ڈاکٹر محمد مشتاق :
پہلے یہ پڑھیے
یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 1 )
یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 2 )
اس سارے پس منظر کے واضح ہوجانے کے بعد اب ہم ان سوالات پر گفتگو کرسکتے ہیں جو اس بحث کی ابتدا میں ہم اٹھائے تھے۔
ایک سوال یہ تھا کہ کیا یورپی یونین کا مطالبہ صرف توہینِ مذہب پر سزا کے خاتمے کی حد تک ہے؟ یہاں تک کی بحث سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور یہ معاملہ یہاں رکنے والا نہیں ہے بلکہ اسے بہت آگے جائے گا۔
مثلاً یورپی یونین کو سزائے موت پر بھی اعتراض ہے اور اس کا مستقل مطالبہ ہے کہ کسی بھی جرم پر سزائے موت نہ ہو۔ ابتدائی مرحلے میں اس نے اتنی رعایت برتی کہ سزائے موت کا خاتمہ ابھی ممکن نہ ہو تو کم از کم اس کا نفاذ روک دیں۔ چنانچہ سالہا سال ہمارے ہاں کسی جرم پر بھی سزائے موت نافذ نہیں ہوسکی۔
سوال یہ ہے کہ آج آپ توہینِ مذہب کی سزا ختم کردیں گے تو کل قصاص اور حدود میں بھی سزائے موت کو منسوخ کردیں گے؟
پھر یورپی یونین کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ عاقل بالغ مرد اور عورت کے درمیان مرضی سے جنسی تعلق ہو تو یہ قابلِ سزا جرم نہیں ہے، اور اس نے آپ سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اسے جرائم کی فہرست سے نکال لیں، تو کیا یہ بھی کرگزریں گے؟
اسی طرح یورپی یونین کا آپ سے تقاضا ہے کہ ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے نکال لیں اور اس پر سزا کا خاتمہ کرلیں، تو کیا آپ جی ایس پی پلس کی خاطر یہ اقدام بھی اٹھالیں گے؟
پھر یورپی یونین کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ نکاح ، طلاق اور میراث سمیت ہر معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان برابری ہو، تو کیا آپ اپنے قانونِ نکاح، قانونِ طلاق اور قانونِ وراثت پر بھی خطِّ تنسیخ پھیر لیں گے؟
پھر یورپی یونین کا مطالبہ ہے کہ عورت کا جسم ، عورت کی مرضی اور اس وجہ سے عورت کے لیے ” اسقاطِ حمل کا حق “ مان لیا جائے، تو کیا آپ یہ بھی کر گزریں گے؟
یوں ذرا ان 27 معاہدات کی دفعات پر ایک نظر ڈال تو لیجیے اور ہر سال یورپی یونین اور انسانی حقوق کی کمیٹی آپ سے جو مطالبات کرتی ہے، اس فہرست پر بھی ذرا غور کیجیے اور پھر سوچیے کہ یہ سلسلہ کہاں رکے گا اور جی ایس پی پلس کی خاطر آپ کہاں تک گرنا قبول کرسکتے ہیں؟
اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ آخر ہمارے پاس اور راستہ کیا ہے؟ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ خود کو مجبور فرض کرنے والے ان مسلمان اہل ِ علم کی جانب سے اس معاملے میں عموماً کیا رویے اختیار کیے گئے ہیں؟
ایک رویے کو ہم perpetual surrender یعنی دائمی شکست کا نام دیں گے۔ اس رویے کے حاملین نے حقوق ِ انسانی کے مغربی اقدار کو واقعتاً آفاقی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور اسلامی قانون اور تراث میں اسے جو کچھ بھی ان اقدار سے متصادم نظر آتا ہے یہ گروہ اس کا انکار کرنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔
دوسرا رویہ apologetic یعنی عذر خواہی کا ہے۔ اس رویے کے حاملین پہلے گروہ سے تھوڑا مختلف راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن نتائج میں پہلے گروہ ہی سے اتفاق پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ گروہ یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جو کچھ مغرب ہمیں حقوق ِ انسانی کے نام پر پیش کررہا ہے وہ تو اسلام صدیوں پہلے پیش کرچکا ہے۔
یوں یہ گروہ اسلامی تراث کو ان حقوق ِانسانی سے مکمل طور پر ہم آہنگ بنا کر پیش کرتا ہے اور جہاں اسے مسائل نظر آئیں وہاں یہ گروہ ایسی تاویل پیش کرتا ہے کہ اسلامی قانون کے مسائل کو ان مغربی اقدار کے مطابق ثابت کیا جائے اور جب یہ ممکن نہ ہو تو یہ کہا جائے کہ مسلمان اس مسئلے پر اسلام کو صحیح سمجھ نہیں سکے تھے، اس لیے مسئلہ اسلام کے ساتھ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔
ان دونوں رویوں میں بہت سنجیدہ مسائل ہیں اور اسی وجہ سے انھیں مسلمانوں کے ہاں ابھی تک عمومی قبولیت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ تو پھر مطلوب رویہ کیا ہے؟
( جاری ہے)