شیباء عرفان :
افطاری سےکچھ دیر پہلے ہم روز میس روم ( پنجاب یونیورسٹی لاہور) سے افطاری کا سامان لینے جاتی ہیں جس میں کبھی پکوڑے ، اگلے دن دہی بڑے ، کبھی سموسے ہوتے ہیں ۔ کجھور اور شربت ہر روز ہوتا ہے کبھی سرخ رنگ کا اور کبھی پیلا ۔ ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے کہ کہیں دیر نا ہو جائے کیونکہ کمرے میں آ کے بھی کچھ شربت یا جوس بنائے جاتے ہیں۔ ہر طرف تیز تیز چلنے اور کام ختم کرنے کی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں ۔
ہم روز برتن میس روم میں چھوڑ کے چہل قدمی کے لیے نکل جاتی ہیں، یا کچھ سامان خریدنے جو ہمیں ہوسٹل کے ملحقہ ایریا کی بیک شاپ سے یا پھر ایس ٹی سی سے مل جاتا ہے۔آج بیک شاپ کسی وجہ سے بند تھی ہم دیکھ کے واپس جانے کی بجائے چار ہوسٹلز کے مشترکہ گرائونڈ جو ان ہوسٹلز کی پشت پہ لگتا ہے، ہم وہاں چلی گئیں۔ واہ ! کیا خوبصورت گرائونڈ ہے!! وہاں بہت سارے گھنے درختوں کے ساتھ ساتھ خوبصورت پھولوں والے پودے ہیں، جاگنگ ( ٹہلنے کے لیے ) گرائونڈ کے چاروں طرف ٹریک ہے۔
گرائونڈ کی مغربی طرف باسکٹ بال کی گرائونڈ اور مشرق کی طرف والی بال اور فٹ بال کی گرائونڈ ہیں۔ عین وسط میں چاروں ہوسٹلز کو ملاتا ہوا راستہ ہے جو دونوں طرف سے گہرے درختوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ راستہ صرف لڑکیوں کے آنے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا ورکرز گزر سکتے ہیں۔ باقی کسی کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں۔ ہم کچھ دنوں سے سوچ رہی تھیں کہ اس باسکٹ بال والی پکی گرائونڈ میں ہم افطاری کریں گی ، مگر ہوسٹل کے اوقات کو دیکھتے ہوئے اس پر عمل نہیں ہو پا رہا تھا۔
درختوں کے بیچ سے نظر آتا ڈھلتا ہوا سورج اپنے اندر ڈھیر ساری خوبصورتی سمیٹے مدھم سے مدھم ہوتا جا رہا تھا۔ شام کے وقت پرندوں کے جھنڈ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ آسمان پر اڑتے یہ پرندے آسمان کی دل کشی بڑھا رہے تھے۔ کچھ مینائیں اب بھی رزق کی تلاش میں تگ و دو کرتی نظر آرہی تھی۔ ایک اونچے درخت پر جس کی ٹہنیاں بہت باریک تھی ایک اداس سا چیل بیٹھا تھا جیسے کسی سوچ میں بہت مگن ہو ۔اسی درخت کی اوٹ میں سے جھا نکتا ہوا چاند دل کو بہت بھا رہا تھا۔
ہم سوچ رہی تھیں کہ افطاری کے لیے وقت کم ہوتا جا رہا ہے مگر ہم قدرتی حسن کی دلدادہ ان تمام مناظر کو اپنے اندر سمیٹنے میں ایسی مگن کہ جیسے کسی اور کام کی پرواہ نہ ہو۔
ہر چیز کو دیکھنے اور بہت غور کرنے کے ساتھ دل یہی چاہ رہا تھا کہ افطاری اس خو بصورت جگہ پر ہی کی جائے ۔ آج کل کورونا کی وجہ سے لڑکیاں بہت کم ہو گئی ہیں ہوسٹلز میں۔ پہلے یہاں ہر وقت چہل پہل دکھائی تھی اور لڑکیوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں لیکن آج ایسا نہیں تھا۔
ہم ہوسٹل کی طرف یہ سوچ کر مڑ رہے تھے کہ افطاری میں کوئی دس ، پندرہ منٹ رہ گئے ہیں۔ ہوسٹل واپسی کے لیے مڑتے ہوئے نظر ایک خوبصورت درخت پر اٹک گئی۔ اس درخت کے ساتھ کسی تعلق کا احساس سا ہوا جیسے پہلے کہیں دیکھا ہو مگر مزید کچھ یاد نہیں آیا ۔
تصویر بنانے کی ناکام کوشش کی کہ وہ درخت میرے کیمرے میں پورا ہی نہیں آ رہا تھا ۔ وقت کی کمی کا احساس بھی ہو رہا تھا ، مگر ایک اور دل چسپ منظر اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔ درخت کے نیچے پڑے اس کے خشک برائون سے پتے ہری گھاس پر بچھے قالین کا سا احساس دلا رہے تھے۔
درخت کے اوپر کچھ عجیب سا لٹکتا دکھائی دیا جو دور سے تو انناس جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اس پر ہم دونوں سہیلیاں خوب زور سے ہنسیں کہ مفت میں اتنا مہنگا پھل اور یہاں؟ تب پتا نہیں چلا کہ یہ کیا ہے؟ زمین پر گرے ہوئے اس خشک نما پھل کو اٹھا کے اندازا ہوا کہ یہ جیسے چیڑ کا درخت ہو۔
ہم اس درخت کو دیکھنے، اس کا جائزہ لینے، اس کا مطالعہ کرنے میں مزید وقت نہیں لگا سکتے تھے چنانچہ ہاسٹل کی طرف بھاگے، افطاری کا سامان لیا اور کمرے میں پہنچ گئے۔ ہم نے وہاں سے دو خشک پھل یا وہ پھول جو درخت کے نیچےگرے تھے، ہاتھ میں اٹھا لیے تھے کہ کمرے میں جا کے انھیں کسی جگہ سجائیں گے۔
افطاری اور نماز سے فراغت کے بعد پہلا کام اس درخت کے بارے میں گوگل پر تحقیق کا تھا کہ آیا یہ چیڑ کا ہی درخت تھا ۔
ہاں ! یہ چیڑ کا ہی درخت ہے۔ تسلی کے بعد اس کے خدوخال پر سوچا اور تحقیق جاری رکھی۔
اب یاد آگیا کہ یہ درخت مجھےاسلام آباد سےمری جاتے ہوئے قطاردرقطار نظر آئے تھے جو سڑک کے دونوں کناروں پر بلند و بالا پہاڑی جنگل کی صورت میں نظر آتے ہیں ۔ مجھے اس ایک درخت سے وہ گزرے ہوئے سب پل یاد آگئے جو دوستوں کے ساتھ گزارے تھے۔ شکریہ ! ایک خوبصورت درخت مجھے خوبصورت لمحات یاد کروانے کے لیے۔
چیڑ کے درخت کی تاریخ اور خدوخال
انگریزی زبان میں چیڑ کے درخت کو Chir Pine یا Long leaf indian Pine کہتے ہیں۔ یہ درخت کوہ ہمالیہ کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں تبت ، پاکستان ، افغانستان ، شمالی انڈیا، جموں اور کشمیر کے علاقے ، نیپال ، بھوٹان اور برما (میانمار) شامل ہیں۔
پنجابی زبان میں چیڑ چپکنے والی چیز کو کہتے ہیں ، مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے پنجابی زبان کا لفظ ہو کیونکہ وہ انناس کی شکل کا خشک سا پھل ہاتھوں کے ساتھ بہت چپک رہا تھا۔ اس کے درخت کم اونچائی والے ہمالیائی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ اس درخت کی عمومی اونچائی فٹ (m500-2000 (1600-6600 تک ہوتی ہے۔
چیڑ کے درخت کی اور بھی مختلف اقسام ہیں جو اپنے علاقوں کے حساب سے مخصوص ہیں۔اس درخت کی چھال نسواری اور سرخ جسے ہم (red- brown) کہتے ہیں۔ پتے سُویوں کی طرح باریک ہوتے ہیں۔
جہاںتک چیڑ کے فوائد کا سوال ہے ، یہ درخت خوبصورتی کے علاوہ کسی خاص کام نہیں آتا ۔ اس درخت کی عجیب سی خصوصیت یا نقصان یہ ہے کہ اپنے گرے ہوئے پتوں کے نیچے کسی اور درخت کو بڑھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سوائے ایک جڑی بوٹی کے جسے ” جنس خر زیرہ “ کہتے ہیں۔ اس بوٹی پر جامنی رنگ کے پھول اگتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے تحت کل 24 کروڑ درخت لگائے گئے ہیں، جن میں چیڑ ( جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بکثرت پایا جاتا ہے) کے سب سے زیادہ یعنی 5.1 کروڑ درخت شامل ہیں جو کل لگائے گئے درختوں کا تقریباً 21 فیصد بنتا ہے۔
ماہرین کے مطابق چیڑ کی اگر مناسب دیکھ بھال کی جائے تو اس کی کامیابی کا تناسب 50 فیصد ہوتا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر حیرت انگیز طور پر آسڑیلیا سے منگوائے گئے یوکلپٹس ( سفیدہ ) کے درخت ہیں جس کے 2.66 کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جو کل تعداد کا تقریباً 11 فیصد بنتے ہیں۔
چیڑ کا درخت انسان دوست ہے مگر تحقیق کے مطابق خطرناک چیز یو کلپٹس کے درخت ہیں جو انسانیت دشمنی کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ زیر زمین پانی کو ختم کرتے جا رہے ہیں جو آنے والے وقت میں بہت نقصان کا باعث بنے گا۔ پاکستانی حکومت کو صرف ایسے پودے اور درخت لگانے چا ہئیں جو انسان دوست ہوں ، جو لوگوں کو فائدہ پہنچا سکیں نا کہ آنے والے وقتوں میں تکلیف کا سبب بنے۔
4 پر “چیڑ کا درخت اور ماضی کی یادیں” جوابات
واہ کیا عمدہ تحریر ہے ❤️
بہترین الفاظ کا چناؤ، انداز بیاں اور بہت اچھی معلومات ۔۔۔ آپ بہت اچھی مصنفہ ہیں۔۔ ❤️ میرے علم میں اضافہ کرنے کے لیے شکریہ۔۔ اللہ آپکے علم میں مزید اضافہ کرے آمین
بہت ہی عمدہ ۔۔۔۔ لکھنے کا انداز اتنا خوبصورت تھا کہ مجھے اپنا آپ اس منظر میں ہی کہیں دکھائی دیا، میں کھو گئی تو تحریر ہی مکمل ہو گئی 😅
آپ کا اندازِ بیاں بیت کمال کا ہے.
جس طرح "آپ خود خوبصورت ھیں آپ کا انداز بیاں بھی بھت خوبصورت ھے ❣️❣️