نگہت حسین :
ایک باحجاب خاتون نے ایک اسلامک اسکول میں جاب کرنے کے بارے میں مشورہ لیا تو بس ٹریک سے ہٹ کر یہ کہا کہ جس باحجاب حلیے میں وہ جاب کے لئے اسلامک اسکول جانا چاہ رہی ہیں ہر گز نہ جائیں۔
بڑی حیران ہوئیں ۔ حیرانی کی وجہ بھی تھی کہ وہ اسے جاب کے حوالے سے ایک خوبی سمجھ رہی تھیں اور ہم اسے خامی ۔
انھیں سمجھایا کہ یہ مشن بیسڈ اسلامک ادارے جتنا استحصال اپنے نظریاتی مخلص اور سمجھ دار لوگوں کا کرتے ہیں اتنا کسی کا نہیں لہذا اگر اچھی تنخواہ اور انتظامیہ سے برابری کے معاملات رکھنے ہیں تو ایک ماڈرن حلیہ آپ کے لئے بہت کارآمد ہے ۔ ٹیڑھے منہ کے ساتھ انگریزی بولنے کی صلاحیت اس پر چار چاند لگا دے گی ۔
انٹرویو لینے والے آپ کی قابلیت صلاحیت کے ساتھ اپنے ادارے کے انتخاب پر حیران تو ہوں گے ہی آپ کے حلیے پر الگ سے واری جائیں گے اور آپ کو مسلمان بنانے کے لئے انتہائی بھاری تنخواہ پر بہت ہی عزت سے جاب طشتری میں رکھ کر پیش کریں گے ۔ وہ بہت ہنسیں ، شاید میری باتوں کے انداز سے مذاق سمجھی رہی تھیں ۔
حالانکہ میں نے منفیت پھیلانے والی ایسی باتیں جان بوجھ کر ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کی تھیں ۔
” اسلامی “ کے تڑکے کے ساتھ اداروں میں کام کا یہی تجربہ رہا کہ کم تنخواہ پر زیادہ کام ، خلوص اور نظریات سے وابستگی کو کمزوری سمجھ کر استعمال کرنا ، نظریاتی اور مخلص لوگوں سے ہر وقت تنگی داماں ہونے کی شکایت کرنا جبکہ دوسرے مواقع پر خزانوں کے منہ کھول دینا ۔
جتنا زیادہ کام کابوجھ اور کارکنوں سے توقع ان اداروں میں رکھی جاتی ہے، بہت زیادہ غیر حقیقی ہوتی ہے ۔لوگ گھر بار چھوڑ کر ایسے کام کرتے ہیں جیسے کسی انقلاب کے لئے ۔
کام کے بوجھ تلے دبے ہوئے مشین کی طرح لگے ہوئے افراد بنیادی اخلاقی صفات سے عاری ہوجاتے ہیں۔
پھر یہی ادارے کسی ایسے فرد پر دل پھینک کر ہر وہ مراعات اس کے نام کر رہے ہوتے ہیں جو بعد میں خود اداروں کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتاہے ۔ اس سے دوسروں لوگوں میں ظاہر ہے بددلی پھیلتی ہے ۔
ایک تو یہ نظریاتی لوگ ہوتے بھی بڑے بے چارے سے ہیں ، کم تنخواہ پر مالی فوائد کے ساتھ کام کرنے والے اداروں کے لئے ایسے کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں جیسے سب سے بڑی یہی نیکی ہے۔ پھر جاب میں ہونے والے سلوک اور رویہ کی وجہ سے ہمہ وقت بے چین رہتے ہیں۔
خوشی ہوتی ہے کہ اس زمانہ کے نئے بچے بڑے ہوشیار ہیں، کچھ آتا ہو یا نہیں ، بہرحال منہ پھاڑ کر تنخواہ مانگتے ہیں ، بالکل شرمندہ نہیں ہوتے ۔ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ وہ لرننگ فیز میں ہیں یا ایکسپرٹ ہوگئے ہیں ۔ اس معاملے میں پیروں کے استاد ہی ثابت ہورہے ہیں قطع نظر اس کے کہ یہ اپروچ بھی کوئی بہت خوش گوار نہیں لیکن اپنا استحصال کروانے سے حد درجہ بہتر ہے ۔
نیت صرف افراد کی ہی نہیں اداروں اور تحریکوں کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ اخلاص عمل کی شرط یہی ہے ، نتائج اسی سے نکلتے ہیں ، کام اسی سے مؤثر ثابت ہوتا ہے ورنہ قدم ہمیشہ ہی ڈگمگاتے رہتے ہیں۔
ہم ملازمین اور اپنے ادارے کے باصلاحیت ، پرخلوص لوگوں کو استعمال کرنے اور ٹشو پیپر کی طرح رکھنے کی ذہنیت رکھیں گے تو نتائج بھی ویسے ہی ملیں گے۔ ذہنی مرعوبیت اور افراد کار کے استحصال کی بڑی بری مثالیں ان کی انتظامیہ کی ہوتی ہیں ۔
زیادہ سے زیادہ کام کم پیسوں اور مفت میں بہت کچھ کروانے کی تمنا ہوتی ہے ۔ پیسوں پر بات کی جائے تو ایک عجیب قسم کا احسان جتانے والا رویہ سامنے آتا ہے ۔ بارہا یہی تجربہ رہا ہے کہ مفت کے کاموں یا کم پیسوں پر کام کے بعد چلتا کرنا اور اپنی ضرورت کے وقت بڑے بڑے پروجیکٹ پر کام کروانے کے بعد دودھ کی مکھی کی طرح نکال دینا ایک وتیرہ ہے ۔ اس سے زیادہ مزہ کھرے اور دو ٹوک افراد کے ساتھ ہے جو اپنے ساتھ کم از کم اسلامی کا تڑکہ نہیں لگاتے ہیں ۔
انتظامیہ اور افراد کے یہ پرانے ماڈل اور ان کے طریقہ کار کہیں سے بھی اسلامی تو کیا پروفیشنل بھی نہیں ہوتے اور شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ملازمین کی تربیت سے پہلے انتظامیہ کو ٹھیک ٹھاک مینجمینٹ اور لیڈرشپ کی تربیت لینے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کہ اس کے بعد یہ انتظامیہ بننے سے توبہ کرلیں یا اپنے ظلم کا اعتراف کر کے معافی مانگ لیں ۔
بہرحال
باصلاحیت مخلص افراد کے لئے یہی مشورہ ہے کہ کھرا کام کرتے ہیں تو ایسی انتظامیہ اور ایسے افراد کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں، چاہے کتنا بھی بڑا نام ہو۔ میٹھی میٹھی باتوں سے گھیر کر لانے والے اور ان سے استحصال کروانے کے بعد بہت سا وقت گزر جاتا ہے اور سیکھنے سکھانے کے بہت اچھے مواقع ضائع ہوجاتے ہیں ۔
اپنی دنیا آپ پیدا کریں ، اپنی اہلیت میں اضافے کی کوشش کریں ۔اچھے مواقع کو ضرور آزمائیں ۔
آج اس تلخ حقیقت پر بات کرکے منہ کڑوا کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔