گستاخانہ خاکوں کے خلاف لندن میں مسلمانوں کا احتجاج

آپ کے بدن سے روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نکل چکی ہے تو۔۔۔۔۔۔

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ربیعہ فاطمہ بخاری :

حالیہ دنوں میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے کالعدم تحریک اور حکومتِ پاکستان کے درمیان محاذ آرائی کے بعد گستاخانہ خاکوں کا معاملہ پھر سے زیرِ بحث ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں اور رنگ رنگ کی باتیں پڑھنے سُننے کو مل رہی ہیں۔ انہی میں ایک بات تواتُر سے پڑھنے کو مل رہی ہے کہ کیا عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں، باقی دُنیا کے مسلمانوں کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبّت نہیں ہے!!!

میرا ماسٹرز کا مقالہ اسی موضوع پہ تھا، جب 2006ء میں غالباً ایک بدبخت ڈینش اخبار نے گُستاخانہ خاکے بلکہ صدف آپا کے بقول یہ خاکے نہیں مسخاکے caricatures ہیں، یعنی ارادتاً بگاڑے گئے کارٹونز، شائع کئے تھے، اُس وقت بھی مجھے تحقیق کے دوران ساری مسلمان دُنیا میں نہایت زبردست احتجاج دیکھنے کو ملا۔

ساری دُنیا کے مسلمان اس گھٹیا حرکت کے خلاف اُس وقت بھی سراپا احتجاج تھے اور گزشتہ برس جب ایک فرانسیسی اخبار نے یہی گھٹیا حرکت دُہرائی، تب بھی پوری اسلامی دُنیا سراپا احتجاج تھی، ساری دُنیا میں مسلمانوں کی ” لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ کی صدائیں گُونج رہی تھیں۔ ہمارا وہ طبقہ جو اسلام سے ہی بیزار ہے، یا محض اس وجہ سے مسلمان ہے کہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہو گئے، جنہیں نہ حب خُدا کا ادراک ہے نہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے اُن کے دل عشق و حُبِّ ذاتِ باری تعالٰی اور حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عاری ہیں، ویسے ہی ہر مسلمان کا دل ہے۔

حالت یہ ہے کہ ان کی وال پہ ان کی لکھی گئی تحریر کے خلاف کوئی تبصرہ کر دے، کوئی نامناسب زبان استعمال کر دے، ان کی ذات کے خلاف، یہ اپنی عزّت اور حُرمت کی خاطر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں لیکن ذاتِ باری تعالٰی کی گُستاخی کی جائے یا خدانخواستہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کے مسخاکے شائع کئے جائیں، ان کے دل میں ہلکا سا ملال بھی نہیں گزرتا۔

نہیں صاحب۔۔!!
ذاتِ باری تعالٰی ہو یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کی حُرمت، یہ ہر ایمان کی حرارت رکھنے والے مسلمان کی حدِّ فاصل ہے۔ کوئی بھی مسلمان ٹھنڈے پیٹوں اس طرح کی گھنائونی حرکت کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جس کا جہاں تک زور چلتا ہے، وہ اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرواتا ہے۔

یہ ہمارے باون ممالک کے حکمرانوں کی بے حمیّتی اور بے غیرتی ہے کہ اس نازک ترین معاملے پہ ابھی تک یہ اتّحاد قائم کر کے، ایک مشترکہ لائحہ عمل نہیں بنا پائے۔ اب تک یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف میں پہنچ جانا چاہیے تھا۔ باون ممالک بیک آواز ہو کے اس حوالے سے اپنا موقف عالمی برادری کے سامنے رکھیں گے تو یقیناً اس طرح کی گھٹیا اور گھنائونی حرکت کا مستقبل کے لیے سدِّ باب ہو جانا ممکن ہو گا۔ لیکن اس سب کیلئے غیرتِ ایمانی کی ضرورت ہے، جو بدقسمتی سے مسلم دُنیا کے حکمران طبقے میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔
ہر کوئی ذاتی اقتدار کی طوالت کیلئے کوشاں ہے اور بس۔

روحِ محمّد اگر آپ کے بدن سے نکل چُکی ہے تو یہ مت سمجھیے کہ ہر مسلمان بے روح اسلام اپنے سینوں میں لئے پھر رہا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں