مسلمان خاتون ماسک پہنے دعا مانگ رہی ہے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 10 واں اور آخری حصہ )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :

پہلے یہ پڑھیے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 1 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 2 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 3 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 4 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 5 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 6 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 7 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 8 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو ؟ ( 9 )

نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کی بد بختی کی نشان دہی کی ہے جو رمضان المبارک کو پائے اور اللہ رب العالمین سے اپنے گناہوں کی بخشش نہ کروا سکے.

اسی بدبختی اور اللہ اس کے رسول کی ناراضی سے بچنے کے لیے ہر مسلمان کو بھر پور محنت اور کوشش پوری لگن کے ساتھ کرنی چاہیے.
رمضان المبارک کے بارے میں سورہ البقرہ میں مندرجہ ذیل آیت میں قرب الہی کی شان ممتاز نظر آتی ہے۔

( اور اے نبی ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں ، تو انھیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں ، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ لہذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انھیں سنا دو ، شاید کہ وہ راہ راست پالیں)
[سورہ البقرہ 186]

بندوں کے لئے محبت ایسی کہ بندہ سر شار ہوجائے ، براہ راست تعلق بغیر کسی واسطے کے ہر وقت ہر جگہ ، ہر حال میں.. سبحان اللہ !

مؤمن کا جب رب سے ناتا جڑتا ہے تو وہ اپنی سب سے عزیز ترین خواہش کا اظہار کرتا ہے..سچا مؤمن تو اپنے رب سے بخشش اور مغفرت کا ہی طلب گار ہوتا ہے. لیلة القدر میں کیا طلب کرنا ہے اللہ کے محبوب نے بتا دیا
” اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی “

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جس نام سے اس سے معافی طلب کی جا رہی ہے ، وہ ” العفو “ ہے. یہ وہ صفت ہے جس کی بناء پہ اللہ العفو اپنے بندے کے گناہوں کو اس طرح مٹا دیتا ہے کہ ان کا نام و نشان بھی نہیں رہتا. نہ اثرات باقی رہنے دیتا ہے نہ ہی ان گناہوں کے بارے میں سوال ہوگا۔

قیامت کے دن جب انسان کے جسم کے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے وہ گناہ کا مقام اور اشیاء اس کے خلاف گواہ ہوں گے مگر جس کے ساتھ عفو و کرم کا معاملہ کیا جائے گا اسے ان سب سے امن مل جائے گا کیونکہ اللہ العفو نے سب اثرات کو ختم کر دیا ہوگا. گناہ کا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا، بندے سے راضی ہوگا اور نعمتوں بهری جنت سے نوازے گا۔

لیلة القدر اگر اللہ کے اس پیارے نام کو سامنے رکھتے ہوئے معافی کی درخواست تہہ دل سے پورے یقین سے بار بار اس کی بارگاہ میں پیش کی جائے ہر وقت اٹھتے بیٹھتے، رکوع و سجود میں نماز کے بعد تو دل میں روحانی سکون کی کیفیت پیدا ہوگی اور اگر ہمیں لیلة القدر نصیب ہوئی تو گویا ہم نے مسلسل تقریباً چوراسی سال اللہ سے عفو وکرم طلب کرنے میں گزارے.

بندے کو اگر اتنی مدت اللہ سے عفو و کرم مانگنے کے لئے مل جائے تو اس رب کی رحمت سے پورا یقین ہے کہ اسے اپنا مدعا حاصل ہوگیا۔ اسی طرح جو دنیا مانگے گا دنیا کی طلب پوری ہوگی ہر کسی کا ظرف ہے کہ وہ کیا مانگتا ہے.

قرآن پاک میں اللہ العفو نے جہاں بھی اپنی صفت کا ذکر فرمایا بڑے گناہوں کو معاف کرنے کے حوالے سے فرمایا.سورہ البقرہ آیت 51-52 میں ذکر ہے کہ بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود بنا کر شرک کیا تو اللہ العفو نے فرمایا :
ثم عفونا عنکم من بعد ذالک لعلکم تشکرون
یعنی معافی ملنے کے بعد تشکر کا رویہ لازمی ہے۔ احد کے میدان میں جب مسلمانوں نے کمزوری دکھائی مگر اللہ العفو نے فرمایا ” ولقد عفا عنکم “
اللہ العفو جنت کے طلب گار کو اپنے عفو و کرم کی یقین دہانی کراتا ہے۔

طاق رات میں ہو سکتا ہے ہمارے نصیب میں وہ گهڑی لکھ دی گئی ہو جب اللہ العفو پوری شان سے ہماری طرف متوجہ ہو اور منتظر ہو ہماری آواز کا ہمارے ندامت سے نکلے آنسوؤں کا ہماری آہوں کا. ہمیں اپنے دامن عفو میں چھپا لینے کے لئے بے تاب ہو۔

آئیے ! ہم سب اس مبارک گهڑی کی تلاش میں مگن ہو جائیں..
اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا
اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا
اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں