ڈاکٹر محمد مشتاق ، ممتاز ماہر قانون :
پہلے یہ پڑھیے
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (1)
قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (2)
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جنگ ایک جانب عدالت میں تھی تو دوسری جانب اس نے میڈیا ٹرائل کی صورت بھی اختیار کرلی اور اس دفعہ میڈیا ٹرائل صرف سوشل میڈیا پر ففتھ جنریشن والے ہی نہیں کررہے تھے بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ٹاک شوز میں بھی ایک طوفانِ بدتمیزی کا سلسلہ شروع ہوا۔
جج ہونے کے ناتے یہ جسٹس صاحب کےلیے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ پریس ریلیز جاری کرتے، میڈیا کو بریفنگ دیتے یا ٹاک شوز میں شرکت کرتے ۔ ( یہ سارے کام سرکاری ملازم ہونے کی حیثیت سے آرمی چیف کےلیے بھی نا جائز ہیں لیکن ان کےلیے جائز و ناجائز کا سوال ہی غیر متعلق ہے! ) اس پروپیگنڈا مہم کا ایک انتہائی غلیظ حصہ وہ تھا جس میں جسٹس صاحب کی اہلیہ اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور بہت سارے لوگ سنی سنائی کو آگے پھیلانے ( بلکہ مزے لے لے کر آگے پھیلانے) کے گناہ میں شریک ہوگئے۔
بہرحال صدارتی ریفرنس میں جب جسٹس صاحب کو سپریم جیوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اور دیگر کچھ اقدامات بھی لیے گئے تو جسٹس صاحب نے ان کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ یہی ان کے پاس واحد دستیاب قانونی راستہ تھا اور اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ان کےلیے یہ بات واضح تھی کہ یہ راستہ نہایت کٹھن، طویل اور صبرآزما ہے۔
آخر 30 سال تک بطور بیرسٹر انھوں نے قانون کی پریکٹس کی تھی اور 10 سال سے بطور جج اعلیٰ عدلیہ میں (پہلے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے) کام کرتے رہے تھے۔ اس جنگ میں پہلے وہ تنہا تھے لیکن پھر سپریم کورٹ بار، بلوچستان بار اور دیگر بار ایسوسی ایشنز بھی شریک ہوگئیں۔ چنانچہ ایک جانب ایک جج اور ان کے ساتھ وکلا برادری تھی، جو دستور اور قانون کی حدود کے اندر رہ کر جدوجہد کے قائل تھے، اور دوسری جانب ریاست کے تمام ادارے جن کےلیے دستور اور قانون کی حدود کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔
اس جنگ کے پہلے مرحلے میں یہ بات طے ہونی تھی کہ کیا سپریم کورٹ ایسے معاملے میں، جو سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے ہو، مداخلت کرسکتی ہے؟
چونکہ اس معاملے میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی برطرفی اور ان کے خلاف ریفرنس کے معاملے میں سپریم کورٹ پہلے ہی کچھ اصول طے کرچکی تھی، اس لیے ان اصولوں پر بنیاد رکھتے ہوئے بالآخر جسٹس صاحب یہ ابتدائی ریلیف لینے میں کامیاب ہوگئے کہ سپریم کورٹ نے ریفرنس کی تیاری اور دائر ہونے کے دوران میں بدنیتی اور لاقانونیت کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ اس جنگ میں پہلی بڑی کامیابی تھی۔
دوسری بڑی کامیابی انھوں نے یہ حاصل کی کہ عدالت کو اس پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے جس میں اس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہےاور اس لیے اس کی سماعت فل کورٹ، یعنی سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان نے مل کر، کرنا ہے۔ یوں انھوں نے اپنے آپ کو پوری سپریم کورٹ کے سامنے احتساب کےلیے پیش کردیا۔
یاد ہوگا کہ مقدمات میں اکثر طاقتور لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا کیس ان کی مرضی کے جج کے سامنے لگایا جائے۔ ایسا کون ہوتا ہے جو یہ کہے کہ سارے جج مل کر بیٹھیں اور میرے کیس کا فیصلہ کریں؟
اس مرحلے پر یہ سوال اٹھا کہ کیا فل کورٹ میں وہ جج صاحبان بھی بیٹھ سکتے ہیں جو سپریم جیوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں ( یعنی چیف جسٹس اور دو سینیئر جج صاحبان ) جنھوں نے اس ریفرنس پر ابتدائی کارروائی کرکے جسٹس صاحب کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے جبکہ یہاں اس ریفرنس اور شوکاز نوٹس کو ہی چیلنج کیا جارہا ہے؟
مختصر بحث کے بعد یہ اصول مان لیا گیا کہ اصولاً ان تین جج صاحبان کو اس بنچ میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اگر جسٹس صاحب کو معزول کیا جائے تو کن جج صاحبان کو ان کی معزولی سے فائدہ ہوسکتا ہے؟ اس سوال پر جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن کو بنچ سے الگ ہونا پڑا کیونکہ جسٹس صاحب کی معزولی کی صورت میں وہ چیف جسٹس بن سکتے تھے جبکہ جسٹس صاحب کی موجودگی میں ان کا چیف جسٹس بننا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ مفادات کے تصادم کے اصول پر ان دو جج صاحبان نے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا (ایک نے ہنسی خوشی اور دوسرے نے مارے باندھے)۔
یوں دس جج صاحبان کا بنچ تشکیل پایا جس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور باری ایسوسی ایشنز و دیگر کی درخواستوں کی سماعت کرنی تھی۔ واضح رہے کہ اس بنچ میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب کے سوا باقی آٹھ جج جسٹس صاحب سے جونیئر تھے۔
(جاری ہے)