ڈاکٹر بشریٰ تسنیم :
پہلے یہ پڑھیے
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 1 )
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 2 )
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 3 )
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 4 )
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 5 )
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 6 )
رمضان المبارک میں احتساب اور اصلاح کیسے ہو؟ ( 7 )
اللہ رب العرش العظیم نے اپنی کتاب ہدایت میں آمنوا اور عملوالصلحت کو ایک دوسرے کا لازمی حصہ بنایا ہے..آمنوا حقوق اللہ ہیں تو عملوالصلحت کا سارا معاملہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے اور دراصل یہی اصل میدان ہے جس میں اولاد آدم کی ہار جیت کا دارومدار ہے
( جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ، اور زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی) [ سورہ الملک ۔ 2 ]
اگر حقوق اللہ کی ادائیگی کا بنیادی نکتہ ” شکر “ سے وابستہ ہے تو حقوق العباد کی ادائیگی کا بنیادی نکتہ ” صبر “ سے وابستہ ہے. یقین جانیے صبر اور شکر مؤمن کی روحانی زندگی کے دو پر ہیں جن سے وہ قرب الہی کی طرف پرواز کرتا ہے..
اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ بندے کی عبادات سے االلہ رب العالمین کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا ، کوئی بندہ اس کی عبادت نہ کرے تو اس کے ” الہ “ ہونے میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ وہ مالک کون و مکاں ہے ساری مخلوق اس کو مانے یا انکار کرے ، اس کی ناشکری کرے یا شکر کرے وہ غنی عن العالمین ہے.
(وہ پکار اٹھا ” یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے “)
[النمل : 40]
یہ عبادات اور شکر کا جذبہ بندے کے اپنے فائدے کے لئے ہے اور حقیقتاً یہ عبادات حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے بندے کو روحانی تقویت دیتی ہیں. غور کریں تو معلوم ہوتا یے کہ شکر کا جذبہ انسان کو صابر بھی بناتا ہے. شکر اور صبر ایسے لازم وملزوم ہیں جیسے آمنوا اور عملوالصلحت . صبر کرنا اسی لئے تو ممکن ہوتا ہے کہ شکر کرنے کے لئے کوئی نعمت نظر آرہی ہوتی ہے. اور نعمتیں اس قدر جا بجا بکھری ہوئی ہیں کہ ان سے صرف نظر بھی ممکن نہیں. اور شاکر بندہ دراصل لاحاصل چیزوں کی حسرتوں سے آزاد ہوکر اپنے رب کی تقسیم پہ خوش ہوتا ہے ، اس کا شکر ادا کرتا ہے اپنی خواہش نفس کو حاوی نہیں ہونے دیتا کہ ضبط نفس کو صبر کرنا بھی کہتے ہیں. صابر و شاکر بندہ ہر وقت ہر حال میں کائنات پہ غوروفکر کی وجہ سے اللہ کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے .
(کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے ، درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو)
[لقمان: 31]
(اللہ جب چاہے ہوا کو ساکن کردے اور یہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں ، اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو کمال درجہ صبر و شکر کرنے والا ہو)
[الشوریٰ : 33]
صبر زندگی کے ہر پہلو پہ حاوی ہے. قرآن پاک میں تقریباً ہر دوسرے صفحے پہ صبر کا ذکر ملتا ہے. صبر کے مختلف پہلو ہیں. اپنے نفس کو نیکی پہ مائل کرنا اس پہ اسقامت دکھانا ، نیکی کو اعلیٰ معیار پہ لانے کی سعی کرنا سب صبر کرنے کے مختلف مظاہر ہیں.عمل صالح کرنے کے لئے قدم بڑھانے کے دوران ، اپنے نفس امارہ کو سر کشی سے روکنا بھی صبر کا متقاضی ہے..
یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے اپنےنفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے دبا دیا
[الشمس : 9-10]
بندوں کو اللہ تعالیٰ نے مسابقت کے جس میدان میں اتارا ہے وہ فاستبقوا الخیرات ہے.اس میں سرعت سے آگے بڑھنے کی تلقین ہے.” ایکم أحسن عملا “ کے معیار پہ پورا اترنے کی ترغیب ہے .اور یہ سب صبر و استقامت کا متقاضی ہے.
بندوں میں حقوق و فرائض کی مساویانہ تقسیم سے دنیا میں معاشرتی امن وسکون کا توازن برقرار رہتا ہے. اور اس توازن کو بر قرار رکھنا سب انسانوں کی ذمہ داری ہے..عدم توازن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حقوق لینا مقصد زندگی بن جائے اور فرائض سے پہلو تہی کی جائے.
حقوق العباد کی ترتیب میں جو درجہ بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہے اس کو برقرار رکھنا اطاعتِ الہی بھی ہے اور فرائض کی بجا آوری میں سہولت بھی ہے. اس ترتیب کے لحظ سے پہلا حق ماں کا پھر باپ کا ہے..اور شادی کے بعد عورت کے لئے اس کا شوہر سب رشتوں پہ مقدم ہے.
اسلامی معاشرہ میں بندوں کی ایمانی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنا حق لینے سے زیادہ فرض نبھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں.یعنی وسعتِ قلبی مؤمن کی شان ہے. تنگی نفس ہر رشتے کی چاشنی چاٹ جاتی ہے..اسلامی معاشرے کی جھلک اس آیت میں بتائی گئی ہے..
( اور وہ مال ان لوگوں کے لئے بھی ہے ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم تھے۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دیدیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے ، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
[الحشر: 9]
دنیا میں رشتے نبھانے اور آخرت میں فلاح حاصل کرنے والے وہی لوگ ہیں جو نفس کی تنگی سے بچا لیے گئے.
رمضان المبارک کے اوقات میں خصوصا طاق راتوں میں اپنے نفس کا جائزہ لیا جائے کہ حقوق و فرائض کے معاملے میں ہم اپنے نفس کو کہاں کھڑا پاتے ہیں؟ تنگی نفس نے کتنی کا میابیوں کو ناکامیوں میں بدل دیا ہے . طمع ولالچ نے دل کو کتنا ویران کر رکھا ہے..رشتوں کی مٹھاس تنگی نفس کی بدولت کس قدر کڑواہٹ میں بدل گئی ہے..ضد، ہٹ دهرمی اور انا کی تسکین کے لئے کتنے جنجال پال رکھے ہیں؟ حسد،غیظ و غضب کی آندھی نے محبتوں کے کتنے چراغ گل کر دیے ہیں..دوسروں پہ بہتان، الزام لگا کر کتنے دل توڑنے کا گناہ سرزد ہوا ہے؟
اپنے نفس امارہ کو نفس مطمئنہ بنانے کے لئےاپنے قصوروں کا اعتراف ، بندوں سے معافی مانگنا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرمائے. یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ خطا ،نسیان اور گناہ میں فرق کیا ہے؟ صغیرہ و کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ اور گناہوں کی بخشش کے لئے ” اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنا “ کی تکرار لیلة القدر میں کرنے کی تلقین کیوں گی گئی ہے؟
(جاری ہے )