قاضی فائز عیسیٰ ، جج سپریم کورٹ آف پاکستان

قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں ایک عظیم کامیابی (1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرمحمد مشتاق : ممتاز ماہر قانون

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی یہ جنگ قانون کی بالادستی کی جنگ تھی اور آج اس جنگ میں بہت بڑی کامیابی ملی ہے، الحمد للہ۔
پہلے تو آج کے فیصلے کے متعلق مختصر وضاحت نوٹ کرلیں کیونکہ بعض دوستوں کی سمجھ میں یہ فیصلہ نہیں آیا۔

بنچ میں دس جج صاحبان تھے جنھوں نے پچھلے دس رکنی بنچ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرکے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ فیصلہ درست تھا یا نہیں؟
یاد ہوگا کہ پچھلے بنچ میں دس کے دس جج صاحبان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر خارج کردیا تھا ۔ اس کے بعد سات جج صاحبان نے ایف بی آر کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک مقررہ مدت میں مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ سپریم جیوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کردے اور اس کے بعد جیوڈیشل کونسل دیکھے گی کہ کیا ان گوشواروں میں کچھ بے ضابطگیاں ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو کیا ان کی بنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے خلاف ریفرنس بنتا ہے یا نہیں؟

تین جج صاحبان (جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی) نے اس نکتے سے اختلاف کیا اور قرار دیا کہ جب ریفرنس کو بدنیتی کی بنا پر خارج کردیا گیا تو پھر اسی بنیاد پر نیا کیس نہیں بن سکتا۔ نیز مسز سرینا عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں کا مسئلہ کسی بھی دوسرے شہری کی طرح ایف بی آر الگ سے دیکھنا چاہے تو اس کی مرضی لیکن ہم اس پر حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔

ان تین جج صاحبان میں ایک (جسٹس یحیٰ آفریدی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست مسترد کی تھی لیکن دیگر درخواستیں قبول کرلی تھیں۔
یوں تین جج صاحبان کے نزدیک معاملہ ختم ہوگیا تھا لیکن سات جج صاحبان نے ایف بی آر کو حکم دے کر ایک نیا سلسلہ شروع کردیا۔

سات ججز کے فیصلے کے اس اضافی حصے کے خلاف نظرِ ثانی کی کئی درخواستیں دائر کی گئیں، جن میں ایک درخواست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے بھی تھی۔
آج ان درخواستوں پر فیصلہ دیتے ہوئے چار جج صاحبان (جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین الدین) نے ان سب درخواستوں کو مسترد کردیا اور اپنے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا؛
پانچ جج صاحبان (جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان) نے سب درخواستیں قبول کرلیں؛ اور
ایک جج صاحب (جسٹس یحیٰ آفریدی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست تو مسترد کردی لیکن باقی سب درخواستیں قبول کرلیں۔

یوں چار کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے طے پایا کہ پچھلا فیصلہ غلط تھا اور سارا معاملہ ختم ہوگیا ہے۔
اس فیصلے کے بہت دور رس اثرات ہوں گے۔ ان پر بحث کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن پہلے ان مراحل پر مختصر تبصرہ ضروری ہے جو اس فیصلے تک پہنچنے سے قبل طے ہوئے۔
(جاری ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں