھر اس شہر مبارک سے جو زمیں پہ جنت ہے
سب ایک ایک کرکے روانہ ہو گئے ،
حوا افریقہ چلی گئی،
مریم امریکہ ،
ٹیچر شمیم اسپین جا بسیں،
ثمینہ فیصل آباد اور حلیمہ کینیڈا اور ہم پاکستان کے دارالخلافہ میں آن ٹہرے،
ہاں کچھ پیارے ابھی وہیں ہیں ، لعل و گوہر سمیٹ رہے ہیں ۔

وہ پیارے بچے بھی وہیں ہیں جنہوں نے اسد کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خطاط سے ملوایا تھا،پھر فرصت کے اوقات میں یہ نوجوان آیات قرآن کی خطاطی کرتے جن کے ساتھ مل کے مدینہ طیبہ کے ایک پیارے محلہ میں اسد کو تراویح پڑھانے کا اعزاز ملا تھا ،

وہ محترم و معزز استاد جن کی دن رات کی محنت سے عبداللہ نے چھے سال کی عمر میں ناظرہ قرآن پاک ختم کیا، جن سے عبداللہ نے قلم پکڑنا اور الف با لکھنا سیکھا، جنہوں نے عبداللہ کو ساتھ کھڑا کر کے وضو کرنے کا طریقہ سکھایا ، اللہ ان سے راضی ہو۔

عبداللہ کی پہلی درسگاہ العقیق سکول کے جماعت اول کے پہلے استاد بھی وہیں ہیں جو اب بھی حرم جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو عبداللہ کا نام خود بخود میرے لبوں پہ آجاتا ہے ،
اور وہ معصوم پھول سی ہالہ بھی وہیں ہے جو اپنی امی نانا اور طوطے کے ساتھ رہتی ہے ، جو اردو بولتے بولتے یک دم روانی سے عربی بولنے لگتی ہے ، اسی لئے فاطمہ ، سمیہ اور خولہ نے حیران ہو کے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں عربی بولنا سکھائے گی۔

اور وہ کھلنڈرا سا دکھنے والا پنجاب کا ایک نوجوان جو اپنے والد کی وفات کے بعد مدینہ طیبہ چلا آیا تھا وہاں ٹیکسی چلاتا تھا۔

اسد اور فاطمہ کو امتحان دلانے کے لئے سکول چھوڑنے جاتا تو ساتھ زندگی گزارنے کے کئی گُر سمجھاتا تھا جواس نے ٹھوکریں کھا کھا کے سیکھے تھے ۔ ایک دن اس نے پورے عزم سے مجھے کہا تھا:
” باجی ! میں نے یہاں سے کہیں نہیں جانا ، اب چاہے کچھ بھی ہو جائے ،مجھے یہیں اسی شہر میں جینا ہے یہیں مرنا ہے ۔

سنو
خوشبوؤں میں بسے پیارے لوگو
ستارے لوگو،
تم سب بہت یاد آتے ہو
اکثر یاد آتے ہو،
تمہاری یاد اس شہر مبارکہ سے جڑی ہے
جہاں زندگی ہے
جہاں بھی رہو
حبٍّ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شمعیں جلاتے رہو
خوش رہو ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں