ڈاکٹر محمد مشتاق، ممتاز ماہر قانون :
پہلے یہ پڑھیے
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 1 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 2 )
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی ( 3 )
دس رکنی بنچ کے سامنے جب کیس شروع ہوا تو ابتدا سے ہی معلوم ہوگیا کہ کیس بدنیتی پر مبنی ہے اور ریفرنس کی تیاری میں قدم قدم پر قانون کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ اس لیے عدالت میں مقدمہ آگے بڑھانے کے بجائے ایک دفعہ پھر وزرا نے پریس کانفرنس اور ٹاک شوز کا رخ کیا اور ففتھ جنریشن والوں نے سوشل میڈیا پر اودھم مچانا شروع کیا۔ تاہم چونکہ جسٹس صاحب کے وکلا کی جانب سے کیس بہت ہی پروفیشنل طریقے سے انتہائی مؤثر حکمتِ عملی کے ساتھ چلایا گیا، اس لیے حکومت کو مجبور ہوکر اپنے وزیرِ قانون کو استعفا دے کر بطورِ وکیل عدالت میں دلائل دینے کےلیے بھیجنا پڑا۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے ویسے تو عدالت کا وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا لیکن ایک اوچھا وار ان کی جانب سے یہ کیا گیا کہ انھوں نے یہ مان چکنے کے بعد کہ لندن فلیٹس کی ملکیت جسٹس صاحب کے نام پر نہیں ہے، انھوں نے جسٹس صاحب کی اہلیہ کو نشانے پر رکھ لیا۔ ان کا یہ اوچھا وار مسز سرینا عیسیٰ نے اس طرح ناکام بنادیا کہ انھوں نے از خود عدالت کے سامنے ان فلیٹس اور اپنے اثاثہ جات کی تفصیل دینے کی اجازت طلب کی۔
کیس کا وہ موڑ بہت حیران کن تھا جب جسٹس صاحب خود عدالت میں تشریف لائے اور عدالت کو بتایا کہ وہ مسز سرینا عیسیٰ کے نمائندے کے طور پر ان کا پیغام لائے ہیں کہ عدالت چاہے تو وہ اس بارے میں ساری تفصیلات دے سکتی ہیں۔
یہ جوابی وار انتہائی کاری تھا کیونکہ اس مرحلے تک مسز سرینا عیسیٰ سرے سے اس کیس میں فریق ہی نہیں تھیں، نہ ان کو اور نہ ہی ان کے وکیل کو سنا گیا تھا، نہ ان کے حق میں یا ان کے خلاف دلائل دیے گئے تھے۔ عدالت نے ان کو وڈیو لنک پر اپنا بیان ریکارڈ کرنے کی اجازت دے دی جس کے بعد انھوں نے ساری تفصیلات دے دیں اور جسٹس بندیال نے سب کے سامنے آبزرویشن دی کہ ہم مطمئن ہوگئے ہیں لیکن اگر ٹیکس وغیرہ کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ متعلقہ حکام دیکھیں گے۔ اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور اگلے دن مختصر حکم جاری کیا گیا۔
اب یہاں تک کیس کی کارروائی اور متعلقہ قانونی اصولوں پر آپ کی نظر ہو، تو یہ بات سمجھنی مشکل نہیں کہ معاملہ جسٹس صاحب کے خلاف ریفرنس کا تھا اور اس ریفرنس کا بدنیتی پر مبنی ہونا بھی واضح ہوگیا اور اس کی تیاری میں قانون کی سنگین خلاف ورزیاں بھی ثابت ہوگئیں۔
چنانچہ اصولاً ہونا یہ چاہیے تھا کہ نہ صرف اس ریفرنس کو کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا بلکہ اس بدنیتی پر مبنی غیر قانونی ریفرنس کی تیاری میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جاتا۔ تاہم انتہائی حیران کن امر یہ رہا کہ ریفرنس کو تو دس کے دس جج صاحبان نے کوڑے دان میں پھینک دیا لیکن ان میں سات جج صاحبان نے غیرقانونی ریفرنس تیار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دینے کے بجائے ایف بی آر کو حکم دیا کہ وہ مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس امور کا جائزہ لے کر تین مہینوں کے اندر اپنی رپورٹ سپریم جیوڈیشل کونسل میں پیش کردے اور اس کے بعد جیوڈیشل کونسل دیکھ سکتی ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں جسٹس صاحب کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے یا نہیں؟
بھئی، جب آپ نے ریفرنس ختم کردیا تو اب قانون کو اپنا راستہ خود چننے دیں۔ مسز عیسیٰ کے خلاف جیوڈیشل کونسل میں کیس نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وہ تو صرف جج صاحبان کے خلاف شکایات پر کارروائی کرسکتی ہے؛ اور ایف بی آر کو جسٹس صاحب کے خلاف کارروائی کا حق نہیں تھا کیونکہ معاملہ تو مسز عیسیٰ کی جائیداد کا تھا۔ تو اگر اس جائیداد یا ٹیکس کا کوئی مسئلہ تھا بھی تو عام شہریوں کی طرح مسز عیسیٰ کے بارے میں متعلقہ ٹیکس آفیسر ” از خود “، جی ہاں از خود نہ کہ کسی کے حکم پر، کارروائی کا اختیار رکھتا تھا۔ اسے اس کارروائی سے کسی نے روکا نہیں تھا۔ تاہم اس کے بجائے ان سات جج صاحبان نے نہ صرف کارروائی کا حکم دیا بلکہ اس کےلیے مدت بھی مقرر کرلی۔
اسی طرح سپریم جیوڈیشل کونسل کسی جج کے خلاف شکایات کی بنیاد پر از خود کارروائی کرسکتی ہے یا صدارتی ریفرنس اس کے پاس آئے تو وہ کارروائی شروع کرسکتی ہے لیکن صدارتی ریفرنس تو آپ نے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا!
گویا آپ نے ایک ہی معاملے پر حکومت کی جانب سے تیار کردہ ایک ریفرنس کو ختم کردیا اور پھر اسی معاملے میں حکومت کے ایک اور ادارے کو رپورٹ تیار کرنے اور اس رپورٹ کو جیوڈیشل کونسل کے سامنے بطور ” شکایت “ رکھنے کا بندوبست بھی کردیا!
مزید اہم نکتہ یہ ہے کہ جب آپ کا فیصلہ آیا تو متاثرہ فریق کو حق تھا کہ وہ اس پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کرتا اور، کمزور ہی سہی لیکن یہ امکان تو تھا کہ نظرِ ثانی میں آپ پر غلطی واضح ہوجاتی تو آپ اپنا فیصلہ تبدیل کرلیتے، لیکن آپ نے نظرِ ثانی کا فیصلہ کرنے سے قبل ہی ایف بی آر کو حکم دیا کہ رپورٹ تیار کرکے تین مہینوں کے اندر جمع کرائے۔
دوسری جانب مختصر فیصلہ سناچکنے کے بعد خود اس کا تفصیلی فیصلہ کرنے میں آپ نے چار مہینے لگا دیے اور اس تفصیلی فیصلے کے آنے سے قبل نظرِ ثانی کی کارروائی ہو نہیں سکتی تھی۔ یوں آپ نے عملاً نظرِ ثانی کے حق کو ہی لغو کردیا!
واضح رہے کہ اس دوران میں عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ نظرِ ثانی کا فیصلہ ہونے تک اپنے حکم پر عمل درآمد روک دیں لیکن عدالت نے وہ درخواست بھی معلق کرلی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ درونِ خانہ کیا چل رہا تھا؟ ( جاری ہے )