جسٹس قاضی فائزعیسیٰ

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 10 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون :

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 4 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 5 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 6 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 7 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 8 )

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 9 )

پیر (26 اپریل 2021ء) کو نظرِ ثانی کے مقدمے کی آخری سماعت11 بجے شروع ہوئی اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ مزید عدالت کا وقت ضائع کرنے کے بعد بالآخرایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو کہنا پڑ گیا کہ ان کے پاس مزید دلائل نہیں ہیں۔ اس دوران میں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا تو انھوں نے قانونِ شہادت کی دفعات پڑھ کر سنانا شروع کیا حالانکہ ایک تو وہ دفعات ٹرائل سے متعلق ہیں اور ان کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا اور دوسرے وہ دفعات کسی سول جج کو بھی زبانی یاد ہوتی ہیں۔ انھیں پڑھ کر سنانا وقت ضائع کرنے کے سوا کیا تھا ؟

یہ بات اتنی واضح ہوکر سامنے آگئی کہ بنچ میں بیٹھے ہوئے سب سے کم گو جج، جسٹس قاضی امین الدین کو بھی کہنا پڑ گیا کہ آپ وقت ضائع کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میری رائے میں آپ نے بہت اچھے دلائل دیے لیکن اب مجھے بھی کہنے پر مجبور ہونا پڑ گیا ہے کہ آپ وقت ضائع کررہے ہیں، ایسا نہ کریں، یہ آپ کو نہیں جچتا!

درمیان میں جسٹس بندیال نے ایک دفعہ پھر اپنے ان تین سوالات پر بات کرنی چاہی جو انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پیش کیے تھے اور کہا کہ انھوں نے ان سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا ہے، تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹھ کر فوراً اعتراض کیا کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں اور یہ کہ انھوں نے سوالات کا جواب دینے سے انکار نہیں کیا، بلکہ نظرِ ثانی کے مرحلے پر یہ سوالات اٹھانے پر اعتراض کیا ہے کیونکہ یہ ایک نیا کیس بنانے کے مترادف ہیں۔

جسٹس بندیال نے مزید اس موضوع پر بات کی تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اس کیس میں نیا مواد شامل کرکے میرے خلاف نئے ریفرنس کےلیے بنیاد بنانا چاہتے ہیں ، تو اگر آپ واقعی میرے خلاف شکایت کنندہ بننا چاہتے ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن پھر صاف الفاظ میں ایسا کہہ بھی دیجیے:
If you want to be a complainant against me, I have no objection, but then say so
اس پر بنچ میں اچھی خاصی کھلبلی مچ گئی اور پھر اس غیر متعلقہ موضوع کو یہیں چھوڑ دینا پڑ گیا۔

اسی طرح ایک موقع پر جب عامر رحمان ابھی بات کررہے تھے تو جسٹس بندیال نے آگے بڑھ کر ان کی بات کی وضاحت کی کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے یہ حکم فلاں وجہ سے دیا تھا، تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹھ کر کہا کہ وہ ہر گز ایسا نہیں کہہ رہے اور یہ آپ اپنے الفاظ ان کے منہ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔

پھر جب جسٹس بندیال نے کہا کہ ہم نے تو یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر ان کے خاندان کی وجہ سے بھی کوئی اعتراض نہ ہو اور اس لیے وہ اپنے اور اہلِ خانہ کے اثاثہ جات کی تفصیل دیں، تو اس موقع پر مسز سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اگر جسٹس بندیال اور جسٹس منیب کو ججز کے احتساب کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کے اثاثہ جات کی تفصیل سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دے دیں (جیسا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا نے دی ہے)!

دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب عامر رحمان نے بالآخر اپنی بات پوری کی تو انھوں نے بنچ سے درخواست کی کہ وزیرِ قانون فروغ نسیم بھی اپنے دلائل دینا چاہتے تھے لیکن بیماری کی وجہ سے نہیں آسکے، اس لیے انھیں مزید وقت دیا جائے! اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ تو سماعت مکمل ہونے کے بعد بھی دلائل جمع کراسکتے ہیں جیسے پچھلی دفعہ ان کو موقع دیا گیا تھا، ایک اور موقع اسی طرح کا ان کو اور دے دیجیے!

جسٹس مقبول باقر اور دیگر جج صاحبان کے اعتراض کی بنا پر جسٹس بندیال کو یہ عامر رحمان کی یہ درخواست قبول کرنے سے انکار کرنا پڑا۔ البتہ انھوں نے عامر رحمان کو یاد دلایا کہ انھوں نے ابھی تک اپنے تحریری دلائل نہیں دیے اور وہ بعد میں جمع کرالیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ ساڑھے تین دن لمبے خطبے دینے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس دوران میں اپنے دلائل، یا اس کا خلاصہ، تحریری صورت میں پیش نہیں کیا، حالانکہ درمیان میں دو دن کی چھٹی بھی تھی؟

بہرحال عامر رحمان کی بات ختم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے ان کی گفتگو میں اٹھائے جانے والے بعض نکات پر اپنی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا۔ (ان میں سے بعض نکات پر آگے بحث آرہی ہے۔) اسی طرح حامد خان صاحب نے بھی ایک بنیادی غلطی کی نشاندہی کی۔ انھوں نے کہا کہ بار بار ایف بی آر کی رپورٹ کا ذکر آرہا ہے لیکن یہ بات نہیں ہورہی کہ اس رپورٹ سے مراد کیا ہے؟

قانون کی رو سے کسی بھی ٹیکس دہندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ جب ایف بی آر اس کے ٹیکس گوشواروں کے متعلق اپنی رائے تیار کرے اور وہ اس سے مطمئن نہ ہو تو وہ متعلقہ فورم پر اس کے خلاف اعتراض کرے اور پھر آخری اپیل اعلیٰ عدلیہ تک جاسکتی ہے۔ جب تک جانچ پرکھ کے بعد حتمی دستاویز تیار نہیں ہوتی، اسے ٹیکس دہندہ کے خلاف استعمال کیا ہی نہیں جاسکتا، نہ ہی اسے وہ رپورٹ کہا جاسکتا ہے جس پر کوئی کارروائی ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسز سرینا عیسیٰ کو یہ موقع دیے بغیر صرف ایف بی آر کی جانب سے تیار کی گئی دستاویز کو حتمی رپورٹ کی صورت میں ماننا اور سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے رکھنا بھی ایک بڑی قانونی غلطی ہے جس سے بہت سارے دستوری و قانونی حقوق کی نفی کی گئی ہے۔

ان جوابی دلائل کے بعد بنچ نے آپس میں مشورہ کیا اور پھر جسٹس بندیال نے اعلان کیا کہ سماعت مکمل ہوگئی ہے اور بنچ آپس میں مشورہ کرکے آدھے گھنٹے میں یا تو مختصر فیصلہ سنا دے گا یا مختصر فیصلہ سنانے کےلیے کل کسی وقت کا اعلان کرے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ جسٹس بندیال کو اس وقت تک معلوم ہوچکا تھا کہ بنچ میں ان کی رائے سے اختلاف رکھنے والوں کا پلڑا بھاری ہوگیا ہے اور شاید وہ آدھے گھنٹے میں ان کو قائل نہ کرسکیں تو فیصلہ سنانے کا معاملہ اگلے دن پر ملتوی کرنا پڑے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے تقریباً ساڑھے تین دن لیے لیکن ان کے طویل خطبات میں کوئی اہم دلیل سامنے نہیں آئی۔ وہ بار بار مختلف پیرایوں میں درج ذیل تین نکات کی طرف آتے رہے:

ایک یہ کہ مسز سرینا عیسیٰ اگرچہ مقدمے میں فریق نہیں تھیں لیکن ان کا شنوائی کا حق (right to a hearing ) کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی نفی پر اس فیصلے کو غلط قرار دیا جاسکے کیونکہ فطری عدل (natural justice) کا اصول کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور اس سے کئی استثناءات ہیں اور یہ کہ مسز عیسیٰ کو یہ حق نہ دے کر محض ایک ضابطے کی کارروائی میں غلطی (procedural error ) کا ارتکاب کیا گیا ہے؛

دوسرا یہ کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے مسز سرینا عیسیٰ کو شنوائی دیے بغیر ان کے بارے میں فیصلہ دیا ہے لیکن ایک تو یہ فیصلہ مسز سرینا عیسیٰ کے ” خلاف “ نہیں ہے اور دوسرے، سپریم کورٹ کو دستور کی دفعہ 187 کے تحت اختیار حاصل ہے کہ مکمل انصاف (complete justice) کےلیے وہ کوئی بھی مناسب حکم جاری کرسکتی ہے؛

تیسرا یہ کہ خواہ عدالت کا یہ حکم غلط ہو لیکن اب جب اس کی تعمیل میں ایف بی آر نے رپورٹ تیار کرلی ہے اور سپریم جیوڈیشل کونسل میں جمع کرالی ہے، تو اب اس رپورٹ کو لغو اور کالعدم نہیں کیا جاسکتا اور اب کونسل اسے دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کرسکتی ہے کہ اس رپورٹ کے مندرجات قابلِ عمل ہیں یا نہیں؟
ادنی تامل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ہر ” دلیل “ انتہائی پھسپھسی ہے۔

پہلی دلیل کو لے لیجیے۔ شنوائی کا حق کسی بھی فرد کا بنیادی ترین حق ہے اور اسے عدل و انصاف کے نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ کیسے اس بنیادی ترین حق کو محض ایک ضابطے کی کارروائی قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر ” فطری عدل “ کیا چیز ہے؟ امریکی سپریم کورٹ کے مایہ ناز چیف جسٹس اولیور وینڈل ہومز نے ” فطرت “ سے استدلال کو اٹکل کے تیر چلانے سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ دلیل قانون سے لائی جانی چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے دستور کی رو سے، اور بالخصوص اٹھارویں ترمیم کے ذریعے دفعہ 10- الف (منصفانہ مقدمے کا حق/right to fair trial) کے اضافے کے بعد کیسے ایسی بات کہی جاسکتی ہے؟ مزید یہ کہ یہ اصول تو قرآن وسنت نے طے کیا ہے کہ ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سنی جائے۔ قرآن و سنت کے اس اصول کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟

” مکمل انصاف “ کےلیے سپریم کورٹ کے اختیار سے استدلال بھی نہایت حیرت انگیز تھا۔ ایک تو دفعہ 187 کے آغاز میں ہی تصریح کی گئی ہے کہ یہ اختیار دفعہ 175 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت ہی استعمال ہوگا۔ اب دفعہ 175 (2) دیکھیے تو وہاں تصریح کی گئی ہے کہ کسی بھی عدالت کے پاس صرف وہی اختیارِ سماعت ہے جو دستور یا قانون نے اسے دیا ہے۔

چنانچہ سب سے پہلے دفعہ 175 (2) کے تحت عدالت کا اختیارِ سماعت (jurisdiction)ثابت کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی دفعہ 187 کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات کی بات کی جاسکتی ہے، اور یہ بات طے ہے کہ کسی شخص کو سنے بغیر اس کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیار نہ ہی دستور نے، نہ کسی اور قانون نے، سپریم کورٹ کو دیا ہے۔

مزید یہ کہ دفعہ 187 کا اختیار ” مکمل انصاف “ کےلیے ہے، نہ کہ ناانصافی کےلیے، اور کسی کو سنے بغیر اس کے خلاف فیصلہ کرنا ناانصافی ہے۔ یہ دلیل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اعتراضات میں دی۔ بہ الفاظِ دیگر، اگر سپریم کورٹ کو کسی مقدمے میں اختیارِ سماعت حاصل ہو اور مقدمے کی سماعت کے بعد وہ یہ ضروری سمجھے کہ متاثرہ فریق کے ساتھ مکمل انصاف تب تک نہیں ہوسکے گا جب تک اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے کے خلاف، جسے باقاعدہ سنا گیا ہو، فلاں حکم بھی جاری نہ کیا جائے، تو وہ ایسا حکم جاری کرسکتی ہے۔ موجودہ معاملہ تو اس کے بالکل برعکس تھا کیونکہ یہاں اس اختیار کو ایک ایسے فرد کے خلاف استعمال کرنے کی بات کی جارہی تھی جس کے ساتھ پہلے ہی ناانصافی کی گئی تھی!

تیسری ” دلیل “ سب سے زیادہ افسوسناک تھی کیونکہ عامر رحمان صاحب جیسے منجھے ہوئے وکیل کو یہ بات تو یقیناً معلوم تھی کہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی معلومات کو عدالت یا کوئی بھی فورم قانونی کارروائی کےلیے زیرِ غور نہیں لاسکتا، قطعِ نظر اس سے کہ وہ معلومات درست ہیں یا غلط۔ یقیناً انھیں قانون کے اس اصول کا بھی علم ہوگا جسے ” زہریلے درخت کا پھل “ (fruit of the poisonous tree) کہا جاتا ہے۔

عام قارئین کے لیے اس اصول کا آسان الفاظ میں مطلب واضح کرتا چلوں کہ جب پولیس کسی سے تشدد یا اور غیر قانونی طریقے سے، جیسے غیر قانونی طریقے سے فون ٹیپ کرکے یا وڈیو ریکارڈ کرکے، کچھ باتیں معلوم کرلے، تو ان باتوں کو اس شخص کے خلاف عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا اور عدالت اس بحث میں جا ہی نہیں سکتی کہ یہ باتیں درست ہیں یا نہیں کیونکہ جس درخت کا یہ پھل تھا وہ درخت ہی زہریلا تھا تو اس کا پھل کیا چکھنا؟

یہ وہی بات ہے جسے اسلامی تراث میں بناء الفاسد علی الفاسد کی ترکیب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یاد ہوگا کہ جب ایک شخص نے کسی خاتون سے زنا کیا اور پھر اس کے اہلِ خانہ کے ساتھ صلح کرکے اسے سو بکریاں اور ایک لونڈی بدلِ صلح میں دے دی، تو اس کے بعد جب معاملہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے اس صلح کو باطل قرار دیا اور بدلِ صلح لوٹانے کا حکم دیا کیونکہ جب صلح ہی غلط تھی تو بدلِ صلح بھی غلط قرار پایا۔

اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ نے دورِ جاہلیت میں کیے گئے قتل کے دعاوی ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس کے بعد نہ صرف مدعیوں کا قصاص کا حق ختم ہوا بلکہ دیت یا بدلِ صلح کا حق بھی نہیں رہا۔ اذا بطل شیء، بطل ما فی ضمنہ اور المبنی علی الفاسد فاسد کے اصولوں کے تحت کئی فقہی جزئیات مل سکتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول اسلامی قانون نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے۔

یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل جب نیب کے جج کی وڈیو کا سکینڈل اٹھا تھا اور معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تھا تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایسی کسی بھی وڈیو کو بطورِ شہادت قبول کرنے کے سلسلے میں کئی شرائط ذکر کی تھیں۔ (میں نے اس پر تفصیلی پوسٹس پہلے ہی لکھی ہیں، اس لیے ان شرائط کا اعادہ یہاں نہیں کروں گا۔) ان شرائط کی رو سے ایف بی آر کی رپورٹ سرے سے قابلِ استناد ہی نہیں ہے، نہ ہی اسے بطور شہادت پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں آخری اہم بات وہ ہے جو حامد خان صاحب نے اپنے جوابی دلائل میں مختصراً ذکر کی تھی کہ ایف بی آر کی اس رپورٹ کی اس وقت حیثیت سوائے ایک دعوے کے کچھ نہیں ہے اور متاثرہ فریق ( مسز سرینا عیسیٰ ) کو اس پر اعتراض اور قانونی چارہ جوئی کا حق ہے اور جب تک یہ رپورٹ حتمی صورت اختیار نہ کرے، اسے شہادت کہا ہی نہیں جاسکتا۔ کیسے ایک فریق کے دعوے کو دوسرے فریق کے خلاف ثبوت مان لیا جائے؟

تقریباً 1 بجے بنچ اٹھ گیا تھا اور اس کے بعد انتظار رہا کہ آدھے گھنٹے میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا یا اگلے دن فیصلہ سنانے کی بات ہوگی؟ انتظار کا عرصہ لمبا ہوتا گیا اور بالآخر ڈیڑھ گھنٹے بعد تقریباً ڈھائی بجے جج صاحبان دوبارہ تشریف لے آئے۔ بنچ میں موجود سب سے جونیئر جج جسٹس امین الدین خان پہلی دفعہ ماسک کے بغیر نظر آئے۔ سب سے سینئر جج جسٹس بندیال کے چہرے پر بہت تناؤ نظر آیا جبکہ جسٹس مقبول باقر بھی ماسک اتارے ہوئے تھے اور مسکرارہے تھے۔

یہ دیکھ کر کچھ تو اندازہ ہوگیا کہ فیصلہ کیا ہوا لیکن سسپنس پھر بھی باقی رہا اور اس سسپنس میں سب سے اہم کردار جسٹس منظور ملک کا تھا کیونکہ ساری سماعت میں انھوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے معلوم ہوتا کہ ان کے ذہن میں کیا ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنانا شروع کیا کہ چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے، اور پھر یہاں تھوڑا بریک لیا تو سب کی سانسیں رک گئیں کہ چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے نظرِ ثانی کی درخواستیں مسترد کی جارہی ہیں یا قبول؟ انھوں نے بات آگے بڑھائی کہ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سید سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین الدین اختلاف کرتے ہوئے ( تو معلوم ہوگیا کہ اکثریت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں ہے) ، نظرِ ثانی کی درخواستیں قبول کی جاتی ہیں ، البتہ ایک درخواست کو پانچ پانچ کی تقسیم کی وجہ سے مسترد کیا گیا ہے۔

چنانچہ اس بنچ کا 19 جون 2020ء کا فیصلہ منسوخ ہوگیا ہے اور اس کے تحت جاری کےجانے والے تمام احکام واپس لے لیے جاتے ہیں اور نتیجتاً اس کے تحت اٹھائے جانے والے تمام اقدامات غیر قانونی قرار پاتے ہیں۔ چنانچہ اس حکم کی وجہ سے ایف بی آر کی تیار کی گئی رپورٹ بھی واپس لی جاتی ہے اور اسے سپریم جیوڈیشل کونسل سمیت کسی فورم پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ آگے انھوں نے جسٹس یحیٰ آفریدی کا الگ سے لکھا گیا نوٹ بھی پڑھا جس میں انھوں نے قرار دیا تھا کہ باقی درخواستیں وہ قبول کررہے ہیں، البتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پٹیشن کو وہ حسبِ سابق مسترد کررہے ہیں ۔ (اس وجہ سے باقی درخواستیں چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے قبول کی گئیں جبکہ ایک درخواست پانچ پانچ کی تقسیم کی وجہ سے مسترد ہوگئی لیکن عملاً اس سے کچھ فرق واقع نہیں ہوا۔)

اس کے بعد عدالت برخاست ہوگئی اور لوگوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلِ خانہ کو مبارک بادیں دینی شروع کیں۔ ایک طویل جنگ، جو دو سال سے زائد عرصے تک جاری رہی اور جس میں ریاست، بلکہ "گہری ریاست”، کی جانب سے تمام وسائل استعمال کیے گئے، بالآخر حق و انصاف کی فتح پر ختم ہوگئی، و الحمد للہ!
اس فیصلے کے اثرات پر بھی بات کریں گے اور اس کے بعد اس کے متعلق سوشل میڈیا پر اٹھنے والے چند سوالات کا جواب بھی دیں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس مقام پر نظرِ ثانی کے اس کیس کے مختلف مراحل میں بنچ میں موجود جج صاحبان کی تقسیم کے متعلق تھوڑی سی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔

1۔ جب 19 جون 2020ء کو فیصلہ آیا تھا تو دس رکنی بنچ نے بالاتفاق صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔ البتہ 9 جج صاحبان نے تمام درخواستیں قبول کی تھیں لیکن جسٹس یحیٰ آفریدی نے باقی درخواستیں قبول کرتے ہوئے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست مسترد کردی تھی کیونکہ ان کے نزدیک جسٹس صاحب کو درخواست گزار نہیں بننا چاہیے تھا اور یہ کام سپریم کورٹ بار وغیرہ کی جانب سے ہونا ہی کافی تھا۔

اس کے بعد جسٹس یحیٰ آفریدی نے جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے ساتھ اتفاق کیا کہ جب ریفرنس ہی بدنیتی پر مبنی تھا تو معاملہ یہیں پر ختم ہوگیا ہے اور سپریم کورٹ کو مزید اس ضمن میں کسی کارروائی کا حکم نہیں دینا چاہیے۔ تاہم 7 جج صاحبان نے ایف بی آر کو حکم دیا کہ وہ مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کے معاملات کا جائزہ لے کر تین مہینوں میں اپنی رپورٹ سپریم جیوڈیشل کونسل میں پیش کرے اور پھر کونسل مناسب سمجھے تو اس رپورٹ کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے کہ کیا اس کی بنا پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے یا نہیں (بہ الفاظِ دیگر، ریفرنس کو ختم کرکے پھر زندہ کردیا)۔

2۔ فیصلے کے اس جزو کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں، تو ابتدا میں سماعت کےلیے 7 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا لیکن پھر جسٹس فیصل عرب کےریٹائر ہونے کے بعد 6 رکنی بنچ نے ان کی سماعت کی۔ اس بنچ کی ساخت پر اعتراض کیا گیا کہ نظرِ ثانی کی سماعت 10 رکنی بنچ کو ہی کرنی چاہیے۔ اس سوال پر 6 رکنی بنچ نے یہ بات تو بالاتفاق مان لی کہ بنچ میں 10 ارکان ہونے چاہئیں، لیکن جسٹس بندیال نے مزید یہ قرار دیا کہ بنچ میں انھی جج صاحبان کا ہونا ضروری نہیں ہے جنھوں نے اصل فیصلہ سنایا تھا اور مزید یہ کہ جن جج صاحبان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا، نظرِ ثانی کے مرحلے پر انھیں حتی الامکان خاموش رہنا چاہیے تاکہ وہ بنچ کے دوسرے جج صاحبان پر اثرانداز نہ ہوں۔

ان دونوں امور پر جسٹس منظور ملک نے ان سے اختلاف کیا جس کا ذکر 22 فروری 2021ء کو جاری کیے جانے والے مختصر حکم نامے میں کیا گیا لیکن جسٹس منظور ملک کی جانب سے تفصیلی دلائل نہیں آئے۔ (یہ تفصیلی فیصلہ انھوں نے پچھلے ہفتے جاری کردیا ہے اور اس پر مختصر بات آگے آئے گی۔)

3۔ اس کے بعد جب 10 رکنی بنچ نے نظرِ ثانی کی درخواستوں کی باقاعدہ سماعت کی تو پہلے مرحلے میں اسے اس سوال پر فیصلہ دینا پڑا کہ کیا اس سماعت کی براہِ راست نشریات کی اجازت دی جائے یا نہیں؟ اس سوال پر 10 رکنی بنچ یوں تقسیم ہوا کہ 5 جج صاحبان نے اسے انتظامی معاملہ قرار دے کر اسے چیف جسٹس کی طرف بھیجنے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ وہ مناسب سمجھیں تو فل کورٹ کا اجلاس بلا کر اس پر پالیسی طے کریں۔

البتہ 5 جج صاحبان براہِ راست نشریات کو عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کےلیے ضروری قرار دیا۔ البتہ ان میں 4 جج صاحبان نے موجودہ کیس سے ہی براہِ راست نشریات کا حکم دیا لیکن جسٹس یحیٰ آفریدی نے قرار دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پٹیشنر بننا ہی نہیں چاہیے تھا، اس لیے اس کیس کی حد تک انھوں نے درخواست مسترد کردی۔

چنانچہ 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے یہ درخواست مسترد ہوگئی، لیکن اصولی سوال پر بنچ 5، 5 میں تقسیم ہوگیا تھا جس سے یہ معلوم ہوا یہ سوال اب بھی کسی مقدمے میں اٹھایا جاسکتا ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ اس موقع پر 7 رکنی اکثریت سے 2 جج صاحبان (جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل) دوسری طرف ہوگئےتھے۔ یہ حکم 13 اپریل 2021ء کو جاری کیا گیا ۔

4۔ آخری مرحلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا جانا تھا اور اس مرحلے پر جسٹس بندیال کے ساتھ مزید 3 جج رہ گئے اور ایک جج (جسٹس امین الدین خان) نے باقی 5 جج صاحبان کے ساتھ اتفاق کیا۔ یاد رہے کہ جسٹس امین الدین خان کو جسٹس فیصل عرب کے ریٹائر ہونے کے بعد بنچ میں 10 کی تعداد پوری کرنے کےلیے شامل کیا گیا تھا۔ یوں 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے نظرِ ثانی کی درخواستیں منظور کی گئیں۔ البتہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے ایک دفعہ پھر باقی درخواستیں قبول کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست مسترد کردی کیونکہ ان کے نزدیک انھیں پٹیشنر بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ اصل فیصلے کے وقت جو 7 رکنی اکثریت تھی، اس میں 4 جج صاحبان اپنے فیصلے پر برقرار رہے لیکن 2 نے اپنی راے تبدیل کرلی اور 1 نئے جج بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔ اسی طرح اصل فیصلے میں جو 3 رکنی اقلیت تھی وہ نظرِ ثانی کے مرحلے پر بھی اپنی رائے پر قائم رہی لیکن 3 مزید جج صاحبان کے آنے کی وجہ سے اب ان کے فیصلے کو اکثریتی فیصلے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے مرحلے پر کئی فیصلے دیکھنے کو ملیں گے۔

ایک فیصلہ جسٹس بندیال لکھیں جس میں دیگر 3 جج صاحبان کی بھی نمائندگی کرتے ہوئے یہ بتائیں گے کہ نظرِ ثانی میں بھی کیوں وہ اپنے سابقہ فیصلے پر قائم رہے۔

جسٹس مقبول باقر اب اکثریت کےلیے فیصلہ لکھیں گے جس سے 5 جج صاحبان اتفاق کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی حسبِ سابق الگ الگ فیصلے بھی لکھیں۔

اسی طرح غالب امکان ہے کہ جسٹس منظور ملک الگ فیصلہ لکھیں گے جس میں وہ دکھائیں گے کہ نظرِ ثانی کے مرحلے پر انھوں نے اپنی راے کیوں تبدیل کی اور سابقہ فیصلے میں کیا واضح غلطی تھی۔ جسٹس مظہر عالم ان کے ساتھ اتفاق کریں گے یا الگ فیصلہ بھی لکھ سکتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ جسٹس امین الدین خان الگ سے فیصلہ لکھ کر بتائیں کہ وہ کیوں اس نتیجے پر پہنچے کہ سابقہ فیصلہ غلط تھا کیونکہ وہ سابقہ فیصلے کے وقت بنچ میں شامل نہیں تھے۔
( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں