ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی :
ذرا سی بات تھی ” اندیشۂ کرونا “ نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے
کورونا بیماری کی تیسری لہر کافی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ اور احتیاطی تدابیر (SOPs) پر صحیح طریقے سے عمل درآمد میں ہماری بھلائی ہے۔
کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے مسائل کے دور میں ایسےمعتدل مزاج کے حامل لوگ کم ہوتے ہیں جو عصر حاضر کی ان آزمائشوں اور بیماریوں کی صورتحال کو سمجھتے اور حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار کرتے ہیں اور پھر ” توکل علی اللہ “ کرتے ہوئے اپنا معاملہ اللہ ربّ العزت کی ” شان کریمی “ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے عام لوگوں کے اندر یا تو بہت زیادہ خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے یا پھر انہیں اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہوتی اور وہ ان تمام باتوں سے سرے سے ہی بے نیاز ہوتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چند چھوٹے چھوٹے واقعات ایسے افراد کے ان بے نیاز رویوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
ایک سال قبل کورونا وائرس کی بیماری کی پہلی لہر میں لاک ڈاؤن کے پہلے دن 24 مارچ 2020ء کو صبح تقریباً دس بج چکےتھے۔ ہمارے ارد گرد صورتحال یہ تھی کہ لوگ ابھی تک کھلم کھلا علاقے کی سڑکوں اور گلیوں میں چل پھر رہے تھے۔ تاہم بازار اور مارکیٹس دوتین دن قبل بند ہو چکی تھیں۔
میرا بڑا بیٹا گھر کے گیٹ پر کھڑا صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا۔ اور ساتھ اپنے تبصرے بھی کررہا تھا۔ میں گھر کے اندر کام کاج کرتے ہوئے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اچانک باہر سے ایک آدمی کے اونچا اونچا بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پہلے تو میں قدرے پریشان ہو گئی کہ کہیں پولیس چیکنگ کرنے اور عوام کو زبردستی گھروں میں بند کرنے تو نہیں آگئی؟ ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آیا کہ اگر پولیس آ بھی گئی ہے تو عوام الناس کے فائدے کے لیے ہی آئی ہے۔
لہذا پھر میں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہ کی اور اپنے کاموں میں مشغول رہی۔ جلد ہی بیٹا ہنستے ہنستے گھر کے اندر آگیا اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا کہ ” ماما جان! ایک ’ بریکنگ نیوز‘ ہے۔“
میں نے پوچھاکہ ” کیا ہوا؟ “
تو وہ کہنے لگا کہ ” ابھی گھر کے باہر سے دو آدمی گزر رہے تھے۔ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ
’ مینوں نئیں پتا کہ اے کورونا ویرس کیہڑی بلا اے؟ اے کسی موٹر سائیکل داناں اے؟ کوئی گڈی ہوندی ہے؟ یا اے ملتان ٹائم ہون دی ہے؟ پتہ نہیں اے تے کیہڑی شے دا ناں ہے؟“
(” مجھے پتا نہیں کہ کورونا وائرس کون سی بلا ہے؟ کیا یہ کوئی موٹر سائیکل ہوتی ہے؟ یا یہ کسی گاڑی کا نام ہے یا یہ ملتان ٹائم ہے؟ پتہ نہیں یہ کس چیز کا نام ہے؟“)
میرا بیٹا مجھے مزید کہنے لگا کہ ” ماما جان! مجھے بتائیں کہ ایسے لوگوں کو کورونا وائرس کے بارے میں کس طرح اور کیا سمجھائیں؟“
پھر میں اپنے بیڈروم میں آئی تو وہاں ایک اور لطیفہ میرا منتظر تھا۔ میری چھوٹی بیٹی مجھے بتانے لگی کہ
” ماما جان! میں کمرے میں بیٹھی اسکول کا کام کر رہی تھی۔ کمرے کی ونڈو کھلی ہوئی تھی اور باہر سڑک سے آوازیں آرہی تھیں۔ دو آدمی گزرتے ہوئے آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ
”آخر ہمارے ملک میں تبدیلی آہی گئی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ماحول ہی تبدیل ہو گیا ہے۔“
اللہ کی پناہ! استغفراللہ! ایسی تبدیلی سے اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے۔
لاعلمی اور جہالت کی بنا پر ( یا دیگر وجوہات کی بنا پر مثلاً دیہاڑی دار طبقہ کی غربت و افلاس کی مجبوری وغیرہ) اس طرح کے بے خبر اور ” معصوم “ لوگ اس بیماری کے بارے میں حفاظتی اقدامات اور تدابیر اختیار نہیں کرتے اور ان کی روزمرہ کی زندگی اسی تسلسل کے ساتھ رواں دواں رہتی ہے۔ تو پھر یا تو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انہیں کوئی مسئلہ لاحق ہی نہیں ہوتا اور لا علمی ہزار نعمت ثابت ہوتی ہے یا پھر انہیں اپنی لا علمی کے بڑے سخت اور بھیانک نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔
ویسے یہ بات ماننے والی ہے کہ اہل مشرق خصوصاً پاکستانیوں کا اور ان میں سے بھی غریبوں کا مدافعتی نظام (Immune system) عموماً مضبوط ہوتا ہے۔الحمدللہ۔
مستقبل میں جب مؤرخین کورونا وائرس کی بیماری کی تاریخ لکھیں گے تو ضرور اس بات کی توصیف بیان کریں گے کہ یہ محنت ومشقت اور جاں فشانی سے کام کرنے والی پاکستانی قوم ہے جس پر مغرب سےشروع ہونے اور پوری دنیا میں وائرل ہونے ( پھیل جانے ) والی اس بیماری کا اثر نسبتاً کم دکھائی دیتا ہے اور انشاءاللہ کم ہی رہے گا۔
دوسری قسم کے لوگوں کی تعداد اگرچہ قلیل ہوتی ہے لیکن یہ لوگ اس معاشرے کا صالح اور نافع عنصر ہوتے ہیں۔ مثبت سوچ رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی ہمت وحوصلہ کا نشان ہوتے ہیں۔ اور ان کے لیے امید کی شمعیں روشن رکھتے ہیں۔
24 مارچ کو لاک ڈاؤن کے پہلے دن تقریباً گیارہ بجے میں نے اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا کہ
” بیٹا ! گھر میں انڈے ختم ہو چکے ہیں۔ آپ مجھے گھر کے سامنے والی دکان سے انڈے لادیں۔“
تو چھوٹے میاں فرمانے لگے کہ
” ماماجان ! میں تو ’ لاک ڈاؤن ‘ ہوں۔ ابو جان نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ آج سے گھر سے باہر ’ لاک ڈاؤن ‘ ہو جائے گا۔ تو آپ نے اب گھر میں ” لاک ڈاؤن “ رہنا ہے اور گھر سے باہر نہیں جانا۔ آپ انڈے کسی اور سے منگوا لیں۔“
واہ چھوٹے میاں! سبحان اللہ! مجھے اس کی بات پر بڑی ہنسی آئی۔
حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات بچے بات بڑے خوبصورت انداز میں سمجھا دیتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے منے میاں کا یہ ” لاک ڈاؤن “ اپنی مرضی کا ہوتا ہے۔ جب میں انہیں اپنے گھر سے چند گھروں کے فاصلے پر واقع ٹیوشن ٹیچر کے گھر پڑھنے جانے کے لیے کہتی اور تیار کرتی ہوں تو وہ مسلسل کہتے رہتے ہیں کہ
” مجھے ابو جان نے ’ لاک ڈاؤن ‘ کیا ہوا ہے اور میری ٹیوشن بھی ’ لاک ڈاؤن ‘ ہے۔ لہذا میں نے ٹیوشن پڑھنے نہیں جانا۔ میں گھر میں کام کرلوں گا۔“
لیکن جب خود ان کا باہر جانے کو دل چاہے تو گھر کا گیٹ کھول کر یا گیٹ کی درزوں سے دیکھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
” سارے لوگ تو باہر آجا اور چل پھر رہے ہیں۔ تو اس لیے اب میں بھی ایک ’ بہت ضروری کام ‘ سے باہر جارہا ہوں۔“
میرے شوہر محترم نے مجھے بتایا کہ
” وہ ایک بیمار بھائی کی عیادت کے لیے جا رہے تھے۔ یہ لاک ڈاؤن کے ایام شروع ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ راستے میں ایک ہومیو پیتھک کلینک آگیا۔ انھوں نے وہاں رک کر ڈاکٹر صاحب سے سلام دعا کی۔ وہیں کلینک میں اچھی جان پہچان والے ایک اور صاحب بھی موجود تھے جو صاحب حیثیت ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب فہم و فراست بھی تھے۔
میرے میاں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھاکہ
” ڈاکٹر صاحب ! کورونا وائرس کے بارے میں ہومیوپیتھی کی کیا رائے ہے؟ اور کیا ہومیوپیتھی میں اس کا کوئی علاج موجود ہے؟“
تو قریب بیٹھے وہ ذی عقل و ذی رائے صاحب کہنے لگے کہ ” اس کے بارے میں ہماری رائے اور رویہ تو یہ ہے کہ
اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق
( ترجمہ: ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل ناموں کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘)
اس دعا کی فضیلت واہمیت یہ ہے کہ ” جو شخص یہ دعا صبح و شام کو تین دفعہ پڑھ لے، اسے اس دن یا رات میں کوئی زہریلی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔“
انہوں نے مزید کہا کہ
” دعائیں، توبہ و استغفار، ’ رجوع الی اللہ ‘ و ’ رجوع الی القرآن ‘ اور صدقہ و خیرات ہمارے لیے اصل علاج اور ویکسنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی ہماری رائے ہے، اور یہی ہماری ویکسن ہے۔ باقی احتیاطی اقدامات مثلاً چہرے کے لیے ماسک، ہاتھوں کے لیےسینی ٹائیزر اور حفاظتی کٹ کا استعمال، سوشل ڈسٹینس) (Social Distance) (سماجی فاصلہ)، آئسولیشن (Isolation) (صحت مند افراد کا گھر میں دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر رہنا یا کمرے میں صرف ایک فرد کا رہنا ) اور قرنطینہ (Quarantine) (بیمار یا بیماری کے خدشے والے فرد کا گھر یا کمرے میں بالکل الگ تھلگ اور تنہا رہنا) اور لاک ڈاؤن (Lock Down) وغیرہ تو صرف تدبیر کے لیے ہیں۔“
سبحان اللہ!
توکل کے یہ معنی ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
باقی ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ” ہومیوپیتھی میں کورونا وائرس کے علاج میں بنیادی اہمیت کے حامل مدافعتی نظام مضبوط کرنے کی بہترین ادویات موجود ہیں۔ لیکن لوگ اسے اہمیت نہیں دیتے۔“
حقیقت یہی ہے کہ ان تمام مسائل اور بیماریوں کا علاج ” رجوع الی اللہ “ و ” رجوع الی القرآن “ ہے۔ سینی ٹائیزر وغیرہ کا مستقل استعمال اگر جسمانی صفائی کے لیے ضروری ہے تو روحانی بیماریوں کے علاج معالجہ اور روحانی صفائی ستھرائی کے لیے روحانی سینی ٹائیزر قرآن مجید ضروری ہے۔ جس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں دین ودنیا کی بھلائیاں مضمر ہیں۔ اگر اس مرض کی احتیاطی تدابیر پر مسنون طریقہ سے عمل پیرا ہوا جائے تو جان فشانی کے عادی اہل پاکستان اس کو وضو کے پانیوں میں بہا دیں گے۔ ان شاءاللہ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کورونا وائرس سمیت دیگر بیماریوں اور بے وقت کی بارشوں جیسی تمام آزمائشوں سے محفوظ رکھے، ہم پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور ہمیں اس کیفیت سے نجات عطا فرما کر ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین یارب العالمین
2 پر “کورونا وائرس اور ہمارے معاشرتی رویے” جوابات
ماشاء اللہ بہت عمدہ، معلوماتی اور دلچسپ تحریر ہے.
پڑھ کر بہت مزہ آیا اور اچھا لگا.
اللہ تعالیٰ ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھے.
آمین ثم آمین یا رب العالمین