ڈاکٹر محمد مشتاق، ماہر قانون

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 2 )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر محمد مشتاق :

پہلے یہ پڑھیے

یورپی یونین، توہینِ مذہب اور پاکستان ( 1 )

اقوامِ متحدہ کی تنظیم سے قبل 1919ء میں مجلسِ اقوام (League of Nations) تنظیم بنائی گئی تھی جس پہلی جنگِ عظیم کے بعد دوسری جنگِ عظیم کا راستہ ہموار کیا۔ واضح رہے کہ پہلی جنگِ عظیم کو ” تہذیب کےلیے عظیم جنگ “ (Great War for Civilization) کا نام دیا گیا تھا۔ اس وقت تک موجود بین الاقوامی نظام مغربی اقدار اور مسیحی تصورات پر قائم تھا اور اس میں ” قوم “ یا ” ریاست “ کی حیثیت صرف مغربی مسیحی اقوام کو حاصل تھی۔

1648ء میں ویسٹ فالیا کے معاہدے کے بعد سے اس نظام میں کسی غیر یورپی یا غیر مسیحی قوم یا ریاست کو کوئی جگہ دی ہی نہیں گئی تھی۔ پہلی دفعہ 1856ء میں عثمانیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے ان کےلیے کچھ حقوق مان لیے گئے لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ عثمانی سلطنت مسیحی نہ سہی لیکن نیم یورپی تو تھی۔

بین الاقوامی قانون پر اوپن ہائم کی کتاب کو کلاسیک کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1905ء میں شائع ہوا اور دوسرا 1912ء میں۔ بعد میں اس کے کئی نئے ایڈیشن آتے رہے ہیں اور ہمیشہ بین الاقوامی قانون کا کوئی بڑا ماہر پروفیسر یا جج اس کا نیا ایڈیشن تیار کرتا ہے۔ ان پہلے دو ایڈیشنز کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کہ یہ ” تہذیب کےلیے عظیم جنگ “ سے قبل شائع ہوئے تھے۔

اوپن ہائم نے اس کتاب میں بڑی صراحت کے ساتھ وہ باتیں لکھی ہیں جو بعد میں اس صراحت سے کسی نے نہیں کہیں۔ چنانچہ وہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی نظام کے متعلق تصریح کرتا ہے کہ یہ یورپی /مسیحی اقوام کا قانون اور انہی کا نظام ہے۔ وہ ایتھوپیا کے متعلق یہ کہتا ہے کہ اگرچہ وہ مسیحی ملک ہے لیکن ابھی تہذیب کی اس سطح تک نہیں پہنچا کہ اسے یورپی اقوام کے ساتھ بین الاقوامی برادری کا حصہ مانا جائے۔ البتہ امریکا کے متعلق وہ کہتا ہے کہ وہ مسیحی یورپ ہی کی توسیع ہے۔

کیا غیر یورپی و غیر مسیحی اقوام اس نظام میں شامل ہوسکتے ہیں؟
اوپن ہائم کا جواب یہ ہے کہ اس کےلیے تین شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے:
ایک یہ کہ وہ تہذیب کی ایک خاص سطح تک پہنچی ہوئی ہوں ؛
دوسری یہ کہ وہ اس نظام کی شرائط اور قیود قبول کرلیں؛ اور
تیسری یہ کہ اس نظام میں پہلے سے شامل (یورپی مسیحی ) اقوام انھیں اس نظام میں شامل کرنے پر آمادہ بھی ہوں۔

جو اقوام تہذیب کی اس خاص سطح تک نہ پہنچی ہوں، یا وہ اس نظام کی شرائط اور قیود قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں، یا اس نظام میں پہلے سے موجود یورپی مسیحی اقوام انھیں اس نظام میں شامل کرنے پر آمادہ نہ ہوں، تو وہ اس نظام میں شامل نہیں ہوسکتیں۔ چنانچہ ایشیا، افریقہ اور دیگر خطوں کے باشندے اس نظام سے محروم رہے۔ تاہم ” تہذیب کےلیے عظیم جنگ “ جو چار سال جاری رہی، اس نے ان ” مہذب “ اقوام کی معیشت کو سخت نقصان پہنچادیا اور رہی سہی کسر اگلی جنگِ عظیم نے نکال لی۔

چنانچہ 1950ء اور پھر 1960ء کی دہائیوں میں کئی غیر یورپی/غیر مسیحی اقوام ان کے چنگل سے آزاد ہوگئیں، یہاں تک کہ 1960ء کی دہائی کو مغربی غلبے کے خاتمے (eradication of colonialism) کی دہائی قرار دیا گیا۔ ان غیر یورپی/غیر مسیحی اقوام کو اقوامِ متحدہ کی تنظیم کا رکن بننے سے نہیں روکا جاسکا لیکن ظاہر ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن تبھی بنے جب پہلے سے موجود ارکان نے انھیں رکن بننے دیا۔ (چنانچہ چین کی مثال ہم نے پہلے ذکر کی کہ 21 سال تک اسے اقوامِ متحدہ کی تنظیم کا رکن بننے سے روکا گیا۔ )

سوال یہ ہے کہ اس دوران میں یہ جانچنے کےلیے کہ کوئی قوم ” تہذیب “ کی مطلوبہ سطح تک پہنچ گئی ہے یا نہیں، معیار کیا مقرر کیا گیا؟ اس سوال کا جواب ” انسانی حقوق “ کے معاہدات میں ملتا ہے۔

غیر یورپی اور غیر مسیحی اقوام پر اس قانون کے اطلاق کے لیے اوپن ہائم کی بیان کردہ شرائط اوپر ذکر ہوچکیں۔ ان شرائط سے معلوم ہوا کہ اس قانون کے اطلاق کے دائرے میں آنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس قانون کی اقدار کی آفاقیت کا دعویٰ تسلیم کرکے خود کو ان اقدار کے سانچے میں ڈھالنے کا اعلان کیا جائے۔

چنانچہ جب ” تہذیب کےلیے عظیم جنگ “ کے دوران میں عثمانیوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے آرمینیا میں مسیحیوں کا قتلِ عام کیا ہے، تو پہلے اسے ” مسیحیت کے خلاف جرائم “ (Crimes against Christianity) کا نام دیا گیا لیکن بعد میں اسے تبدیل کرکے اسے ” انسانیت کے خلاف جرائم “ (Crimes against Humanity) کا نام دیا گیا۔

اسی نام سے جرائم کی ایک فہرست دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر جرمن اور جاپانی مخالفین پر مقدمہ چلانے کےلیے تشکیل دی جانے والی نورمبرگ اور ٹوکیو ٹربیونلز کے منشورات میں شامل کی گئی۔ اسی طرح ایک فہرست 1990ء کی دہائی میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی ٹربیونلز برائے یوگوسلاویا اور روانڈا کے منشورات میں بھی شامل کی گئی اور اب اسی عنوان کے تحت جرائم کی ایک فہرست بین الاقوامی فوجداری عدالت (International Criminal Court ) کے منشور میں نظر آتی ہے۔ یوں بتدریج جو مسیحی تھا وہ انسانی ہوا اور جو یورپی تھا وہ عالمی ہوا!

یہ معاملہ اس سے زیادہ واضح طور پر ” حقوقِ انسانی “ کے معاہدات میں نظر آتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں جب ہٹلر، مسولینی اور جاپان کا خطرہ سر پر تھا تو اشتراکی سوویت یونین اور سرمایہ دار برطانیہ، فرانس اور امریکا اکٹھے ہوگئے اور پھر جب مخالف قوتوں کی شکست کے آثار نظر آنے لگے تو جنگ کے بعد کے عالمی نظام پر مذاکرات شروع ہوئے۔

ابتدا میں خیال یہ تھا کہ ” انسانی حقوق “ کی ایک فہرست نئی تنظیم کے منشور میں شامل کرلی جائے گی لیکن جب حقوق پر بات شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اشتراکی اور سرمایہ دار کیمپوں میں اختلاف اتنا گہرا ہے کہ اسے اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

چنانچہ اس پر اتفاق ہوا کہ اقوامِ متحدہ کے منشور میں صرف اتنا ذکر کیا جائے کہ انسانی حقوق کا تحفظ اس تنظیم کا بنیادی ہدف ہے اور اس کے بعد انسانی حقوق پر الگ سے ایک بین الاقوامی میثاق طے کیا جائے ۔ اس کے بعد جب تنظیم وجود میں آئی اور انسانی حقوق کے میثاق کےلیے کوشش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اختلافات کی بنا پر میثاق پر اتفاق ممکن نہیں ہے۔

چنانچہ اس مرحلے پر 1948ء میں صرف ایک اعلان (declaration) پر اکتفا کیا گیا جو ” انسانی حقوق کا آفاقی اعلان “ (Universal Declaration of Human Rights) کہلاتا ہے۔ اس ” آفاقی اعلان “ کی تیاری میں مسلمان، یا غیر یورپی، ممالک کا کتنا حصہ تھا، یہ ہر کوئی جانتا ہے لیکن اس کے بعد سے اسے آفاقی اقدار پر مشتمل دستاویز قرار دیا جانے لگا۔

اس کے بعد بھی انسانی حقوق کے بین الاقوامی میثاق کی تشکیل میں اٹھارہ سال لگے اور 1966ء میں بھی ایسا ممکن صرف اس لیے ہوسکا کہ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی دلچسپی والے حقوق (شہری و سیاسی حقوق) اور اشتراکی ریاستوں کی دلچسپی کے حقوق (معاشی، معاشرتی اور سماجی حقوق)کو الگ الگ معاہدات میں رکھا گیا۔

یہ دومیثاق (International Covenant on Civil and Political Rights اور International Covenant on Economic, Social and Cultural Rights) انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے بنیادی ستون قرار پائے۔ اس کے بعد دو پہلوؤں پر بات آگے بڑھی:

ایک یہ عمومی انسانی حقوق کے بجائے خصوصی طبقات کے حقوق ، یا خصوصی موضوعات، کےلیے معاہدات کا رخ کیا گیا، جیسے خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے کا معاہدہ (Convention on Elimination of All Forms of Discrimination against Women) یا بچے کے حقوق کا معاہدہ (Convention on the Rights of the Child)، یا تشدد کے خلاف معاہدہ (Convention against Torture)؛ اور

دوسرا، مختلف خطوں نے اپنے اپنے خطے کی حد تک انسانی حقوق کی تنفیذ کےلیے نظام بنالیے جیسے یورپی یونین نے یورپی معاہدہ براے انسانی حقوق (European Convention on Human Rights) کے تحت یورپی عدالت برائے انسانی حقوق (European Court of Human Rights) بنایا۔ اسی طرح امریکی ریاستوں کی تنظیم اور افریقی یونین نے اپنے نظام بنائے۔

اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ 1991ء میں اشتراکی روس کے بکھر جانے کے بعد جب اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان نظریاتی کشمکش ختم ہوگئی تو سابقہ اشتراکیوں نے بھی لبرلزم کا لبادہ اوڑھ کر حقوق ِ انسانی کی وہی تعبیر اپنا لی جو سرمایہ دارانہ نظام کے علم بردار پیش کررہے تھے اور یوں صورت ایسی بن گئی کہ:

من تو شدم، تو من شدی، من تن شدم، تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں: من دیگرم، تو دیگری!

اس ساری بحث میں مسلمان یا غیر یورپی اقوام کہاں ہیں؟ کیسے یورپی / مسیحی تصورات کو عالمی / آفاقی /انسانی اقدار تسلیم کیا جاسکتا ہے اور ساری دنیا کو زبردستی ان اقدار کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے؟ یہ اہم سوالات ہیں اور ان پر بحث ضروری ہے لیکن یہاں ایک اور پہلو کی نشاندہی بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر یہ تصویر پوری نہیں ہوسکتی۔

وہ پہلو یہ ہے کہ ان اقدار کی ترویج کےلیے طاقت کے استعمال اور جنگوں کو نہ صرف جائز بلکہ اہم ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور اسے ” انسانیت کے نام پر مداخلت “ (Humanitarian Intervention) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ بدمعاش ریاستوں (rogue states) یا مجرم حکمرانوں (criminal rulers) کے خلاف اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی ترویج (to promote democracy and human rights) جنگ کو پہلے اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری قرار دیا گیا کیونکہ منشور کی رو سے بین الاقوامی امن کی حفاظت اور اس کی بحالی سلامتی کونسل کی ذمہ داری تھی۔

تاہم جب سوویت یونین اور امریکا کی سرد جنگ کے دوران میں کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کسی مستقل رکن کے ویٹو کی وجہ سے سلامتی کونسل کارروائی سے معذور ہوگئی ، تو امریکا یا دیگر بڑی طاقتوں نے اپنے طور پر، اور اقوامِ متحدہ کی تنظیم سے ماورا، کسی ملک پر حملہ کیا، اس میں تباہی مچائی، ہزاروں انسانوں کا قتلِ عام کیا، اور یہ سب کچھ انسانیت اور جمہوریت کے فروغ اور ترویج کے نام پر جائز قرار دیا گیا!

واضح رہے کہ سلامتی کونسل کے پاس کسی بدمعاش ملک سے اپنی بات منوانے کےلیے جنگ کے علاوہ ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ اس ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا ! اس راستے کو ” نرم سزا “ یا (soft sanction) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جن کے نتیجے میں صدام حسین یا اس کے خاندان کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن لاکھوں بچے ادویات نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے۔

یہاں تک کی بحث سے یہ معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کی ترویج کے نام پر مغربی تصور زندگی دنیا بھر میں ایک آفاقی حقیقت کے طور پر نافذ کرنے کےلیے دو پہلوؤں سے کام کیا جاتا ہے:
ایک دام بچھانے کا پہلو ہے جب آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ ان معاہدات میں شامل ہوجائیں تو آپ کو یہ مراعات حاصل ہوں گی؛ اور
دوسرا سزا دینے اور نشانِ عبرت بنانے کا پہلو جس سے کبھی آپ پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور کبھی (ضرورت پڑے تو) آپ پر حملہ بھی کرلیا جاتا ہے۔ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں