اسریٰ غوری ……..
میں نے اپنی زندگی میں پہلا مرد دیکھا جس کے یہ خیالات ہیں ۔۔۔۔۔
خدا کرے مردوں میں یہ شعور پیدا ہوجائے کہ عورت چوکوں چوراہوں،قصے کہانیوں اور لطیفوں کے لیے نہیں ، عورت تو باعث عزت اور فخر ہے جس کے بطن سے تم پیدا ہوئے ۔۔۔۔۔۔
محمداحسن بٹ، معروف مترجم ہیں، لکھتے ہیں:
“اگر ایک ادیب کو نئے موضوعات نظر نہیں آتے یا سجھائی نہیں دیتے، وہ نئے خیالات و تصورات کے لیے بانجھ ہے اور صدیوں پرانے موضوع “عورت” پر ہی لکھ کر اپنے آپ کو مزاح کا تیس مار خاں سمجھتا ہے تو ادب کی اقدار کی رو سے اسے تھرڈ کلاس ادیب بھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔
جو لوگ نئے پڑھنے والے ہوں ان کے لیے ایسے ادیبوں کا مزاح اعلیٰ درجے کا مزاح ہو سکتا ہے لیکن جو لوگ کتابیں ۔۔۔۔ اور اب ویب سائٹوں پر پبلش ہونے والا ادب ۔۔۔۔ پڑھتے ہیں، انھیں گھن آتی ہے عورت کے بارے میں پست ترین باتیں پڑھ کر۔
ہو سکتا ہے بہت سے لوگ میری رائے سے تھوڑا یا مکمل اختلاف کریں۔ یہ ان کا انسانی حق ہے۔
عورت کو ادب و شعر اور دوسرے فنون کے علاوہ عمومی زندگی میں مرد سے کم تر بلکہ انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی وجوہ کا مجھے تو پورا علم ہے۔ کاش باقی لوگ بھی سوچیں۔
ایک بڑی ہی سادہ سی، بچوں کو بھی سمجھ آ جانے والی بات یہ ہے کہ جو بھی عورت کی تضحیک، تذلیل کرتا یا اسے حقیر یا مردوں سے ایب نورملی مختلف مخلوق بنا کر پیش کرتا ہے، اس کی ماں، بہنیں، بیٹیاں شاید عورت نہیں کوئ اور ہی مخلوق ہوتی ہیں۔
عورت کی تذلیل کرنے والے ادیبوں کی تحریروں میں عورت کی جگہ ان کی بیٹی کا نام لکھیں تو کیسا رہے گا؟
اگر میں بہادر ہوتا تو کبھی یہ تجربہ کرتا اور با ضمیر و با شعور قارئین سے پوچھتا کہ بھائیو، بہنو! اب یہ تحریر پڑھ، سن کر ہنس سکتے ہو؟
ایسے ہی ہم پڑھنے والے بھی سوکالڈ مزاحیہ تحریروں میں عورت کی جگہ اپنی اپنی بیٹی کا نام لکھ کر پڑھیں۔
ہمارے کلچر میں عورت کو انسان نہ سمجھنے کے اجہل مردوں کے نامردانہ رویے کے خلاف لکھنا، بولنا اس اکیسویں صدی کے پہلا ربع ختم ہونے کے برسوں میں بھی کوئی مرد، عورت لازمی نہیں سمجھتا تو اصل اسلامی اقدار کے مطابق میں تو صرف السّلامُ علیکم کہ کر ان سے بات کبھی نہیں کروں گا”۔