خانہ کعبہ ، بیت اللہ ، مکہ مکرمہ سعودی عرب

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 9 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :

پہلے یہ پڑھیے

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 1 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 2 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 3 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 4 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 5 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 6 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 7 )

رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 8 )

خطأ وہ عمل ہے جو نیت اور ارادے کے بغیر اتفاقاً ہوجائے. جیسے چلتے چلتے کسی کے پاؤں پہ پاؤں آجائے یا ٹھوکر لگ جائے . ہاتھ سے کو چیز چھوٹ کر ٹوٹ جائے، کچھ رقم وغیرہ گننے میں غلطی ہو جائے۔ اس میں ایک اور چیز ہوتی ہے اشتباہ، یعنی کسی کام یا چیز میں شبہ ہو جائے. ایک جیسی چیزوں میں سے کسی کی چیز اپنی سمجھ کر اٹھالی . وغیرہ

ایک اور معاملہ ہوتا ہے نسیان یعنی بھول جانا، نماز میں کچھ عمل بھول جانا یا شبہ ہونا، بھول کر روزے میں کچھ کھا لینا، کسی کا کام وعدے کے مطابق کرنا یا مقررہ وقت میں ملنا بهول جانا وغیرہ

نسیان اور خطا یا اشتباہ کی بنیاد پہ کوئی بھی عمل قابل گرفت نہیں ہوتا. ان کے لیے بھی دعا سکھائی گئی ہے
ربنا لا تواخذنا ان نسینا أو أخطأ نا

لوگوں کو تکلیف ان جانے میں پہنچنے پہ ان سے معذرت کرنا ضروری ہے اور عذر قبول کرنا بھی اخلاق حسنہ ہے۔

دل میں آنے والے منفی خیالات بھی قابل گرفت نہیں إلا یہ کہ زبان سے اظہار ہو یا عمل میں لے آیا جائے.

انسانوں کے بے شمار نا پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ اپنی رحمت واسعہ کی نسبت سے معاف کرتا رہتا ہے. اگر اللہ ہر ناپسندیدہ عمل پہ گرفت کرتا تو کوئی جاندار زندہ رہنے کا حق دار نہ ہوتا.
یہ اللہ کا بندوں پہ کرم ہے کہ وہ ” یعفوا عن کثیر “ کا معاملہ کرتا ہے.

نسیان ، خطا یا دل کے خیالات پہ انسان ضمیر میں ویسی خلش بھی محسوس نہیں کرتا جو گناہ سرزد ہونے پہ ہوتی ہے۔ گناہ وہی ہے جس کے ظاہر ہوجانے پہ انسان کو رسوائی کا ڈر ہو معاشرے سے ، والدین بہن بھائیوں سے چھپائے تو ان کا گنہ گار ہے ، میاں یا بیوی ایک دوسرے سے اپنے غیر اخلاقی کام چھپائیں تو وہ حق تلفی اور گناہ ہے مگر انسان کتنا نادان ہے. اپنے جیسے لوگوں سے چھپاتا ہے وہ جو علیم بذات الصدور ہے اس کے سامنے حاضر ہونے اور حساب دینے سے نہیں ڈرتا۔

وہ جو ذرہ برابر نیکی اور برائی کو سامنے لے آئے گا، اسی نے ہمیں اپنا احتساب کرنے اور اصلاح کر نے لئے قرآن اتارا..
کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی تقسیم خود قرآن نے کی ہے ۔ مثال کے طور پر قرآن میں بیان ہوتا ہے:

جن بڑے بڑے گناہ کے کاموں سے تمہیں منع کیا گیا ہے اگر تم ان سے بچتے رہے تو ہم تمہاری (چھوٹی موٹی) برائیوں کو تم سے (تمہارے حساب سے) محو کردیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔ (النساء : 31 )

ایک اور مقام پر کبیرہ گناہوں کا ذکر آتا ہے:
اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں۔(الشوریٰ : 37 )

ان آیات مبارکہ سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی تفریق موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ہم بڑے بڑے گناہوں سے بچتے رہیں تو چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو اللہ معاف کردیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبیرہ اور صغیرہ گناہوں میں فرق کیا ہے اور کس گناہ کو کبیرہ اور کسے چھوٹا سمجھا جائے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے اور اس پر مختلف علماء کی مختلف اپروچز ہیں۔ کچھ علماء گناہوں میں اس تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر گناہ اللہ کی معصیت یعنی نافرمانی ہے اور یہ نافرمانی چونکہ ایک عظیم ہستی کے حکم کی ہے اس لئے ہر گناہ کبیرہ گناہ ہی ہے۔ اصول کے اعتبار سے یہ بات درست ہے لیکن عملی طور پر صحیح نہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل خود قرآن کی اوپر بیان کردہ آیات ہیں جو کبیرہ و صغیرہ گناہوں میں تفریق کرتی ہیں۔

صغیرہ گناہوں کی نوعیت

قرآن میں صغیرہ گناہوں کی کوئی فہرست نہیں دی گئی لیکن کچھ اشارات ہیں جن کی بنیاد پر ہم آسانی سے اس تفریق کو سمجھ سکتے ہیں۔ پہلا اشارہ تو اس آیت سے ملتا ہے جس میں صغیرہ گناہوں کی وضاحت کردی گئی کہ یہ کون سے گناہ ہیں:
جو کبیرہ گنا ہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اِلا یہ کہ چھوٹے گناہ (ان سے سرزدہوجائیں) بلاشبہ آپ کے پروردگار کی مغفرت بہت وسیع ہے۔(النجم : 32 )

اس کامطلب ہے کہ وہ گناہ جو بس چلتے پھرتے اچانک سرزد ہوجائیں وہ صغیرہ گناہ ہیں۔
مثال کے طور ایک شخص پابند ہے کے وہ آفس وقت پر پہنچے۔ وہ ایک دن دفتر لیٹ پہنچتا ہے تو یہ کسی بڑے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں اس لئے قابل معافی ہے اور اس پر عام طور پر افسران کوئی خاص سرزنش بھی نہیں کرتے اور خود ہی معاف کردیتے ہیں۔

دوسری جانب اگر یہی صاحب کسی فراڈ میں ملوث پائے جائیں تو ایک بڑا جرم ہے ۔ یہی بات دین میں بھی ہے کہ وہ گناہ جو عام معمولات میں سرزد ہوجاتے ہیں وہ چھوٹے گناہوں میں آتے ہیں جیسے کسی نامحرم پر نظر کا پڑ جانا، منہ سے کوئی بات نکل جانا وغیرہ۔

دوسری بات یہ پتا چلتی ہے کہ وہ گناہ جو اللہ تعالیٰ خود ہی معاف کردیں یا وہ جو نیکیوں کی بنا پر خود بخود مٹ جائیں وہ گناہ صغیرہ ہیں جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:

” اور دن کے دونوں سروں ( یعنی صبح و شام ) کے اوقات میں اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ان کے لئے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنیوالے ہیں“ ۔[ھود : 114 ]

یہی اصول اس حدیث میں بھی بیان ہوا ہے:
” سعید بن عاص سے روایت ہے کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر تھا آپ نے وضو کے لئے پانی منگوا کر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ جو مسلمان فرض نماز کا وقت پائے اور اچھی طرح وضو کرے اور خشوع وخضوع سے نماز ادا کرے تو وہ نماز اس کے تمام پچھلے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے گی بشرطیکہ اس سے کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ ہوا ہو اور یہ سلسلہ ہمیشہ قائم رہے گا“۔( صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 543)۔

یعنی بے شمار نیکیاں ایسی ہیں جن کے کرنے پر گناہوں کو مٹادیا جاتا ہے جس میں نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ، مصیبت پر صبر وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کا مطلب ہے صغیرہ گناہ وہ ہیں جو یا تو اللہ تعالیٰ خود ہی معاف کردیتے ہیں یا پھر وہ عام نیکیوں سے مٹ جاتے ہیں لیکن ہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک گناہ اگر چھوٹا ہے لیکن اس پر اصرار کیا جارہا ہے یا اس کے کرنے کی نیت خدا سے بغاوت یا دین کا مذاق اڑانا ہے تو وہ کبیرہ گناہ میں بدل جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک شخص بار بار کسی نامحرم کو دیکھ کر لذت حاصل کررہا ہے اور وہ گناہ کو چھوڑنے کی کوئی کوشش نہیں کررہا تو یہی گناہ کبیرہ میں بدل جاتا ہے۔

کبیرہ گناہوں کی نوعیت

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کیا ہیں۔ یہ وہ گناہ ہیں جو انسان نے جانتے بوجھتے کئے ہیں اور ان کی نوعیت کوڈ آف کنڈکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کسی بھی گناہ کے کبیرہ ہونے کے لئے درج ذیل میں سے کوئی ایک شرط کا پورا ہونا ضروری ہے:

1۔ وہ گناہ جن کے ارتکاب پر آخرت میں کسی عذاب کا ذکر کیا گیا ہو یا اس گناہ پر لعنت یا غضب کا اظہار کیا گیا ہو۔

2۔ وہ گناہ جس کے کرنے پر قرآن یا سنت میں کوئی سزا اس دنیا میں مقرر کی گئی ہو وہ کبیرہ ہے۔ مثال کے طور پر چوری، زنا، بہتان، شراب پینا ، نا حق قتل ، ڈاکہ زنی وغیرہ شامل ہیں۔

3۔ صغیرہ گناہ کرنے والے نے اس گناہ کو ترک کرنے کی بجائے اس پر اصرار کیا ہو۔
4 ۔ وہ گناہ جو بظاہر تو معمولی ہو لیکن کرنے والے نے اللہ ، رسول یا اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور تحقیر کرنے کی نیت سے وہ کام کیا ہو۔

ان معیارات پر اگر ہم غور کریں تو کبیرہ گناہوں کی درج ذیل فہرست سامنے آتی ہے جو حتمی تو نہیں لیکن کافی حد تک کبیرہ گناہوں کا احاطہ کرتی ہے:

1۔ ایمانیات میں شرک اور کفر، رسول کا انکار و تحقیر، آخرت کا انکار، ملائکہ اور اللہ کی نازل کردہ کتابوں کا انکار گناہ کبیرہ ہے ۔

2 ۔ عبادات میں نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، جمعہ ، عیدین، فطرہ وغیرہ کو ترک کردینا بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔

3 ۔ تعلق باللہ میں اللہ یا اس کی شریعت کے حوالے سے جھوٹی بات منسوب کرنا، بدعت، غیراللہ کی قسم کھانا، مشرکانہ توہم پرستی وغیرہ کبیرہ گناہ ہیں۔

4 ۔ مردو زن کے تعلق میں زنا ، لواطت، بے حیائی ،حلالہ اور حدود مباشرت کی خلاف ورزی کرنا
5 ۔ خاندانی امور میں والدین سے بدسلوکی،رحمی رشتوں سے قطع تعلق ،طلاق و عدت میں شریعت کی خلاف ورزی وغیرہ اس میں شامل ہیں۔

6 ۔ اخلاقیات میں ہر قسم کا ظلم گناہ کبیرہ ہے۔ کسی کو ناحق قتل کرنا، چوری، ڈاکہ زنی، املاک کو نقصان پہنچانا،لڑائی جھگڑا، ہتھیار دکھا کر ڈرانا، جادو ٹونہ،بدعہدی، خیانت یا کسی اور قسم کا ظلم بھی اس میں شامل ہیں۔

7 ۔ بات چیت میں جھوٹ بولنا، تہمت یا الزام تراشی،غیبت، عیب جوئی، گالی یا لعنت دینا،فحش گوئی، مسلمان کو کافر کہنا، برے القاب سے پکارنا، تحقیر کرنا یا جھوٹی گواہی دینا وغیرہ شامل ہیں۔

8 ۔ رویوں میں تکبر، منافقت، خود غرضی،دھوکا دہی، حسد، کینہ و نفرت وغیرہ آتے ہیں۔

9 ۔ معیشت میں سودی کاروبار، جوا یا سٹہ کھیلنا،اسراف، بخل، ناپ تول میں کمی، ناجائز ذخیرہ اندوزی،اشیاء میں ملاوٹ اور حرام اشیاء کا کاروبار شامل ہیں۔

10 ۔ خورو نوش میں سور، مردار، خون اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ حرام ہے ۔ ان کے علاوہ شراب اور نشے کی اشیاء کا استعمال بھی ممنوع ہے۔ان کے علاوہ وہ جانور جو سنت کی رو سے حرام ہیں ان کا کھانا بھی گناہ کبیرہ ہے۔

11 ۔ ان امور کے علاوہ بے کئی معاملات اور بھی ہیں جو گناہ کبیرہ کی فہرست میں آسکتے ہیں لیکن یہ کنڈشنل ہیں جیسے اگر اسلامی ریاست جہاد کا اعلان کرے تو جہاد سے فرا ر ہونا،ناپاکی، ایذا رسانی وغیرہ۔

گناہ کبیرہ کی معافی

کبیرہ گناہ کا ارتکاب کوڈ آف کنڈکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے اس لئے یہ لازم ہے کہ گناہ گار پشیمان ہو اور اللہ سے توبہ کرکے انہیں آئیندہ نہ کرنے کا عہد کرے، یعنی کبیرہ گناہ خود بخود معاف نہیں ہوتے بلکہ ان کے لئے توبہ کرنا ضروری ہے۔ یہاں تک کہ یہ گناہ حج و عمرہ، رمضان کے روزے ، نماز، زکوٰۃ یا دیگر نیکیوں سے اس وقت تک نہیں مٹتے جب تک کہ ان پر نادم ہوکر ان کی تلافی (اگر ممکن ہو) نہ کردی جائے ۔

مثال کے طور پر ایک شخص نے ایک ماہ کے رمضان کے روزے نہیں رکھے ۔ اب اگر وہ اگلے سال حج کرلیتا ہے تو ایسا نہیں کہ اس کے رمضان کے روزے معاف ہوجائیں گے۔ اسے اپنے گناہ کی توبہ کرنی ہوگی اور ساتھ ہی قضا روزے رکھنے ہوں گے۔ اسی طرح اگر ایک شخص نے کسی کی زمین ہتھیائی ہوئی ہے تو حج کرنے یا روزے رکھنے سے یہ گناہ اس کے نامہ اعمال سے نہیں مٹادیا جائے گا۔

کبیرہ گناہ کسی دوسرے شخص کی دعائے مغفرت یا سفارش یا ایصال ثواب سے بھی نامہ اعمال سے نہیں مٹائے جاتے جب تک کہ بندہ خود کوئی اقدام نہ کرے۔

رمضان المبارک کی ساعات ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ وقت گزاریں اور شب قدر کی تلاش میں دهیان لگائیں جو مسنون اور قرآنی دعائیں ہیں ان کو دل کی گہرائیوں سے کریں.
” اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا “
کی حقیقت کو جانیں (جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں