ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون:
پہلے یہ پڑھیے :
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 4 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 5 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 6 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 7 )
براہِ راست نشریات کی درخواست مسترد کرنے کے بعد نظرِ ثانی کی درخواستوں کی باقاعدہ سماعت 13 اپریل 2021ء کو شروع ہوئی۔ یہاں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ اس سماعت کےلیے پہلے 5 اپریل کا دن مقرر کیا گیا لیکن پھر سماعت سے پہلے ہی بغیر کوئی وجہ بتائے اس سماعت کو مزید 8 دنوں کےلیے ملتوی کیا گیا اور 13 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی۔ یہ بات بھی حیران کن تھی کیونکہ، جیسا کہ واضح کیا گیا، 18 مارچ کو سماعت مکمل کرچکنے کے بعد صرف مختصر آرڈر سنانے میں بھی 26 دنوں کی تاخیر کی گئی۔
بہرحال جب 13 اپریل کو پہلے مختصر آرڈر سنایا گیا کہ چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے براہِ راست نشریات کی درخواست مسترد کردی گئی، تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اختلاف کرنے والے چار جج صاحبان کا نام پوچھا تو نہ جانے کیوں جسٹس بندیال نے نام بتانے سے انکار کیا اور اس انکار پر اصرار بھی کیا، حالانکہ یہ پٹیشنر کا حق ہوتا ہے کہ اسے نام معلوم ہوں اور نام ویسے بھی تحریری آرڈر میں موجود تھے۔
یہاں سے بھی معلوم ہوا کہ جسٹس بندیال اس طرح اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ پا رہے جو کبھی ان کی خصوصیت شمار کی جاتی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جن چھ جج صاحبان نے ان کے ساتھ اتفاق کیا تھا، ان میں ایک ( جسٹس فیصل عرب ) پہلے ہی ریٹائر ہوچکے تھے ، ایک ( جسٹس منظور ملک ) نے نظرِ ثانی بنچ میں ججز کی تعداد کے مسئلے پر ان سے اختلاف کیا، اور اب دو جج صاحبان (جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل) نے براہِ راست نشریات کے مسئلے پر بھی ان سے اختلاف کیا۔ گویا ان کے ذہن میں کہیں یہ بات ضرور تھی کہ اب ان کے پاس صرف تین جج صاحبان ( جسٹس سید سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین الدین) رہ گئے ہیں! آگے چل کر ثابت بھی یہی ہوا۔
13 اپریل کو جو ہنگامہ خیز سماعت شروع ہوئی وہ اس ہفتے اگلے دو دن ( 14 اور 15 اپریل ) کو بھی جاری رہی۔ 15 اپریل، جمعرات، کو جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دلائل دے رہے تھے اور 1 بجے عدالت کا وقت ختم ہونے کی بات کی گئی، تو انھوں نے عدالت کو یاد دلایا کہ بنچ کے ایک فاضل جج (جسٹس منظور ملک) 30 اپریل کو ریٹائر ہورہے ہیں اور اس سے پہلے اس کیس کا فیصلہ ہونا ضروری ہے ورنہ بنچ پھر ٹوٹ جائے گا اور ساری مشق اور قوم کے وسائل ضائع ہوجائیں گے،
اس لیے مناسب ہوگا کہ سماعت ابھی جاری رکھی جائے۔ جسٹس بندیال نے کہا کہ انھیں اس بات کا احساس ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ اس سے پہلے سماعت بھی مکمل ہو اور فیصلہ بھی سنایا جائے۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف سماعت روک دی بلکہ اگلے دن ( جمعہ کو) سماعت جاری رکھنے کے بجائے اس کےلیے پیر ( 19 اپریل ) کا دن مقرر کیا۔ اس پر بھی کچھ تلخی ہوئی لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے۔
19 اپریل کو سماعت پھر شروع ہوئی اور اگلے دو دنوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ جسٹس صاحب کے دلائل میں ایک ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ جب ریفرنس کو بے بنیاد اور ناجائز قرار دیا گیا اور یہ بھی مان لیا گیا کہ یہ محض بدنیتی پر مبنی تھا تو اس کے بعد اسی فاسد بنیاد پر نئی عمارت کیسے کھڑی جاسکتی تھی؟
ایک اور اہم نکتہ یہ تھا کہ جب ایف بی آر کو رپورٹ کےلیے ٹائم فریم بھی دیا گیا اور نظرِ ثانی کی سماعت ملتوی کی گئی اور اس پر فیصلہ مؤخر کیا گیا، تو عملاً تو ان کے نظرِ ثانی کے حق کو لغو کردیا گیا۔ اسی طرح مسز سرینا عیسیٰ کا موقف یہ تھا کہ وہ تو سرے سے مقدمے میں فریق ہی نہیں تھیں، تو ان کے خلاف آرڈر کیسے جاری کیا جاسکتا تھا ؟
یہ وہ مسئلہ تھا جس پر جسٹس منیب کے ساتھ ان کی تلخی ہوئی کیونکہ جسٹس منیب انھیں مجبور کررہے تھے کہ وہ اپنا وہ بیان پڑھیں جو انھوں نے 18 جون 2020ء کو وڈیو لنک پر عدالت میں پیش کیا تھا۔ یہ انتہائی حیران کن بات اس لیے تھی کہ صرف اس بیان پر ، جو بیانِ حلفی بھی نہیں تھا، اور جو حکومتی وکیل کی خواہش پر پیش کیا گیا تھا، کیسے یہ مانا جاسکتا تھا کہ مسز سرینا عیسیٰ کو سننے کا قانونی حق دیا جاچکا اور وہ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ انھیں سنے بغیر ان کے خلاف فیصلہ دیا گیا؟
واضح رہے کہ اصل کیس میں مسز سرینا کو نہ ہی وکیل کے ذریعے نمائندگی دی گئی، نہ انھیں فریقِ مخالف کے دلائل پر تنقید کا موقع دیا گیا، نہ ہی انھیں ثبوت اور شواہد جمع کرانے کی اجازت دی گئی، اور یہ سارے امور ” حقِ سماعت “ ( right to a hearing ) کے لازمی عناصر ہیں۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس پر عدالت میں شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی اور پھر جسٹس منیب کو نہ صرف اس دن بلکہ اگلے دن سماعت کی ابتدا میں بھی معذرت کرنی پڑی۔
مسز سرینا عیسیٰ نے اپنے دلائل نہایت اعتماد کے ساتھ اور بہترین انداز میں پیش کیے اور جب انھوں نے سرکاری دستاویزات سے اقتباس پڑھ کر سنایا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ لندن فلیٹس کےلیے جو رقم درکار تھی، اس سے زیادہ رقم مسز سرینا عیسیٰ کے بینک اکاؤنٹس سے باقاعدہ قانونی طور پر لندن منتقل ہوئی ہے، تو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔
اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ اس اقتباس میں رقم کی منتقلی کا سبب فلیٹس کی خریداری کے بجائے کچھ اور ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا جواب جسٹس منصور علی شاہ نے دیا کہ قانون کی رو سے اتنا ہی کافی ہے کہ رقم مسز عیسیٰ کے اکاؤنٹ میں تھی اور وہاں سے قانونی طریقے پر لندن منتقل ہوئی ہے۔ رقم منتقل کرتے وقت اگر رقم کا مالک ایک سبب لکھتا ہے اور بعد میں اس کا ارادہ تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ اس رقم کو کسی اور مقصد کےلیے استعمال کرے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی رقم اس کی مرضی۔ اس پر جسٹس بندیال نے بھی بے ساختہ کہا کہ
ہاں، یہ تو معاملہ ہی ختم ہوگیا، لیکن پھر فوراً ہی کہا، مطلب صرف اس مسئلے کی حد تک ! اس پر عدالت میں ایک زبردست قہقہہ پڑا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکثریتی فیصلے میں کئی تضادات کی بھی نشاندہی کی اور اس فیصلے کی کمزوریاں واضح کیں۔ اس بنا پر جسٹس بندیال نے ایک اور زاویے سے معاملے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تین سوالات کیے کہ اگر وہ اگلے دن ان کے جواب دے دیں تو مان لیا جائے گا کہ مسز سرینا عیسیٰ کی جائیداد یا اس رقم کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سوالات پر اپنا تحریری موقف اگلے دن عدالت میں پیش کیا کہ نظرِ ثانی کے مرحلے پر یہ سوالات اٹھائے ہی نہیں جاسکتے کیونکہ نظرِ ثانی میں تو صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اصل فیصلے میں کیا غلطی ہوئی ہے؟ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ سوالات بدنیتی پر مبنی ہیں اور یہ ایک نئے ریفرنس کےلیے شکایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے اصل کیس کی سماعت کے دوران میں ان کے وکیل منیر اے ملک اور جسٹس بندیال کے مکالموں کی ریکارڈنگ سے اقتباسات بھی پیش کیے جن سے معلوم ہوا کہ خود جسٹس بندیال نے ان امور کو اصل کیس کی سماعت میں پہلے مؤخر کیا اور پھر نظرانداز کیا۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ سوالات ایف بی آر کی نام نہاد رپورٹ سے پیدا ہوئے ہیں حالانکہ نظرِ ثانی کے مرحلے پر اس رپورٹ کو دیکھا ہی نہیں جاسکتا جو نظرِ ثانی کی درخواستوں کے بعد بنی ہے۔ مزید یہ کہ ہم اس رپورٹ کو بدنیتی پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کی قانونی حیثیت ہی نہیں مانتے، تو اس سے پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دے کر اس رپورٹ کو وقعت کیسے دے سکتے ہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ جواب جسٹس بندیال کی جانب سے نئی پیش رفت کو ابتدا میں ہی روکنے کا باعث بن گیا اور اگلی سماعتوں میں انھیں ماننا پڑا کہ اس کیس میں ایف بی آر کی اس رپورٹ کو نہ ریکارڈ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے، نہ ہی اس پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔
(اس جواب کا عکس یہاں پیش کیا جارہا ہے۔)